از:ڈاکٹرنورالسلام ندوی
حضرت مولانا کی نظر گہری اور فکر بلند ہے، عالمی منظر نامہ سے واقف ،ملکی وقومی سیاست کے نشیب و فراز سے باخبر اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور اغیار کی کارستانیوں سے ہوشیار ،آپ ملت کی کشتی کو بھنور سے نکال کر ساحل مراد تک پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں،ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور سوتیلا رویہ کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہتے ہیں۔ ہندوستان کی مٹتی ہوئی گنگا جمنی تہذیب، دم توڑتی ہندو مسلم اتحاد ویگانگت ، جمہوری اقدار کی پامالی اور سیکولر روایت کی بے حرمتی سے آپ سخت نالاں ہیں، اس کی بقا و حفاظت کے لئے آپ نے ہمیشہ قوم کو جگایا ، عوام الناس اور صاحب اختیار و اقتدار کو متنبہ کیا ،کہ اس سے ہندوستان کی ساخت کمزور ہوگی ، ملک کی عظمت ملیا میٹ ہو جائے گی ، ایسے مواقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ ایک خطیب ، ایک مصلح ، ایک قائد کی حیثیت سے بہت اونچے مقام پر فائز نظر آتے ہیں،جمہوریت آپ کی نظر میں خدا کی نعمت ہے ،اورجمہوری ملک میں حقوق کی بازیابی کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے اور جمہوری طرز پر احتجاج کے بھی آپ قائل ہیں۔ اپنی تقریروں میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر مضبوط و مستحکم ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور سیاسی وزن وقار بڑھانے کے لیے اتحاد و یکجہتی پر زور دیتے ہیں۔ 2015 کے عام انتخاب میں بی جے پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی، بی جے پی اپنی حکمت اور منظم پلاننگ کے تحت مسلمانوں کو منتشر کرکے ان کے ووٹ کی قیمت اور طاقت کو بے وزن کر دیا ۔ انتخاب کے بعد ملک کا اقلیتی طبقے خاص طور پر مسلمانوں میں خوف وسراسیمگی کا ماحول تھا ، آپ نے ان حالات میںمسلمانوں کو خطاب کیا، اور ڈروخوف کی سیاست سے باہر نکلنے کا حوصلہ بخشا، ساتھ ہی مسلمانوں کو سیاسی وزن بڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’جس ملک میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں، وہاں سیاسی وزن کے بغیر ملت کی پر وقار زندگی اورمضبوط معاشرہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ، ابھی جو سیاسی عمل جاری ہے، اور صوبوں اور مرکز کی حکومت کے بننے اور بگڑنے کا جو بھی سلسلہ ہے، اس میں مسلمان بحیثیت ملت اپنا وجود اور اپنا وزن محسوس نہیں کرا سکے، حکومت بن رہی ہے ، ٹوٹ رہی ہے ، مگر ہم آپ بحیثیت ملت کہیں نہیںہیں ۔ اگر ہم میںاقتدار کو متاثر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو ہم اسلامی معاشرہ حفاظت نہیں کر سکتے ، اور دینی اور اجتماعی تشخص بھی برقرار نہیں رکھ سکتے ، عددی اکثریت کا کھیل اپنے اندر بڑی طاقت رکھتا ہے، ہمیں اسے سمجھنا ہوگا۔
