حسد اور جلن: رشتہ داروں کا رویہ

ابوالکلام ، جمالپور

زندگی کا حسن محبت، خلوص اور ایثار سے ہے۔ یہ ایسے خوشبو دار پھول ہیں جو رشتوں کو خوشبو بخشتے ہیں اور دلوں کو سکون عطا کرتے ہیں۔ مگر اسی زندگی میں ایک ایسی زہر آلود کیفیت بھی موجود ہے جس کا نام حسد اور جلن ہے۔ یہ انسان کے دل کو کھوکھلا کر دیتی ہے، سکون کو غارت کر دیتی ہے اور رشتوں کی مٹھاس کو کڑواہٹ میں بدل دیتی ہے۔ خاص طور پر قریبی رشتہ داروں میں یہ رویہ زیادہ نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ترقی اور خوشحالی کو قریب سے دیکھتے ہیں۔ جب کسی کے حالات بہتر ہو جائیں، عزت و شہرت حاصل ہو، روزگار یا کاروبار ترقی کرے تو کچھ دل ایسے ہیں جو یہ سب کچھ دیکھ کر جلنے لگتے ہیں۔ ان کے لیے دوسروں کی کامیابی خوشی کے بجائے بوجھ بن جاتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض رشتہ دار بظاہر بڑے ہمدرد اور خیر خواہ نظر آتے ہیں۔ وہ آپ کے قریب بیٹھ کر یوں اظہار کرتے ہیں جیسے آپ کے سب سے بڑے مددگار ہیں اور آپ کے بغیر کوئی کام مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ ان کی زبان پر محبت کے بول اور چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے، لیکن دل کی گہرائیوں میں وہ دشمنی اور حسد کے بیج چھپائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بظاہر ہاتھ تھامنے والے دراصل اندر سے قدم اکھاڑنے کی تدبیریں کرتے ہیں۔ اوپر سے دوستی کا لبادہ اوڑھ کر اندر ہی اندر آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور آپ کے کاموں کو بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی منافقت دراصل حسد کی بدترین شکل ہے جو نہ صرف دلوں کو زخمی کرتی ہے بلکہ بھروسے کی بنیاد بھی ہلا دیتی ہے۔حسد کی آگ محض حسد کرنے والے کے دل کو نہیں جلاتی بلکہ پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

محبت اور اعتماد کے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں، دلوں میں بدگمانی اور نفرت بڑھنے لگتی ہے، چغلیاں اور فتنہ جنم لیتے ہیں اور یوں چھوٹے چھوٹے اختلافات بڑے بڑے جھگڑوں میں بدل جاتے ہیں۔ خاندان کا سکون اور شیرینی رفتہ رفتہ زہر آلود ہو جاتی ہے۔اسلام نے حسد کو سختی سے منع فرمایا ہے۔ قرآن میں ہے: کیا وہ لوگوں سے اس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے؟” (النساء: 54)۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “حسد سے بچو، کیونکہ یہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔” یہ تعلیمات اس بات کا اعلان ہیں کہ حسد ایک ایسا ناسور ہے جو انسان کی دنیا کو بھی برباد کرتا ہے اور آخرت کو بھی۔اس منفی جذبے سے نجات صرف شکر گزاری اور قناعت میں ہے۔ انسان اگر اپنے نصیب پر راضی رہے، اللہ کی عطاؤں پر شکر کرے اور دوسروں کی کامیابی کو اپنی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنائے تو دل سے حسد کی کڑواہٹ دور ہو سکتی ہے۔ دل کو صاف رکھنے کے لیے دعا اور ذکر کا سہارا لینا چاہیے، دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہونا چاہیے اور ایثار کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔

آخرکار یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رشتہ داروں کے درمیان حسد اور جلن نہ صرف ان کے اپنے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ خاندان کی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ بظاہر محبت اور ہمدردی کا نقاب اوڑھ کر اندرونی دشمنی رکھنے والے دراصل خود اپنے سکون کو برباد کرتے ہیں۔ اگر دلوں کو محبت، شکر گزاری اور ایثار سے آباد کیا جائے تو حسد کی آگ بجھ سکتی ہے اور خاندان ایک بار پھر سکون و محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہی اسلام اور انسانیت کا اصل پیغام ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ ہم سب کو حاسدین کی حسد اور ظالمو ں کی شر سے محفوظ رکھے ۔ ( آمین)

Related Posts

حضرت یونس علیہ السلام: صبر، توبہ اور رحمت الٰہی کی مثال

ابوالکلام ، جمالپور اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں انبیاء کرام کو بھیجا، تاکہ لوگ اندھیروں سے نکل کر ایمان اور معرفت کی روشنی میں…

Read more

اخلاقِ حسنہ کی اہمیت اور افادیت

ام سلمیٰ اخلاقِ حسنہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور انسان کی اصل پہچان ہیں۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ محض ایک مخلوق کے طور پر پہچانا…

Read more

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت

ابو الکلامروزنامہ تاثیر ہندوستان کی تاریخ میں بہت سی عظیم شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں قوم و ملت کے لئے وقف کر دیں۔ انہی میں ایک تابناک نام…

Read more

کاروبار جدید دورمیں کامیابی کا راز

ام سلمیٰ کاروبار کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک تاجر نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرتا ہے۔…

Read more

حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اور آج کے مسلمانوں کے حالات

ام سلمیٰ دنیا میں سب سے بڑی خوشی بھی اپنوں سے ملتی ہے اور سب سے بڑا دکھ بھی اکثر اپنوں ہی سے ملتا ہے۔ بیگانوں کا وار جسم کو…

Read more

یومِ آزادی

ام سلمہ پندرہ اگست وہ دن ہے جب سورج نے ایک آزاد ہندوستان کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ بکھیری۔ یہ وہ دن ہے جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، اور…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *