مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
امت مسلمہ کا زوال کئی صدیوں سے جاری ہے،اورامت کو پستی سے نکال کرعروج کی طرف گامزن کرنے کی کوششوں کی بھی طویل تاریخ ہے لیکن مجموعی طورپر دیکھاجائے توامت مسلمہ کا زوال دن بہ دن ہرشعبہ حیات میں تنزل اورپستی کی طرف رواں ہے، ہرآنے والادن ملک اوردنیا بھر میں ہمارے بے وزنی اور بے وقعتی کو مزید نمایاں کررہاہے، حالت یہ ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمان سیاسی اعتبار سے بے وزن ہیں، موجودہ برسراقتدار پارٹی کھلے عام کہتی ہے کہ اس کو مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں، عالمی سطح پر دیکھیں تو محض ۹۰لاکھ کی آبادی اور چھوٹے سے رقبےکاملک اسرائیل کھلے عام فلسطین پر بمباری کرارہاہے، تقریباً پندرہ ہزار سے زائد مردعورت بوڑھے بچے شہید ہوچکے ہیں لیکن عالم اسلام جس میں ۵۷؍ممالک شامل ہیں، سوائے مذمتی بیانات کے کچھ نہیں کرسکا، کیااس سے بھی زیادہ بے وزنی ،بے وقعتی اوربے عزتی کچھ اور ہوسکتی ہے؟
مسلمانوں کے زوال،پستی اور ذلت پر ہر حساس مسلمان مغموم اور ہر دردمند انسان محزون ہے ؛لیکن وہ کون سا طریقہ اختیار کیاجائے جس سے مسلمانوں کی پستی عروج سے اور ذلت عزت سے بدل جائے، اس میں نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر تقریباً ڈیڑھ صدیوں سے اہل علم اور اہل فکراپنی ذہنی فکری اور علمی صلاحیتیں لگارہےہیں،اوراس سمت میں جوبھی کوششیں ہورہی ہیں ، وہ اپنی جگہ خوب ہیں لیکن تجربہ اورمشاہدہ یہی ہے کہ ان کوششوں کا ثمرہ امت کو حاصل نہیں ہورہاہےیاپھر بہت کم ہورہاہے، وجہ اس کی بنیادی طورپر یہی ہے کہ امت کی تعمیرکے کام کو اہم نہیں سمجھاگیاہے، تمام ترتحریکیں اور تنظیمیں اس بنیاد پر چل رہی ہیں کہ مسلمانوں میں وہ خصوصیات اور روایات موجود ہیں جو ان میں بحیثیت مسلم ہونی چاہئے ،سب سے پہلا کام تعمیر ملت کاہوناچاہئے کہ ملت کے افراد کے اندر اجتماعی مفاد کا شعور ہو، بحیثیت مسلمان ہم پر کیاذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اورکیافرائض اور حقوق ہم سے وابستہ ہیں، دینی اوردنیوی اعتبار سے ہم میں کیاخامیاں اورخرابیاں ہیں اوراس کو کیسے دور کیاجاسکتاہے،اس پر نظر رہنی چاہئے،ہمارے درمیان جو انتشار،اختلاف اور ایک دوسرے سے نفرت اورعداوت ہے اس کو کیسے ختم یاکم کیاجاسکتاہے، ا س کی کوشش ہونی چاہئے، اختلاف مسلک ومشرب کے باوجود پوری ملت اسلامیہ چند اہم نکات اوراصولی باتوں پر متفق ہوں، اس کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے اوریہ سب کام محض جذبات یاجوش عمل سے نہیں ہوسکتا، اس کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے،برصغیر میں ملت اسلامیہ کی تاریخ خصوصااٹھارہویں صدی کے بعد سے ہمیں یہی بتاتی ہےکہ ہماری بہت ساری تحریکیں زوروشور سے اٹھیں لیکن جلد ہی فناپذیر ہوگئیں، وجہ یہی تھی کہ ان تحریکوں کے پیچھے منصوبہ بندی، مستقل مزاجی اورمعیارکے بجائے جوش، جذبہ اور شخصیت پرستی تھی،لہذا یہ تحریکیں بادل کی طرح اٹھیں اوراسی تیز ی سے برس کر فناہوگئیں۔