دیکھ لیجئے ! آج اقلیتوں کے نام پر پورا ڈرامہ رچا جا رہا ہے، مگر انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا ہے ، نہ وہ پوچھوانے کی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں، اور جب وہ اس الٹ پھیر میں باوزن نہیں ہیں حکومت میں بھی با وزن نہیں ہو سکتے ، اور نہ اپنے حقوق کو اس الٹ پھیر کے بیچ سے حاصل کر سکتے ہیں، اس لئے اپنے وجود کے لئے آئینی سماجی ، دینی ، سیاسی اور اجتماعی حقوق کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی عمل کی طرف ملت کے قدم بڑھیں۔‘‘
(خطبات ولی، جلد اول۔ ص: 166 )
جرأت و حوصلہ مندی: حضرت امیرشریعت کے خطبات کاایک اہم و صف صاف گوئی اور بے باکی ہے، وہ با ت جو عام قائدین دبی زبان یا اشارے کنایے میں کرتے ہیں بلکہ بسااوقات بند کمروں میں بھی کرنا پسند نہیں کرتے وہی بات آپ بر سرعام کرتے ہیں، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں ، کسی سے مرعوب ہونا آپ نہیں جانتے تھے ،ڈر اور خوف آپ کو چھو کر بھی نہیں گزرتا، دل کی بات دل والوں کے سامنے بلا کسی خوف و تردید کے کہ دیتے ، معاملہ خواہ اہل اقتدار واختیار کا ہو یا اہل ثروت و قوت کا آپ کی زبان وہی بولتی جسے آپ سچ جانتے ۔ اس معاملہ میں آپ کا مسلک یہ رہاہے :
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندوں کا طریق
آزاد ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ بی جے پی اقتدار میں آئی تھی اس وقت مرکزی وزاراتی گروپ کی ایک رپورٹ سامنے آئی۔ جس میں دہشت گردی کا تار مدارس اسلامیہ سے جوڑا گیاتھا اور مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ بتلا یا گیاتھا ، آپ نے ان ماحول میں مدارس کے ناموس کی حفاظت کے لئے ۳ فروری ۲۰۰۲ کو شہر مونگیر میں ’’ناموس مدارس اسلامیہ کنونشن ‘‘منعقد کیا ،جس میں ملک بھر سے سیکڑوں علماء و ذمہ داران مدارس اور مندوبین نے شرکت کی۔ اس موقع پر آپ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا جس کے بعد مدارس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا لہجہ بدلااور مدارس کے خلاف چلنے والی دھار کند ہوئی۔ ملاحظہ ہو آپ کے خطاب کا وہ اقتباس:
’’وہ لوگ جو نفرت اور تشدد کی آبیاری کرتے رہے ہیں ، جنہوں نے فرقوں اور طبقوں کی خلیج کو گہراکرکے اقتدار کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی مشق کی ہے ، وہ سیاسی مفاد کی خاطر مدرسوں پر الزامات کی بوچھار کر رہے ہیں۔ جب کہ ان کے پاس کوئی دلیل کوئی ثبوت نہیں ہے ، مگر کیا کہا جائے ، جنہوں نے ذاتی آرام کی خاطر آزادی وطن کے کارواں میں شریک ہونا گوارہ نہیں کیا ، اور معافی نامہ داخل کرکے برٹش حکومت کی گرفت سے دور رہے، جنہوں نے دہشت گردی تحریک کی آبیاری کی ، جو آزاد ہندوستان میں دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کے کیس میں ماخوذ ہوئے اور جیل گئے، وہ افراد اور وہ ذہنیت ان مدرسوں اور ان کے علماء کو مجرم ثابت کرنا چاہتی ہے، جن مدرسوں اور علماء نے ملک کی آزادی کی جدوجہد میں سرفروشانہ حصہ لیا اور جنہوں نے آزاد ہندوستان میں نئی نسل کی تعمیر ، تعلیم اور تہذیب کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے۔‘‘(خطبات ولی، جلد اول ص: ۳۹،۴۰)
