🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

نئی دہلی۔ کسی بھی زبان میں بچوں کے ادب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،جس کاسلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔بچے ہر قوم کا بیش قیمت اثاثہ اور سرمایہ ہوتے ہیں،لہٰذا ان کی مناسب تربیت اور اْن کی آنے والے زندگی میں مناسب رہ نمائی کی غرض سے بچوں کے لیے ادب لکھا جاتاہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کا ادب لکھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ وہ لوگ قابل مبارک باد ہیں جو بچوں کا ادب لکھتے ہیں۔ اس جانب کامیاب ترین پہل کرتے ہوئے اردو اکادمی کے زیر اہتمام بچوں کے ادب پر قومی سطح کاسہ روزہ سمینار منعقد کیا جارہا ہے۔کوئی بھی ادیب و شاعراس وقت تک بڑا ادیب و شاعر نہیںبن سکتاجب تک کہ وہ بچوں کے لیے نہ لکھے،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی،غالب،اقبال،اکبر الہ آبادی وغیرہ ایسے ادیب ہیں جنھوں نے بچوں کے لیے لکھا ہے۔مذکورہ خیالات کا اظہار اردو اکادمی،دہلی کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی سمینار بہ عنوان’’بچوں کاادب‘‘کی افتتاحی تقریب میں استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے سکریٹری اردواکادمی،دہلی محمداحسن عابد نے کیا۔انھوں نے صدرجلسہ،کنوینر اور تمام مقالہ نگاران کا اردو اکادمی کی جانب سے شکریہ اداکیا۔
اس جلسے کے مہمان خصوصی ڈاکٹر سید محمد فاروق نے کہا کہ آج کے ناگفتہ بہ حالات میں بچوں کی بہترین تربیت کرنا اور ان کے لیے سبق آموز ادب تخلیق کرنا نہایت ضروری ہے۔آج جس طرح کے حالات ہیں نہ اْن کا رخ پتہ ہے اور نہ سمت متعین ہے،لہٰذا قابل مبارک باد ہیں وہ ادیب اور دانش ور جو بچوں کا ادب لکھنے کا حوصلہ کررہے ہیں۔ سمینار کی کنوینر ڈاکٹر شبانہ نذیر نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس سمینارکی غرض و غایت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔انھوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں اردو اکادمی واحد اردو کا ادارہ ہے جو متعدد نوعیت کے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ابھی حال ہی میں شاندار پانچ روزہ جشن ’نئے پرانے چراغ‘کا اختتام ہوا ہے اور آج ہم اسسمینار میں حاضر ہیں ،اس سے اردو اکادمی کی فعالیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
پروفیسر خالدمحمود نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے عہد امیر خسرو سے تاحال بچوں کے ادب کا جائزہ لیا۔انھوں نے اپنے خطبے میں ادب اطفال کے مختلف جہات، پہلوئوں، اسلوب،طریقوں اور سلسلوں کا امیر خسرو،مرزا غالب،محمد حسین آزاد،حالی ،شبلی،منشی ذکااللہ ،اسماعیل میرٹھی ،شفیع الدین نیر اور حامد اللہ افسرمیرٹھی کی تحریروں کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔اسی ضمن میں انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام،مکتبہ جامعہ کے قیام اوروہاں سے کتب و رسائل کی اشاعت کا بھی ذکر کیا۔انھوں نے بچوں کی نفسیات اور ضروریات کا ذکر کرتے ہوئے ایسے ادب کی تخلیق پر زور دیا جو اْن کے لیے ہر طرح سے مفید اور کارآمد بن سکے۔اپنے کلیدی خطبے میں پروفیسر خالد محمود نے امیر خسروکی لوریوں،دوہوں،کہہ مکرنیوں اور پہیلیوں ،جھولنوں اور بچپن کے گیتوں اور علامہ اقبال کی بچوں کے نظموں پر مشتمل ناٹک منڈلیوں کے پروگراموںکے حوالے بھی دیے اورمرزا غالب کی تصنیف ’قادر نامہ‘کا ذکر کیا۔
