مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی امیر شریعت سابعؒ کی شخصیت اوالعزمی، جواں مردی، ملت کے لئے فکرمندی، اسلامی احکام وروایات، اخلاق و اقدار کی پاسداری، قوت فیصلہ، ہر فیصلوں کے نفاذ کی عملی صلاحیت، جرأت و بے باکی میں اپنے عہد میں ممتاز ہی نہیں ممتاز ترین تھی، معاملہ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا ہو یا امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے کا، رحمانی تھرٹی کا ہو یا عوام وخواص کی روحانی تربیت کا، مدارس کی سر پرستی کا ہو یا عصری تعلیمی اداروں کے فروغ کا، اردو کی ترویج واشاعت کا ہو یا تہذیبی تحفظ کا، ہر موقع پر حضرت کی جدو جہد مثالی تھی، وہ انتہائی دور اندیش، مدبر اساسی اتار چڑھاؤ اور اس کے مضر و مفید اثرات پر گہری نظر رکھنے والے تھے، انہوں نے برسوں ودھان پریشد کے رکن اور چیر مین کی حیثیت سے کام کیا تھا، اس لئے سیاسی حضرات کے داؤ پیچ اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی ناپاک سازشوں اور مسلمانوں کو ہندوستان میں نام کی حد تک مسلمان رکھنے کی مہم سے پورے طور پر واقف تھے، اس لئے ان کے منصوبوں، سازشوں اور مہم کو نا کام کرنے کے طریقوں سے مسلمانوں کو واقف کراتے رہتے تھے اور اقتدار کے مسند نشینوں کو اس طرح تنبیہ کرتے تھے کہ ان کے منصوبوں پر خاک پڑ جاتی تھی، یوسی سی اور تین طلاق پر حکومت کی قانون سازی پر جو تحریک پورے ملک میں انہوں نے چلائی اور بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ میں خصوصیت کے ساتھ امارت شرعیہ کے ذمہ داروں نقباء اور عام مسلمانوں کو کھڑا کر دیا وہ تاریخ کا روشن باب ہے، ہو سکتا ہے کسی کو بعض موقعوں سے امیر شریعت سابعؒ کے طریقہ کار سے اختلاف رہا ہولیکن ان کے خلوص اور ملت کے لئے جاں نثاری کے ان کے جذبہ اور خدمات پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی، امیر شریعت سابعؒ ایک انسان تھے، فرشتہ نہیں، ان کو فرشتہ ثابت کرنے کی ہر کوشش مقام انسانیت سے فروتر کرنے کی کوشش ہے، حالاں کہ مقام عبدیت اور مقام انسانیت، مقام ملوکیت سے انتہائی فزوں تر ہے اور حضرت امیر شریعت ان دونوں مقام کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کے وصال کے بعد ارریہ اجلاس میں آپ کا انتخاب بحیثیت امیر شریعت سابع ہوا، اور وصال تک اس مقام پر فائز رہے، مدت کم و بیش پانچ سال کی ہی ملی لیکن انہوں نے امیر بننے کے بعد پہلی مجلس میں فرمایا تھا کہ بہت کچھ بدلے گا، اور واقعی انہوں نے امارت شرعیہ کی ترقی و استحکام کی غرض سے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا، یہ وہ دور تھا جب امارت شرعیہ کے ارکان ثلٰثہ جن کے دور کو امارت شرعیہ کا زریں دور کہا جاتا ہے، ہم سے بچھر گئے، امیر شریعت رابعؒ کے انتقال کو زمانہ گذر چکا تھا، قاضی القضاۃ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ؒاور اپنی انتظامی صلاحیت اور عرصہ دراز تک ناظم کے عہدے پر فائز اور بعد میں امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین ؒنے بھی رخت سفر باندھ لیا تھا، ایسے میں امارت شرعیہ کے اعتبار، اعتماد اور وقار کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے آگے بڑھانے کا کام کیا۔ وہ اپنے والد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی امیر شریعت رابعؒ کی طرح ہی مردم شناس اور رجال ساز تھے، انہوں نے جناب عبدالرافع صاحبؒ کے انتقال کے بعد مجھے ہفت روزہ نقیب کا ایڈیٹر بنایا، میرے احباب میں سے کئی ان سے بار بار کہتے رہے کہ اس عہدہ پر کسی انگریزی اور ہندی داں کو لانا چاہئے لیکن حضرت نے سب کی زبان کو یہ کہہ کر بند کر دیا کہ مفتی صاحب ہندی اچھی جانتے ہیں، انگریزی پڑھ اور سمجھ لیتے ہیں، اردو میں مختلف موضوعات پر ان کے اندر لکھنے کی بھر پور صلاحیت ہے، نقیب کے ایڈیٹر کے لئے اس سے زیادہ قابلیت کی ضرورت نہیں ہے اور ان کی ہدایت کے مطابق نقیب نے ظاہری و معنوی طور پر ترقی کے بڑے مراحل طے کئے۔
میری طرح انہوں نے اور کئی لوگوں کا انتخاب کیا، مولانا حکیم محمد شبلی قاسمی صاحب کو پہلے نائب ناظم اور مولانا انیس الرحمن قاسمی کے بعد انہیں قائم مقام ناظم بنایا، ان کی تنظیمی اور انتظامی تربیت فرمائی اور انہیں امارت شرعیہ کے کاموں کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے کا سلیقہ بخشا، یہی وجہ ہے کہ وہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ آج بھی امیر شریعت ثامن مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم و ہدایت کے مطابق اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔
مولانا محمد شبلی قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ نے امیر شریعت سابعؒ کی خدمات جو امارت شرعیہ کے حوالہ سے ہیں انہیں انتہائی سلیقہ کے ساتھ مرتب کر دیا ہے، یہ ایک تاریخی دستاویز ہے جو امارت شرعیہ کے پانچ سالہ خدمات پر محیط ہے، اس میں جس چابک دستی سے حضرت امیر شریعت سابعؒ کے دور میں ہوئے کام کی جزئیات کا احاطہ کیا گیا ہے امارت شرعیہ کے موجودہ لٹریچر میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، مفکر ملت امیر شریعت ثامن نے بجا طور اسے عقیدت مندی کے قلم سے لکھی گئی کتاب قرار دیا ہے جو صد فی صد صحیح ہے۔
قائم مقام ناظم کے لئے اس اہم کتاب کی تالیف اس لئے ممکن ہوسکی کہ تمام جزئیات ان کی دسترس میں تھے اور کسی بھی کاغذ تک ان کی رسائی آسان تھی، اس کا لب ولہجہ لکھنے کا اسلوب تعبیرات بھی ان کی دوسری کتابوں سے الگ ہیں، اس کتاب کے بعد پیرا گراف اور جملوں کو ادب کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے، روانی،برجستگی اور ترتیب کی سلیقگی کے اعتبار سے بھی یہ کتاب ممتاز ہے۔
میری خواہش ہے کہ قائم مقام ناظم صاحب تمام امراء شریعت کے دور پر الگ الگ جلدوں میں کتاب مرتب کر دیں، امارت کی پوری تاریخ اب تک کی آٹھ جلدوں میں مکمل ہو جائے گی اور حضرت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ کی تاریخ امارت اور حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحیؒ کی امارت شرعیہ دینی جدو جہد کا روشن باب کے الگ سے تکملہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی، وہ چاہیں تو اپنی ترتیب نیچے سے بھی رکھ سکتے ہیں، یعنی امیر شریعت سابع کے بعد سادس، خامس، رابع وغیرہ، اگر وہ اپنی مشغولیات سے کچھ وقت ان کاموں کے لئے نکال سکے تو یہ بڑا کام ہو جائے گا اورصرف اس ایک کتاب کی وجہ سے وہ علمی دنیا میں بقاء دوام پاسکیں گے، میں اس اہم تاریخی اور دستاویزی کتاب کی تالیف پر مولانا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس کتاب کے قبول عام و تام اور مولانا کے لئے صحت وعافیت کے ساتھ درازی عمر اور خدمات کے تسلسل کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