اسلام میں منصوبہ بندی کی بڑی اہمیت ہے، اوراس پر بڑا زور دیاگیاہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر کام نیت کے ساتھ ہوناچاہئے،اورنیت پر ہی عمل کی کامیابی کا دارومدار ہے(صحیح بخاری، باب بدء الوحی، حدیث نمبر:۱)یہ واضح ہے کہ سوائے پاگلوں کے انسان جوبھی عمل کرتا ہے، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی ارادہ ضرور ہوتاہے، اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی کام پوری منصوبہ بندی، پلاننگ اور واضح لائحہ عمل کے ساتھ انجام دیاجائے، اس پر مزید روشنی اس حدیث سے پڑتی ہے جس میں کہاگیاہےکہ انسان جب کسی کام کاارادہ کرے تو اس کے انجام وعواقب اورمسائل پر پوری طرح غورکرلے تاکہ بعد میں یہ نہ کہتاپھرےاگرمیں ایساکرتاتوایساہوتا، اگرمیں ایساکرتاتوویساہوتا:
عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الموٴمنُ القویُّ خیرٌ و أحبُّ الی اللہِ من الموٴمنِ الضعیفِ، و فی کلٍ خیرٌ، اَحْرِصْ علی ما ینفعُک واسْتَعِنْ باللہِ ولا تَعْجِز، و ان أصابَکَ شیءٌ فلا تَقُلْ لَوأنَّی فعلتُ کانَ کذاو کذا، ولکن قُلْ: قَدَّرَ اللہُ وماشاء فَعَلَ، فَان ”لو“ تفتح عَمَلَ الشیطانِ“ (صحیح مسلم،کتاب القدر،باب فی الامر بالقوة وترک العجز، والاستعانة باللّٰہ وتفویض المقادیر للہ) اس حدیث میں واضح طورپر یہ کہاگیاہے کہ
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ خود کو طاقتور بنائیں کمزور اورعاجز نہ بنیں ،چاہے یہ طاقتور بنناعلم کی جہت سے ہو، مال کی جہت سے ہو، یا سیاسی اقتدارکی جہت سے یااوربھی کسی شعبہ حیات کی جہت سے ہو، مسلمان طاقتور بنیں، طاقتور مسلمان کمزور اور عاجز مسلمان سے بہترہے،اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو چیز ان کیلئے فائدہ بخش ہو، اس کے حصول کی کوشش کریں، اوراس سلسلے میں کسی سستی ،کاہلی اورکم ہمتی سے کام نہ لیں اور اگر تمام جدوجہد اور کوشش کے باوجودمقصد میں ناکام رہیں تو اس کو خدائی فیصلہ سمجھیں اوریہ نہ کہتے پھریں کہ اگرمیں ایسا کرتاتوایسا ہوجاتا، اس سے بہتریہ ہے کہ کسی کام اورمنصوبہ کو انجام دینے سے پہلے ہی اس پر اچھی طرح غوروخوض کرلیاجائے اورپھر کام کیاجائے، منصوبہ کی ناکامی کے بعد خیالی گھوڑے دوڑانا اور’’ کاش ‘‘کاوظیفہ رٹنا شیطانی وسوسہ ہے، اورحوصلہ وہمت کیلئے موت ہے۔
مسلمانوں کی بہتری اورسربلندی کے منصوبے پایہ تکمیل کو کیسے پہنچیں، منصوبہ بندی اورپلاننگ کیسے کی جائے ،لیڈرشپ کیسے تیار کی جائے اور منصوبوں کو عمل میں کیسے ڈھالاجائے،اس پر متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں جواپنی جگہ بیش قیمت ہیں، اسی سلسلے کی ایک اچھی کتاب محب عزیز مولانا مفتی قیام الدین قاسمی وفقہ اللہ بمایحب ویرضی کی ’’امت کی مجموعی ترقی کا لائحہ عمل ‘‘ہے، آپ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کے والد کرناٹک کے ایک مدرسہ میں شیخ الحدیث رہ چکے ہیں، اور موصوف خود بھی بہار کے اہم دینی ادارےسے جڑے ہوئے ہیں ،آپ کی یہ کتاب بڑی قابل قدر ہے، ہر پڑھے لکھے مسلمان کے مطالعہ میں رہناچاہئےاوراس کو محض نظریہ نہیں؛بلکہ عمل کے سانچے میں ڈھالناچاہئے، یہ ضروری نہیں کہ اس کتاب کے تمام مندرجات سے حرف بہ حرف اتفاق کیاجائے لیکن یہ کتاب اس لائق ضرور ہے کہ اس کو ایک بار پڑھاجائے اور جو بات سمجھ میں آئے اس کو عمل کے سانچے میں ڈھالاجائے، امید ہے کہ اہل علم اس کتاب کی پذیرائی کریں گے۔