صدر جلسہ پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی نے اپنے صدارتی خطبے میں اردو اکادمی اور اراکین کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی کا یہ امتیاز ہے کہ وہ اس نوعیت کے پروگرام وسمینار منعقد کرتی ہے ۔ بچے جو کہ قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں لہٰذا ان کی حفاظت کر نا اور ان کے لیے اچھا ادب پیش کرنا ادیبوں اور قلمکاروں کی اولین ذمے داری ہے۔ انھوں نے بچوں کی ادب نگاری پر مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بچوں کے ادیبوں کو جدید موضوعات و مسائل کو بھی مدنظر رکھناچاہیے تا کہ بچے نئے زمانے تقاضوں اور ضروریات سے بھی آگاہ ہوسکیں۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر خالد مبشر نے بہ حسن و خوبی انجام دیے۔22 فروری کو سمینار کاپہلا اجلاس صبح دس بجے پروفیسر احمد محفوظ اور معروف صحافی اسد رضا کی صدارت میں شروع ہوا ،جس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد آدم نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں کل چھ مقالے پڑھے گئے جن میں :پروفیسرصغیر افراہیم(بچوں کے ادب کی اہمیت و افادیت)،پروفیسر سراج اجملی(اردو میں بچوں کے ادب کے تراجم ) ،معصوم مرادآبادی(بچوں کا ادب اخبارات کے حوالے سے)، ڈاکٹرعذرانقوی(بچوں کا ادب اور ریختہ فاؤنڈیشن)، سراج عظیم(مکتبہ جامعہ اور بچوں کا ادب)،ڈاکٹر مظفرحسین غزالی(بچوں کے ادبی رسائل:ایک جائزہ)شامل ہیں۔
صدر اجلاس اسد رضا نے تمام مقالہ نگاروں کو مبارک پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچے کل کے پروفیسر،ڈاکٹر،دانشور اور وہ سب کچھ بنیں گے جو آپ بڑے بنے ہوئے ہیں لہٰذا ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ مفید اور کارآمد بن سکیں۔انھوں نے کہاکے بچوں کے ادب سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اپنی صدارتی تقریر میں انھوں تمام مقالوں پر فرداً فرد اً اظہار خیال کیا۔ پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے خطاب میںاردو اکادمی ،دہلی کو اس اہم پروگرام پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام ایک نیک فال کی حیثیت رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا نہایت نازک مرحلہ ہوتاہے ،کہیں ایسا نہ ہوکہ کوئی منفی بات لکھ دی جائے اور اس سے تربیت کے بجائے بگاڑ پیدا ہوجائے۔پروفیسر احمد محفوظ نے سبھی مقالوں پر تفصیلی گفتگو کی اور ان کے تمام پہلوؤں کا مفصل جائزہ لیا۔
سمینار کادوسرا اجلاس دوپہر ڈھائی بجے شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر سراج اجملی اور پروفیسر صغیر افراہیم نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر حبیب الرحمان نے انجام دیے۔اس اجلاس میں جناب محمد خلیل (بچو ں کے ادب میں سائنسی عناصر)،جناب انور مرزا (بچو ں کے لیے کارٹون نگاری کی اہمیت ) ڈاکٹر سعید احمد (اردو میں بچوں کے ناول) ڈاکٹر ساجد عالم(خود نوشت سوانح عمریوں میں بچپن)جناب شیراز عثمانی (اردو میں کامکس:ایک جائزہ)شامل ہیں۔ صدراجلاس پروفیسرسراج اجملی نے تمام مقالہ نگاروں کو بہترین مقالہ پیش کرنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہاکہ اس طرح کے مقالے باربار لکھتے رہنا چاہیے ،اس سے نہ صرف یہ کہ ادب میں تنوع پیدا ہوگا بلکہ ہم نئی جہات سے بھی روشناس ہوں گے اور سماعتوں پر گراں بھی نہیں گزرے گا۔ پروفیسر صغیر افراہیم نے تمام مقالوں پر تفصیلی اظہارِ خیال کرتے ہوئے ادب اطفال کی اہمیت پر زور دیا۔انھوں نے مزید کہا کہ آج کے ڈ یجیٹل د ور میں بچوں کا ادب لکھنا اور بچوں کو سوشل میڈیا کی یلغار سے بچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ،جس کے لیے ہمارے قلمکار کوشش کررہے ہیں،وہ قابل مبارک باد ہیں۔