مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
بہار میں چند بزرگان دین ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی لوگوں کی اصلاح، تصوف کے رموز ونکات سکھانے، برتنے اور لوگوں تک اسے پہونچانے میں صرف کردی اور کر رہے ہیں، ان میں ایک نام حضرت مولانا مطیع الرحمن صاحب قاسمی رئیس المدرسین مدرسہ امدادیہ عربیہ شاہ کنڈ بھاگلپور کا ہے، وہ تواضع انکساری کی وجہ سے اپنے کو خادم المدرسین والطلبہ لکھتے ہیں، حالاں کہ وہ برسوں سے خدمت کے راستے پر چل کر مخدوم ہو چکے ہیں، ایک شاعر نے کہا ہے کہ
اگر تم بڑوں کی خدمت بجا لاؤگے تو خادم سے مخدوم ہو جاؤگے
حضرت مولانا نے ہندوستان کے تین بڑے اکابر شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی، برکۃالعصر حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رحہم اللہ کی خدمت میں وقت گذارا اور کسب فیض کیا ہے، مولانا منور حسین صاحب ؒ کی صحبت بھی انہیں نصیب ہوئی ہے، حضرت مولانا مفتی محمود حسن رحمۃ اللہ نے انہیں خلافت عطا فرمائی، چنانچہ مولانا کی حیثیت ان اکابر کے گذرنے کے بعد مخدوم ومربی کی ہوگئی ہے، اور ان کی خانقاہ سے بندگان خدا کو سوئے حرم لے جانے کا کام ہو رہا ہے اورمولانا اس کے محور ہیں۔ احقر کی بھی ایک دو ملاقات حضرت سے رہی ہے، ایک بار ان کے مدرسہ کے جلسہ میں بھی جانا ہوا تھا۔
”رہنمائے راہ طریقت واقوال واحوالِ اکابر ومشائخ وطریقت“ حضرت مولانا کی تازہ تالیف وتصنیف ہے، تالیف اور تصنیف کے اصطلاحی فرق سے قطع نظر میں نے ان دونوں کو ایک ساتھ ا س لیے لکھا ہے کہ حضرت نے خود ہی اپنے پیش لفظ میں دونوں کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کے کچھ مضامین تصنیف اور کچھ تالیف کے قبیل سے ہوں، اسی مناسبت سے حضرت نے تصنیف وتالیف کا لفظ ایک ساتھ استعمال کیا ہو، یہ بات قرین قیاس اس لیے معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نے اپنی کتاب رہنمائے راہ شریعت کے لیے تالیف کا لفظ اسی پیش لفظ میں لکھا ہے۔
حضرت مولانا کی یہ پہلی کتاب نہیں ہے، ایک درجن سے زائد کتابین مختلف موضوعات پر طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، ان میں رہنمائے راہ شریعت، دینی مدارس اور ان کا حل، دسویں محرم کے مشغلے، فیضان مطیع، علم الشرائع والاحسان، نسخۂ حصول معرفت، تصحیح معاملات، حقوق العباد، معمولات محمودیہ، عصبیت ایک بڑی لعنت، اتباع سنت واطاعت رسول، فکر آخرت میں اضافہ اور فتنہ خروج دجال، جنت الفردوس کے وارثین اور ان کے سات اعمال، علم وعمل وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
حضرت مولانا نے رہنمائے راہ طریقت میں جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس کے بارے میں خود ہی لکھتے ہیں:”میں نے اس کتاب کی تصنیف وتالیف میں ہر گز ہرگز کوئی خاص ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا ہے، جو مضمون سمجھ میں آتاگیا اور جن اکابر کے ملفوظات اور احوال معلوم ہوتے گیے، اسی انداز سے ترتیب دیتا رہا اور ایک ضخیم کتاب وجود میں آگئی، اب یہ ہمت نہیں رہی اور وقت میں اتنی گنجائش بھی نہیں رہی کہ پھر اس کو از سر نو ترتیب دیتا (صفحہ 22.23)
اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ اقوال واحوال اکابر ومشائخ طریقت پر مشمتل ہے، جن اکابر کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا ہے، ان میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا، حضرت مفتی محمود حسن، مولانا شاہ وصی اللہ صاحب الٰہ آبادی، حضرت مخدوم جہاں شرف الدین یحیٰ منیری،مخدوم جلال الدین جہانیان جہاں گشت، مولانا عبد الرحمن جامی، سید اشرف جہانگیر سمنانی، خواجہ عبد اللہ احرار، شیخ نظام الدین عرف شاہ بھکاری، جلال الدین سیوطی، عبد القدوس گنگوہی رحمہم اللہ اور درجنوں دوسرے اکابر خاص طور سے قابل ذکر ہیں،ا گر یہ ترتیب سے آجاتے تو کتاب کا پہلا باب ہوتا، اس کتاب میں اکابر کے مکتوبات کا اچھا خاصہ ذخیرہ جمع ہو گیا ہے جو اصلاح نفس کے لیے اکسیر اور کیمیا کا درجہ رکھتا ہے، یہ اس کتاب کا مضامین کیا عتبار سے دوسرا باب ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ جو مضامین ہیں اور جن کا تعلق تصوف کی اصطلاحات سے ہیں، مثلا: تصور شیخ،قطب، تجلی، قبض اور بسط، تصرف، توجہ، شریعت، طریقت اور نسبت اسے کتاب کا تیسرا باب قرار بنایا جاسکتا تھا، ان موضوعات کو الگ الگ باب در باب سمیٹا جاتا تو اس کتاب کی افادیت قاری کے لیے دو چند ہوتی، میں ان قارئین کی بات نہیں کرتا جو حضرت کے حلقہ ارادت میں شامل ہیں، ان قارئین کی بات کرتا ہوں جو حلقہ ارادت کے باہر ہیں، وہ عصر جدید کے آہنگ میں کتاب کو پڑھنا پسند کرتے ہیں، اگلے ایڈیشن میں حضرت کے خدام کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، اس سے مطالعہ میں ذہنی ارتکاز ہوتا ہے۔ مولانا مفتی اشفاق عالم صاحب استاذ حدیث جامعۃ الشیخ دیو بند بھی اس کام کو بآسانی کر سکتے ہیں۔
کتا ب کے مضامین انتہائی عمدہ اور زبان بھی سلیس ہے، اس سے طالبان سلوک کو بڑی مد د ملے گی، بزرگوں کے اقوال بھی تفصیل سے اس کتاب میں جمع ہو گیے ہیں، جوہدایت ورہنمائی میں کیمیا اثر ہیں، اسی خصوصیت کی وجہ سے حضرت تھانوی ؒ کے شرائط بیعت کی ایک دفعہ ان کے مواعظ اور ملفوظات کا مطالعہ بھی تھا، انہوں نے حضرت مولانا عبد العزیز نسبتیؒ کو اس وقت تک بیعت نہیں کیا، جب تک انہوں نے مواعظ و ملفوظات کا مطالعہ نہیں شروع کر دیا، اس کی تفصیل راقم الحروم (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کی کتاب حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور مولانا عبد العزیز بسنتی ؒ کے علمی مراسلے میں دیکھا جا سکتا ہے، یہ حضرت تھانویؒ کے پچاس خطوط ہیں، جو مولانا عبد العزیزبسنتی ؒکے نام ہیں۔
کتاب کی پروف ریڈنگ پر مزید توجہ کی ضرورت تھی، بعض فاش قسم کی املائی غلطی رہ گئی ہے، مثلا عنوان ہی میں عبد الوہاب شعرانی کو عبد الوہات (تا کے ساتھ) لکھا ہوا ہے۔ وغیرہ
چار سو اسی صفحات کی اس کتاب کی اشاعت بحیثیت ناشر وابستگان خانقاہ محمودیہ، مسجد فاطمہ حضرت قطب الدین ملا لے آوٹ، امن نگر، بیلگام، کرناٹک نے کیا ہے، ٹائٹل اور اندر میں ناشر کا پتہ الگ الگ دیا گیا ہے، اندرونی ٹائٹل پر با شیبان ہائی اسکول کے پیچھے، بھنڈی بازار بیلگام لکھا ہے، ملنے کے پتے تین ہیں، ایک پتہ جامعۃ الشیخ دیو بند، ایک مدرسہ امدادیہ عربیہ شاہ کنڈ اور ایک الحاج سراج الدین صاحب دفعدار طیبہ اسوسیشن اعظم نگر بیلگام کا ہے، ہدیہ (قیمت) کہیں درج نہیں ہے، اس لیے مفت مل جانے کے امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مفت ملے یا ہدیہ سے، یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر گھر میں رکھی جائے۔