ام سلمیٰ
اخلاقِ حسنہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور انسان کی اصل پہچان ہیں۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ محض ایک مخلوق کے طور پر پہچانا جاتا ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی شخصیت کو جو چیز نکھارتی ہے اور اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ اس کا اخلاق ہے۔ دولت، علم اور طاقت عارضی چیزیں ہیں، لیکن اخلاق وہ خزانہ ہے جو انسان کو دلوں کا بادشاہ بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاق کو انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیور کہا گیا ہے۔
اخلاق کی اہمیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک ذاتی خوبی نہیں بلکہ اجتماعی ضرورت بھی ہے۔ اخلاق کے بغیر معاشرے میں محبت، انصاف اور بھائی چارہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اگر افراد خودغرض، سخت دل اور بداخلاق ہوں تو وہاں نفرت، دشمنی اور بدامنی پیدا ہوتی ہے۔ برعکس اس کے، جہاں اخلاقِ حسنہ کو اپنایا جائے وہاں محبتیں پروان چڑھتی ہیں، دل جڑتے ہیں اور ایک پرامن معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
اخلاق کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب نے اچھے اخلاق پر زور دیا ہے۔ اسلام میں تو اخلاق کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “بے شک سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی پوری زندگی اخلاقِ حسنہ کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اچھے اخلاق کی تعلیم دی بلکہ عملاً بھی ان پر عمل کر کے دکھایا۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے بارے میں فرمایا: “اور بے شک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں۔
آپ ﷺ کی زندگی میں بے شمار واقعات ایسے ہیں جو اخلاقی عظمت کی روشن دلیل ہیں۔ ایک بوڑھی عورت جو آپ ﷺ کی دشمن تھی، جب بھی آپ کو دیکھتی تو برا بھلا کہتی اور آپ کے راستے میں کوڑا پھینکتی۔ مگر ایک دن جب وہ بیمار ہو گئی اور باہر نہ نکلی، تو آپ ﷺ خود اس کے گھر عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ یہ حسنِ اخلاق تھا کہ دشمن بھی شرمندہ ہو کر آپ کے قدموں میں آ گئی۔
اخلاقِ حسنہ کے کئی پہلو ہیں، جن میں سے چند اہم یہ ہیں۔
سچائی سچ بولنا اعلیٰ اخلاق کی بنیاد ہے۔
امانت داری وعدہ پورا کرنا اور خیانت سے بچنا۔
عدل و انصاف ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا۔
نرمی اور عفو و درگزر غصے کے باوجود معاف کر دینا۔
ہمدردی و ایثا دوسروں کی بھلائی کو اپنی ذات پر ترجیح دینا۔
عاجزی و انکساری غرور اور تکبر سے بچ کر رہنا۔
جس معاشرے میں اخلاقی اقدار کمزور پڑ جائیں، وہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ بداخلاقی، جھوٹ، بددیانتی اور ظلم کے نتیجے میں دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے، افراد کے درمیان اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور اجتماعی نظام بکھر جاتا ہے۔ آج دنیا کے بیشتر مسائل کی جڑ اخلاقی اقدار سے دوری ہے۔ اگر ہر شخص اپنے رویے میں اخلاقِ حسنہ کو اپنائے تو نہ صرف فرد کی زندگی سنور جائے گی بلکہ پورا معاشرہ خوشحال اور پرامن ہو جائے گا۔
اخلاقِ حسنہ انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی زیور ہیں۔ یہ نہ صرف انسان کی شخصیت کو نکھارتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی جنت نظیر بنا دیتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے قول و فعل میں نرمی، محبت اور انصاف پیدا کریں اور اپنی روزمرہ زندگی میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کو سامنے رکھیں۔ درحقیقت، اخلاقِ حسنہ ہی وہ چراغ ہیں جن کی روشنی میں انسانیت ترقی کرتی ہے اور دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے۔