۳ اپریل ۲۰۰۲ کو دارالعلوم دیوبند میں مدارس اسلامیہ کے نمائندوں کا کل ہند اجلاس ہوا، آپ نے اس اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
’’ جناب والا ، آپ کے ہاتھ پاؤں تو بڑے لانبے ہیں، ہندوستان میں ہزاروں مدارس قائم ہیں، آپ صرف ایک مثال دے دیجئے ،کسی مدرسے کے مدرس کی تو بڑی بات ہے ، کسی مدرسے کے طالب علم کی ، جس نے ملک کا کوئی راز اس پار سے اس پار پہونچایا ہو، اور آزادی کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذرگیا، اگر مدرسے کا ماحول اور مزاج دہشت گردی کا ہوتا ، رائفل ، پستول اور بندوق والا ہوتا تو پچاس ساٹھ سال کے عرصہ میں کم از کم پچاس کیس بھی تو 307 اور 302 کے مدرسے والوں پر چلے ہوتے ، آپ مجھے پچاس سال کی پچاس نہیں پچیس ہی مثال دکھلا دیجئے، مدرسے میں بھی نوجوان رہتے ہیں ، ہمت والے رہتے ہیں، ان کے جسم میں بھی خون ہوتا ہے ، وہ بھی گرماتا ہے ، اس کے بر عکس کوئی یونیورسیٹی اس ملک میں ایسی نہیں ہے جہاں قتل نہ ہوتا ہواور کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جہاں 302 اور 307 کے کیسز نہ چلتے ہوں ۔‘‘(ایضا،ص:29,30 )
دردمندی و فکر مندی:
خطابت خواہ کتنی ہی زوردار اور لچک دار کیوں نہ ہو،اگر دردمندی ، فکرمندی اور دل سوزی سے خالی اور عاری ہوگی تو سامعین کے دل پر گہرا نقش قائم نہیں کر سکتی اور نہ دلوں کو موم بنا سکتی ہے۔ حضرت والا کی تقریریں دل دردمنداور فکر ارجمند کی غماز ہوا کرتی تھیں، دل سوزی و جگر سوزی ان کی تقریروں میں اس قدر ہوتی ہے کہ وہ دل کے تاروں کو مر تعش کرتی ہیں، ملک و ملت کی فکرمندی ہمیشہ آپ کو دامن گیر رہی ہے اور اس کے لئے ہمیشہ بے چین و مضطرب رہے ہیں۔ چنانچہ آپ کے اس درد دل کا اظہار آپ کی تقریروں کے ذریعہ ہوتا رہا ہے، معاملہ خواہ مدارس اسلامیہ کو دہشت گرد ی سے جوڑنے اور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر ہراساں کرنے کا ہو، یا بنگلہ دیشی شہر یت کا ، یکساں سول کوڈ کی بات ہو یا مسلم پرسنل لا میں دخل اندازی کی ، تعلیم و تربیت کا مرحلہ ہو یا اصلاح معاشرہ کا ، سیاست کا ذکر ہو یا معیشت کا ، آپ کی زبان و قلم درد وسوز سے لبریز ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آپ کی تقریر و خطابت میں جو دردو سوز اور حرارت و برودت پائی جاتی ہے وہ نالہ نیم شبی ، آہ سحرگاہی اور تصوف و معرفت کے راستہ سے آپ کی زندگی اور فکر وفن میں اثر انداز ہوئے ہیں ۔ بقول کلیم احمد عاجز:
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
