غنچہ ادب ” گلستان ادب میں ایک اضافہ”

انوار الحسن وسطوی
زیر تذکرہ کتاب ” غنچۂ ادب ” جواں سال قلم کار اور صحافی قمر اعظم صدیقی کے مضامین کا پہلا مجموعہ ہے جو اردو ڈائرکٹوریٹ ، محکمہ کا بینہ سکریٹریٹ کے تحت سال رواں (2024 ء) میں ہی شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے ۔ دراصل موصوف کی پہلی کتاب” برگ ہائے ادب ” ہے جس کا مسودہ گذشتہ تین برس قبل قومی اردو کو نسل، حکومت ہند (نئی دہلی) میں جمع کیا گیا تھا۔ جس کے فیصلہ کا ہنوز انتظار ہے ۔ ” غنچہ ادب” میں شخصیات کے حوالے سے سات تعارفی اور تاثراتی نوعیت کے مضامین کے علاوہ سات متعدد کتابوں پر لکھے تبصرے بھی شامل ہیں ۔اس کتاب کا ایک اچھوتا مضمون “اردو میں سر گرم ویب سائٹس اور پورٹل : ایک تجزیاتی مطالعہ ” ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور معلوماتی مضمون ہے۔ سائنس اور ٹیکنا لوجی کے اس عہد میں اس مضمون کی اہمیت ، معنویت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس مضمون میں ان کے قائم کردہ پورٹل ” ایس آر میڈیا ” کا بھی تذکرہ ہے جس کے وہ بانی اور ایڈمن بھی ہیں ۔ اپنے اس پورٹل کے ذریعہ وہ پوری اردو دنیا سے مربوط ہیں ۔ وہ اپنے اس پورٹل پر نامور صاحب قلم لوگوں کے ساتھ ساتھ چند نو وارد اور غیر معروف ادبیوں ، فنکاروں اور قلم کاروں کی تخلیقات کو بھی جگہ دیتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ اردو زبان و ادب اور صحافت کے میدان میں وہ مشہور بھی ہیں اور مقبول بھی ۔ قمر اعظم صدیقی کا اردو زبان و ادب سے لگاؤ ان کا خاندانی ورثہ ہے ۔ ان کے والد گرامی شہاب الرحمن صدیقی ہائی اسکول میں اردو کے استاد رہے ۔ ان کے دادا محترم جناب عبد الوہاب (مرحوم) مشاعرہ کے رسیا تھے ۔ قمر اعظم صدیقی کی نانیہال (حسن پور وسطی مہوا ویشالی ) میں چار پشتوں سے اردو شعر و ادب کا چرچا جاری و ساری ہے ۔، حکومت بہار کے” اشاعتی امداد منصوبہ “


ان ہی عوامل نے موصوف کو مہمیز کیا جس کے نتیجے میں وہ بھی اردو زبان و ادب کے سپاہی اور شیدائی ہو گئے ۔
دربھنگہ ٹائمز پبلیکیشنز سے شائع زیر تذکرہ کتاب ” غنچہ ادب ” 136 صفحات پر مشتمل اور تین ابواب میں منقسم ہے۔ جیسا کہ قبل یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ کتاب کا پہلا باب “شخصیات” کے عنوان سے ہے جس کے تحت سات مضامین شامل ہیں۔ پہلا مضمون علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ پر ہے جس میں علامہ کی شخصیت اور ان کے فکر و فن پر گفتگو کی گئ ہے ۔ دوسرا مضمون اردو کے ممتاز شاعر و ادیب ماہر القادری کی شخصیت اور کارنامے سے متعلق ہے ۔
تیسرا مضمون نامور عالم دین اور فقیہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی رحمت اللہ علیہ قاضی القضا امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کی دینی و ملی خدمات کے اعتراف میں ہے ۔ چوتھا مضمون مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی سابق امیر شریعت امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ و جھار کھنڈ کی حق گوئی و بے باکی اور ان کی حکمت و دانائی کے واقعات پر مشتمل ہے ۔ پانچواں مضمون مصنف نےاپنے نانا جان جناب محمد داؤد حسن (مرحوم) کے متعلق شامل کتاب کیا ہے جس میں موصوف نے اپنے نانا مرحوم سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی مثالی انسانی خوبیوں کا برملا اظہار کیا ہے۔ کتاب کا چھٹا مضمون اردو کے نامور ادیب و ناقد اور ویشالی کی اردو تحریک کے مضبوط سپہ سالار ڈاکٹر ممتاز احمد خان (مرحوم) کے متعلق ہے جس میں ان کی اردو دوستی ان کی عاجزی و انکساری اور ان کی انفرادیت کا کھلا اعتراف موجود ہے ۔ شخصیات کے اس باب کا آخری مضمون ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق پر ہے جو مصنف کے استاد رہے تھے ۔ اپنے استاد سے انھیں کتنی عقیدت و محبت تھی اور پھر ان کی ایمانداری ، خاکساری اور انکساری سے وہ کس قدر متاثر تھے ، اس کی تفصیل اس تحریر میں موجود ہے ۔


