ابو الکلام
روزنامہ تاثیر
ہندوستان کی تاریخ میں بہت سی عظیم شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں قوم و ملت کے لئے وقف کر دیں۔ انہی میں ایک تابناک نام مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔ وہ نہ صرف ایک جید عالمِ دین اور مفسرِ قرآن تھے بلکہ ایک عظیم صحافی، ادیب، خطیب اور سیاسی رہنما بھی تھے۔ ان کی زندگی علم و ہنر، قربانی و ایثار اور خدمتِ خلق کا عملی نمونہ تھی۔ آزادی کی جدوجہد میں ان کا کردار نہایت نمایاں اور ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی، جو ایک طرف مذہبی علوم میں گہرائی رکھتی تھی تو دوسری طرف عصری سیاست اور قوم کی رہنمائی میں بھی آگے آگے دکھائی دیتی تھی۔
مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابوالکلام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد مولانا خیر الدین ایک بڑے عالمِ دین تھے اور خاندان کا سلسلہ نسب حضرت رسول اکرم ﷺ کے ایک قریشی قبیلے سے جا ملتا ہے۔ بچپن ہی سے مولانا آزاد غیر معمولی ذہانت اور حافظے کے مالک تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور کم عمری ہی میں قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، منطق اور تاریخ پر دسترس حاصل کر لی۔
وہ صرف دینی علوم تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے عصری تعلیم پر بھی توجہ دی۔ خود انگریزی سیکھی اور مغربی فلسفہ و ادب کا مطالعہ کیا۔ ان کی یہی ہمہ گیر تعلیم ان کی شخصیت کو وسعت اور بصیرت عطا کرنے کا سبب بنی۔
مولانا آزاد کی اصل پہچان ان کی صحافتی جدوجہد سے ہوئی۔ انہوں نے 1912ء میں کلکتہ سے ہفت روزہ الہلال جاری کیا، جو آزادی اور قومی بیداری کا ایک مؤثر ذریعہ بن گیا۔ الہلال کے مضامین نوجوانوں کے دلوں میں جوش و جذبہ پیدا کرتے تھے۔ اس کے ذریعے انہوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے، تعلیم عام کرنے اور ہندو مسلم اتحاد کی دعوت دی۔ انگریز حکومت نے الہلال کو بند کر دیا تو مولانا آزاد نے ایک اور رسالہ البلاغ نکالا۔ یہ دونوں اخبارات دراصل تحریک آزادی کے محرک اور عوامی رہنمائی کے روشن مینار ثابت ہوئے۔
مولانا آزاد نے برطانوی حکومت کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ وہ کانگریس کے صفِ اول کے رہنما تھے۔ 1923ء میں صرف 35 سال کی عمر میں وہ کانگریس کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہوئے۔ ان کا یہ دور ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں اور آزادی کی تحریک کو تیز کرنے کے اعتبار سے نہایت اہم ہے۔
1942ء کی ’’بھارت چھوڑو تحریک‘‘ میں وہ نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اس کے اہم رہنما بھی تھے۔ انگریز حکومت نے انہیں دیگر بڑے لیڈروں کے ساتھ گرفتار کر کے کئی برسوں تک قید رکھا۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی ان کے حوصلے کو متزلزل نہ کر سکیں۔ وہ آخر دم تک آزادی اور اتحاد کے داعی رہے۔
مولانا آزاد کا سب سے نمایاں کارنامہ ان کی وہ کوششیں ہیں جو انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لئے کیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کی آزادی تبھی ممکن ہے جب دونوں قومیں مل کر جدوجہد کریں۔ وہ فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیم کے نظریے کے خلاف تھے۔ ان کی تقریریں اور تحریریں ہمیشہ قومی یکجہتی کا درس دیتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’قومی رہنما‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا آزاد کو ملک کا پہلا وزیرِ تعلیم مقرر کیا گیا۔ یہ عہدہ ان کی علمی عظمت اور قومی خدمات کا اعتراف تھا۔ وزارتِ تعلیم کے دور میں انہوں نے ملک میں تعلیمی اداروں کے قیام، سائنسی ترقی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ پر خاص توجہ دی۔
ان ہی کی کاوشوں سے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) قائم ہوا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs) جیسے ادارے بھی انہی کے خوابوں کی تعبیر ہیں۔ انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی مرتب کی اور تعلیم کو ہر شہری تک پہنچانے کو اپنی اولین ذمہ داری قرار دیا۔
مولانا آزاد نہ صرف سیاست دان بلکہ ایک اعلیٰ پایے کے ادیب اور عالم بھی تھے۔ انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ لکھی جو ان کی علمی بصیرت کا شاہکار ہے۔ ان کی ایک اور مشہور تصنیف ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے جو جیل کے دنوں میں لکھی گئی۔ اس میں ان کے فکری خیالات، ادبی ذوق اور فلسفیانہ پہلو نمایاں ہیں۔
ان کی نثر کا انداز شگفتہ، پر اثر اور دلوں کو گرمانے والا تھا۔ وہ اردو زبان کے بڑے نثر نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد 22 فروری 1958ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ دہلی میں ان کا مزار آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔ حکومت ہند نے ان کی خدمات کے اعتراف میں 1992ء میں انہیں بھارت رتن کے اعزاز سے نوازا۔
مولانا آزاد کی شخصیت ایک ہمہ جہت شخصیت تھی۔ وہ ایک سچے محبِ وطن، جید عالم، شعلہ بیان خطیب اور بہترین منتظم تھے۔ ان کی قربانیاں، ان کی تحریریں اور ان کے نظریات آج بھی نئی نسل کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