اصلاح معاشرہ آپ کی زندگی کا عنوان ہے ، عملی زندگی کا ایک بڑا حصہ معاشرہ کی اصلاح اور ملک و ملت کی فلاح و بہبودی میں صرف ہوا ہے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اصلاح معاشرہ کا کل ہند کنوینر منتخب کیااور امیر شریعت مولانا سیدنظام الدین صاحب، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے انتقال کے بعد آپ کو بورڈ کاجنرل سکریٹری بنایا گیا۔،آپ نے مسلم پرسنل لاء اوراصلاح معاشرہ کی تحریک کو تیزسے تیز تر کیا ،اسے مضبوط سمت دی، معاشرہ کی اصلاح کے لیے قصبات اور شہروں کا دورہ کیا اور اپنی خطابت و تقریر کے جوہر بکھیرے، جس کے بہتر نتائج سامنے آئے ۔ اصلاح معاشرہ کے موضوع پر آپ نے ہزاروں گاؤں اور شہروں کا دورہ کیا اور ہزاروں تقریریں کیں ، یے تقریریںموقع و محل اور حالات کے پیش نظر اور پس منظر کے لحاظ سے نہایت وقیع اور پر اثر ہیں ۔ معجزہ خطابت کی سحر انگیزی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ اقتباس دیکھئے :
’’ غلط روی، غلط روش ، حرام خوری ، بدکرداری نسلوں کو برباد کرتی ہے، تجربہ کی روشنی میں کہتا ہوں جن شادیوں میں لڑکی والوں کو پریشان کرکے روپیہ حاصل کیا جاتا ہے، ان گھروں میں عیب دار ، کمزور اخلاق اور کمزور کردار کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم نے چند سکوں کے عوض آنے والی نسلوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔‘‘
(خطبات ولی ، جلد اول: ص: ۱۱۴)
’’نئی نسل آپ کے سامنے کھڑی ہے ، وہ آپ کے لئے قدرت کا بہترین تحفہ ہے ۔ اس تحفہ کی قیمت سمجھئے۔ اس کے لئے بہتر تعلیم و تربیت کی فکر کیجئے، یہ نہ سمجھئے کہ یہ ہمارا بیٹا نہیں ہے ، پوتا نہیں ہے، دوسروں کی اولاد ہے۔ یاد رکھیئے بچوں کے سلسلے میں پورا سماج جواب دہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اپنی رعایا (ماتحت) کے بارے میں قیامت میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (ایضاً ص: ۱۴۸)
ادبیت:
حضرت والا کی نشونما میں کلاسیکی ادب کا گہرا اثر اور رچاؤ پایا جاتا ہے، اردو فارسی اور عربی شعرو ادب کے گہرے مطالعہ نے تقریر و تحریر پر اس کا اچھااثر ڈالا ہے ،حضرت کے جملے ادب کے شہہ پارے معلوم ہوتے ہیں، اتنا سلیس ، رواں، شستہ اور برجستہ جیسے معلوم پڑتا ہے کہ آبشار سے ڈھل رہے ہیں۔ دوران خطابت کبھی فارسی اور زیادہ تر اردو کے اشعار کا استعمال کرتے ہیں، جن سے تقریر کا زور بڑھ جاتا ہے اور حسن دوبالا ہوجاتا ہے، الفاظ کے دروبست پر زبردست قابو اور زبان پر گرفت ایسی کہ جو لفظ اور جملہ جہاں استعمال کر دیا وہیں موزوں ہوگیا۔
’’حضرات محترم!ماضی کی روایتوں سے آباد شہر مونگیرمیں آپ کا استقبال میرے لیے پرمسرت فریضہ ہے،مونگیر کی اپنی قدیم اور عظیم تاریخ ہے،جس میں عظمت وتقدس ،اخلاص وروحانیت،شاہی اور فقیری،وطن سے محبت اور وطن کے لیے مر مٹنے کی طلب اور تڑپ شامل ہے،مونگیر میں اترا واہنی گنگا کا وجود،کشٹ ہرنی گھاٹ اور سیتا کنڈ کے ٹھنڈے اور گرم پانی کے چشمے ماضی کی روایات کی زندہ یادگاریں ہیں،راجہ کرن کے محلوں کے کھنڈر ایک دانی کے روپ میں مونگیر کی تاریخ کو پیش کرتے ہیں ،اسی شہر میں میر قاسم کے قلعہ کی مضبوط فصیلیں پکار پکار کر کہ رہی ہیں کہ ہندوستان آزاد ہوا اس کی بنیاد یہاں ہے،ڈکر اپل کی ٹوٹی پھوٹی اینٹیں آج بھی گواہی دے رہی ہیں کہ میر قاسم کے نہ جانے کتنے جیالوں نے اپنے گرم گرم خون پر اطن کی آزادی کی بنیاد رکھی تھی،اور یہی شہر مونگیر سید شاہ زبیر ،بابو شری کرشن سنکھ اور امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا مسکن رہا ہے،‘‘
(خطبات ولی،جلد اول:ص :38,39)
ایجازواختصار:
ایجاز و اختصاربھی آپ کی تقریر کا اہم وصف ہے ،آپ کی تقریریں عموماً مختصر ہوتی ہیں ،زیادہ طویل نہیں۔کم الفاظ میں زیادہ بات کہنا آپ کی تقریر کا طرہ امتیاز ہے، جملے چھوٹے چھوٹے زبان سادہ اور عام فہم ، مگر مختصر جملے اور سادہ زبان میں بڑی سی بڑی بات کہہ جانے کا ہنر آپ کی خطابت میں پایا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سامعین لمبی تقریر سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں اور بہت سی ضروری باتیں بھی ذہن سے نکل جایا کرتی ہیں۔ حضرت والا کی تقریر اس عیب سے پاک ہوتی ہے، زبان وبیان اور اختصار و ایجاز کی خوبی کی وجہ کر سامعین کے لیے آپ کی تقریروں کا جملہ بھی یاد رکھنا آسان ہو جاتاہے ۔ ایک نمونہ دیکھئے، کم جملوں اور سادہ زبان میں کتنی اہم بات کتنی خوش اسلوبی کے ساتھ کہی گئی ہے۔
’’ حکومتوں کا ایک خاص مزاج بن گیا ہے، وہ سلیقہ کی باتوں کو بد سلیقگی سے سننا پسند کرتی ہے، وہ جائز مطالبات کو بھی اس وقت تک قابل توجہ نہیں سمجھتی جب تک کہ توجہ مبذول کرانے کے لیے ناجائز حرکتیں نہ کی جائیں،اخلاق و شرافت کے لہجے انہیں متاثر نہیں کرتے، بد اخلاقی اور بد تمیزی کے مظاہرے ہی ان کی سمجھ میں آتے ہیں۔ میں یہ مشورہ نہیں دیتا کہ اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے کوئی خود سوزی کرے، کوئی آمرن ان شن کرے، کوئی توڑ پھوڑ کی جائے ، یہ جان خدا کی دی ہوئی قیمتی نعمت ہے، اور توڑ پھوڑ میں نقصان ہونے والا سرمایہ وطن عزیز کا ہے، ہمیں جان اور سامان دونوں کا احترام کرنا ہے، مگر ایسی راہیں بہر حال تلاش کرنا ہوگی، جن کے ذریعہ فرش نشیں تخت نشینوں کو متوجہ کر سکے۔
اس مقصد کے لیے ضرورت ہے ، مسائل و ضروریات کو سمجھنے کی، ان کے صحیح ادراک اور اہمیت کے احساس کی ، سیاسی پارٹیوں سے اوپر اٹھ کر مشترکہ جدوجہد کی ، ہم مختلف پارٹیوں میں رہتے ہوئے مختلف قسم کی وفاداریوں کو نبھاتے ہوئے بھی اقلیتوں کے وفاداری کے پرچم کے علمبردار ہوسکتے ہیں۔‘‘
(خطبات ولی، جلد اول: ص: 162 ،161)
انداز خطابت:
حضرت مولانا سیدولی رحمانیؒ کے خطابت کا سب سے بڑا امتیاز اور وصف انداز خطابت اور اسلوب خطابت ہے ۔ آپ کا انداز خطابت بڑا نرالا اور جداگانہ ہے، تقریر اول سے آخیر تک یکساں حالت پر قائم رہتی ہے، آواز گھن گرج سے پاک ، معتدل مگر زوردار اور اثر دار۔ ضرورت کے تحت ہاتھ اور انگلیوں سے اشارہ کرتے، چہرہ کے نقوش اور اتارچڑھاؤبہت کچھ بیاں کرتے ، انداز بیاں بہت پر کشش اور زبان بہت آسان تھی، جب بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ موتی پرو رہے ہیں ۔ ایک ایک جملہ بالکل صاف اور واضح ۔ ثقیل ، پے چیدہ اور مبہم الفاظ سے مبرا ،مشکل تعبیرات واستعارات سے اجتناب ، چھوٹے اور خوبصورت جملے ، دماغوں کو اپیل کرنے والا اور دلوں کو گھر کر جانے والا، بقول کلیم عاجز:
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
حضرت کے خطابت کا اسلوب اتنا دلکش ہے کہ سامعین دم بخود ہو جائے، انگشت بدنداں ہوجائے، زبان کی شیرینی ، لطافت اور جمال وجلال تقریر کی معنویت اور اس کی اثر پذیری اور سحر انگیزی کو دو آتشہ بنا دیتی ہے ، اسلوب میں رجائیت پائی جاتی ہے ،قنوطیت ،مایوسیت اور ناامیدیت کی چادر اوڑھانا آپ کا شیوہ نہیں تھا، یہ آپ کی طبیعت کی موزونیت ، ثابت قدمی اور مزاج کے استقلال کی دلیل ہے۔ البتہ اسلوب میں کہیں کہیں نخوت کا رنگ بھی جھلکتا ہے، مگر موقع و محل کے اعتبار سے یہ رنگ بھی آپ پر بڑا جچتا تھا اور یہ رنگ تقریر کے حسن کو کم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیتا ۔ کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرتے جا بجا انشا کے پھول کھلاتے اور ادب کے موتی رولتے، انشاء کی گل کاریاں ہر جگہ نظر آتیں ۔ تصوف اور قانون جیسے سنجیدہ، پے چیدہ اور خشک موضوع پر بھی جب اظہار خیال کرتے تو زبان کی لطافت ، الفاظ کی ترتیب، پیشکش کی سلیقہ مندی سے نئی جان اور روح ڈال دیتے اور سامعین دل گرفتہ ہو جاتے ۔ خطیبانہ اسلوب کا ایسا بہترین نمونہ دوسری جگہ مشکل سے نظر آئے گا۔ خطابت کا رنگ اور حسن ملاحظہ ہو:
’’انسان کھوکر پاتا ہے، انسان جب اپنی یاد ، دنیاوالوں کی یاد، نعمتوں کی یاد ، راحتوں اور کلفتوں کی یاد، ساری یادوں کو دل سے نکالتا ہے اور خدا کی یاد سے دل آباد کرتا ہے، تو یقین کیجئے دنیا اس کے قدموں میں ہوتی ہے اور وہ خدا کے در پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔‘‘
(مجموعہ رسائل رحمانی ۔ص: 24 )
3؍اپریل 2021ء کو ڈھائی بجے دن حضرت امیرشریعت مولانا سیدمحمدولی رحمانی کے انتقال کی خبرجیسے ہی عام ہوئی لوگوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ہر شخص دم بخود ہوگیا۔ حضرت کی جدائیگی کے صدمے کو ملت کے ہر فرد نے محسوس کیا اور ایسا لگا کہ ملک و ملت ایک عظیم محسن اور رہنماء سے محروم ہوگیا۔ بلاشبہ ان کا انتقال ملک و ملت کا عظیم خسارہ ہے، ان کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ملت اسلامیہ ایک بے باک قائد سے محروم ہوگئی۔ آپ کا انتقال ایک ایسے وقت میں ہوا جب ملت اسلامیہ نازک ترین دور سے گذر رہی ہے اور ملت کو ان کی اشد ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی ملک و ملت کے لئے وقف کردی ۔انہوں نے تعلیم، سماج، سیاست، صحافت ،صحت، تصوف کے شعبے میں گراں قدر کارنامے انجام دیئے ہیں۔ ان کا وجود ملت کے لئے ایک نعمت تھی۔ اللہ تعالیٰ ملک و ملت کو ان نعم البدل عطا فرمائے اور ملت کی دستگیری فرمائے۔(آمین ثم آمین!)
صدق و صفا کا مہر درخشاں نہیں رہا
افسوس اب وہ نیرتاباں نہیں رہا