کتاب کا دوسرا باب “صحافت” کے عنوان سے ہے، جس کی سرخی ہے ” اردو میں سرگرم ویب سائٹیں اور پورٹل ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ ” یہ مضمون 45 صفحات پر محیط ہے ۔ مصنف نے یہ مضمون اردو صحافت کے (200) سال مکمل ہونے کے موقع سے مارچ 2022ء میں رقم کیا تھا۔ اس تحریر میں اردو کے دو درجن سے زائد ویب سائٹس اور پورٹل کا ذکر ہے جو خدمت اردو کے جزبے سے چلا جا رہے ہیں ۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک اچھوتی تحریر ہے جس پر شاید کسی نے اب تک خامہ فرسائ نہیں کی ہے۔ موصوف نے اپنے اس مضمون میں ہندوستان میں کام کر رہی اردو الیکٹرانک اور سوشل سائٹس کا تفصیلی اور حوالوں کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ موصوف کا یہ مضمون اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر پروفیسر صفدر امام قادری کی مرتبہ کتاب میں بھی شامل ہے ۔ بلا شبہ یہ مضمون اپنی اہمیت اور افادیت کے اعتبار سے بے حد معلوماتی اور کارآمد ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اردو کی ان سائٹس سے نابلد اور نا واقف ہیں ۔


کتاب کا تیسرا باب ” کتابوں کی باتیں ” عنوان سے ہے ۔ اس حصے میں کل سات کتابوں پر لکھے تبصروں کو شامل کیا گیا ہے ، جن کے نام ہیں ” جہان ادب کے سیاح : ڈاکٹر امام اعظم” (ڈاکٹر خالد حسین) ,
آتی ہے اُن کی یاد ” (انوار الحسن وسطوی) ، ” میزان فکر و فن ” ( انور آفاقی ) ، ” ہم عصر شعری جہات “
( ڈاکٹر بدر محمدی ) ، ” تعلیم اور کیریر” ( ڈاکٹر مظفر نازنین ) ، “عکس مطالعہ “
( ڈاکٹر عارف حسن وسطوی ) ، اور ” پ تفہیم ” ( مظہر وسطوی) ‌۔ تبصرہ نگاری ایک مشکل فن ہے اس کے باوجود اس نو وارد مبصر نے غیر جانب داری ، ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ حق تبصرہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے جو یقیناً قابل تعریف ہے ۔
غنچہ ادب” کی اشاعت قمر اعظم صدیقی کی پہلی تصنیفی کاوش ہے ۔ اپنی اس پہلی کاوش میں ہی وہ کامیاب رہے ہیں یہ اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے ۔ یہ صرف راقم السطور کی رائے نہیں ہے بلکہ کتاب ہذا میں شامل ملک کے تین نامور ادیب ، ناقد اور محقق کے آرا بھی اس کے شاہد ہیں۔
بطور مثال یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں :
گذشتہ پانچ سالوں کے اندر ویشالی ضلع کے ادبی افق پر جو چند نام ابھر کر
سامنے آئے ہیں ان میں قمر اعظم صدیقی کا نام نمایاں ہے ۔ تجارت کے ساتھ ادب کا بھی شعور ان کے اندر ہے ۔ اس کا احساس و ادراک کم لوگوں کو تھا ۔ قمر اعظم صدیقی کو اردو زبان میں لکھنا پڑھنا ورثہ میں ملا ہے ۔ لیکن وہ اس طرف پہلے متوجہ نہیں تھے ۔ اب تو لگتا ہے کہ وہ تجارت کم کرتے ہیں اور علم و ادب کی مشاطگی میں زیادہ وقت لگاتے ہیں ۔
ایس آر میڈیا کے نام سے ان کا اپنا پورٹل ہے جس کے وہ بانی بھی ہیں اور ایڈ من بھی ۔
(مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ” غنچہ ادب ” ص – 10)
قمر اعظم صدیقی صوبہ بہار کے ادب شناس خطے ویشالی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پیشے سے وہ تاجر ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اردو زبان و ادب سے والہانہ شغف بھی رکھتے ہیں۔ تجارتی مصروفیات سے موقع نکال کر ادبی ذوق میں مستغرق ہونا ان کا محبوب ترین مشغلہ ہے ۔ اسی ادبی ذوق کا نتیجہ” غنچہ ادب ” کی شکل میں ہمارے سامنے کتابی قالب میں موجود ہے ۔ ” غنچہ ادب ” سے قبل موصوف نے ” برگ ہائے ادب” کے عنوان سے بھی کتاب ترتیب دی ہے جو بوجوہ اشاعت پذیر نہیں ہو سکی ہے ۔ قمر اعظم صدیقی کی ادبی سرگرمیوں کا اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ صوبہ بہار کی مختلف ادبی تنظیموں کے رکن ہیں ۔ “
( ڈاکٹر ابراہیم افسر میرٹھ ” غنچہ ادب ص – 13)
قمر اعظم صدیقی نہایت سر گرم، مستعد اور فعال نوجوان قلم کار ہیں، جنہوں نے اپنے ایک ادبی پورٹل ” ایس آر میڈیا ” کے ذریعہ پوری اردو دنیا سے جہاں رابطہ قائم کر رکھا ہے وہ ہیں اپنی ادبی تحریروں کے ذریعہ ارباب دانش سے اپنا رشتہ قائم کئے ہوئے ہیں ۔ مختلف اخبارات اور رسائل میں نہ صرف ان کی تحریریں شائع ہوتی ہیں بلکہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھی بھی جاتی ہیں ۔ “غنچہ ادب” ان کے مضامین کا تازہ مجموعہ ہے جس میں انھوں نے سادہ اور سلیس زبان میں اپنے جذبات، احساسات ، خیالات اور تصورات کا اظہار کیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ ” غنچہ ادب ” سے گلستان ادب میں ایک نئی بہار آئے گی۔ “


(حقانی القاسمی ۔ کتاب کے بیک کور سے)
قمر اعظم صدیقی کے تعلق سے مذکورہ مشاہیر ادب کے خیالات چھ ماہ قبل کے ہیں ۔ آج کے تناظر میں معاملہ بالکل برعکس ہو چکا ہے ۔ موصوف اب کل وقتی تاجر ہو چکے ہیں اور علم و ادب کی مشاطگی کے لیے اب ان کے پاس وقت بالکل نہیں ہے ، جس کا نتیجہ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ کے درمیان ان کی کوئی تحریر منظر عام پر نہیں آئی ہے ۔ باری تعالٰی نے قلم کی جس دولت سے انھیں نوازا ہے یہ دولت ہر شخص کے حصے میں نہیں آتی ہے ۔ لہذا اس کی قدر کرنی چاہیئے اور اپنے تحریری ذوق کو برقرار رکھنا چاہیے ۔ مجھے یہ باتیں لکھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ان کے اس ذوق کو ابھارنے اور پروان چڑھانے میں راقم السطور کا بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ اور اب میں اپنی نگاہ سے ان کے اس ذوق کو ماند پڑتے دیکھ کر ملول ہوں ۔ بہر کیف مذکورہ مشاہیر ادب نے ” غنچہ ادب کے تعلق سے اپنے جن مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے وہ صد فی صد درست ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ موصوف ایک بار پھر اپنے ذوق کو سابقہ حالت میں واپس لے آئیں گے اور ان سے جو امیدیں وابستہ کی گئی ہیں ان پر وہ کھڑا اترنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔
غنچہ ادب ” کی تصنیف قمر اعظم صدیقی کی ایک عمدہ قابل تعریف کاوش ہے ۔ امید کرتا ہوں کہ مطالعہ کے شوقین حضرات اردو کے اس نو وارد ادیب اور قلم کار کی کتاب کو ضرور پڑھیں گے اور اسے اپنے مطالعہ کے ٹیبل کی زینت بنائیں گے ۔ یہ کتاب نور اردو لائبریری ، حسن پور گنگھٹی بکساما ویشالی) تیغیہ کتاب منزل دیسری روڈ، مہوا (ویشالی) ، رحمٰن منزل بھیرو پور ،حاجی پور اور حسن منزل آشیانہ کالونی باغ ملی ، حاجی پور سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لئے مصنف کے موبائل نمبر : 9167679924 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔

9430649112

انوار الحسن وسطوی

حیات عارف: تعارف و تبصرہ

Related Posts

عہدِ جاوداں

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی امیر شریعت سابعؒ کی شخصیت اوالعزمی، جواں مردی، ملت کے…

Read more

تذکرہ علماء مدھوبنی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ مولانا غفران ساجد قاسمی چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن وڈائرکٹر بصیرت جنرلزم اینڈ لنگویج اکیڈمی ممبئی، انتہائی…

Read more

’’ خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر‘‘تعارف و تأثر

انوار الحسن وسطوی +91 94306 49112 زیر نظر کتاب ” خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا پورم ، کیرالہ کی…

Read more

حیات عارف: تعارف و تبصرہ

ڈاکٹر نورالسلام ندوی عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد عارف ہرسنگھ پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے زبردست عالم دین، مصلح امت، خدا ترس اور صوفی باصفا تھے، حضرت…

Read more

رہنمائے راہ طریقت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ بہار میں چند بزرگان دین ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی لوگوں کی اصلاح، تصوف کے رموز ونکات…

Read more

مولانا محمد عالم قاسمی کی کتاب پٹنہ کی مشہور مساجد:تعارف و تبصرہ

  ڈاکٹر نورالسلام ندوی اسلام کی پوری تارےخ مسجد سے عبارت ہے۔ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں مسجد محض ایک رسمی عبادت خانہ نہ تھی، بلکہ باضابطہ تعلیم گاہ…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *