ابو الکلام ، جمالپور ، دربھنگہ
اللہ تعالیٰ نے والدین کو اولاد کے لئے محبت، شفقت اور ایثار کا کامل پیکر بنایا ہے۔ وہ صرف رشتوں کے نام نہیں، بلکہ ایک عظیم عہد، لازوال محبت اور بے لوث قربانی کا استعارہ ہیں۔ ان کی دعائیں اولاد کے لئے سب سے بڑی دولت اور ان کا سایہ سب سے عظیم نعمت ہے۔ وہ اپنی خواہشات کو دفن کر کے، اپنی نیندیں قربان کر کے، اور اپنی خوشیوں کو پسِ پشت ڈال کر اولاد کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔ ان کا ہر لمحہ، ہر سانس، اور ہر دعا اولاد کی کامیابی اور سربلندی کے لئے وقف ہوتی ہے۔
میرے والدِ محترم، جناب عبد العلام صاحب، ایسی ہی ایک عظیم ہستی تھے۔ ان کا وجود ہمارے لئے روشنی کا مینار، ان کی دعائیں ہماری ڈھال، اور ان کی محبت ہماری سب سے بڑی طاقت تھی۔ ان کی شخصیت وجاہت، وقار اور دلکشی کا حسین امتزاج تھی۔ لمبا قد، کشادہ پیشانی، گہری آنکھوں پر عینک، سفید لمبی داڑھی، تراشیدہ مونچھیں، بارعب چہرہ، سر پر گول دھاگے والی ٹوپی، لمبا کرتا، عالمانہ وضع قطع، خوش مزاجی، خوش اخلاقی، اور دین داری ان کی شخصیت کے نمایاں جوہر تھے۔ بچوں سے بے پناہ محبت اور شفقت ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ سچی مسکراہٹ سجی رہتی۔ہیہ ان کی شخصیت کی پہچان بھی تھی۔ ان کی باتوں میں مٹھاس، الفاظ میں صداقت، اور رویوں میں اخلاص جھلکتا تھا۔ ان کے چہرے کی نورانیت، کردار کی عظمت، اور الفاظ کی سحر انگیزی آج بھی دل و دماغ میں سمایا ہوا ہے۔
وہ علم و حکمت کے قدر دان، اصولوں کے پاسبان، اور دیانت داری کے پیکر تھے۔ ان کی شخصیت محبت، شفقت، صبر، ایثار اور خودداری کی اعلیٰ مثال تھی۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے:’’ علم وہ سرمایہ ہے جو کبھی زائل نہیں ہوتا۔‘‘ وہ خود مطالعے کے شوقین تھے اور ہمیں بھی کتابوں سے دوستی اور علم کی روشنی کو دل و دماغ میں سمانے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ ان کا قول تھا، ’’علم کی روشنی ہی وہ چراغ ہے جو زمانے کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے۔‘‘ان کے یہ سنہری الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں اور میری زندگی کی راہنمائی کرتے ہیں۔زندگی کے ہر نشیب و فراز میں والدِ محترم کی شخصیت صبر و حوصلے کی عملی تصویر تھی۔ وہ مشکلات کو مسکراہٹ کے ساتھ جھیلتے اور ہمیں سکھاتے کہ زندگی آزمائشوں کا دوسرا نام ہے۔ ان کا کہنا تھا،’’مشکلات کمزور دلوں کے لئے رکاوٹ ہیں اور بہادروں کے لیے راستہ۔‘‘ وہ عمل پر یقین رکھتے تھے، کبھی کسی مشکل سے گھبرائے نہیں، بلکہ نا مساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ اطمینان اور عزم کی جھلک رہتی، گویا وہ زندگی کے ہر امتحان کے لئے پہلے سے تیار ہوں۔ ان کی زندگی کی محنت اور جدوجہد میرے لئے عظیم درسگاہ تھی۔
والدِ محترم دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے، رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال رکھتے، اور ہر ایک کے لئے محبت و خلوص کا خزانہ تھے۔ ان کے دروازے ہر آنے والے کے لئے کھلے رہتے، اور وہ مہمان نوازی میں پیش پیش رہتے۔ ان کی فراخ دلی ایسی تھی کہ کوئی ان کے در سے خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ لوگ آج بھی ان کی سخاوت، اخلاق، اور فیاضی کے قصے سناتے ہیں۔ ان کا قول تھا،’’اصل دولت وہ ہے، جو دلوں میں محبت کی صورت تقسیم ہو۔‘‘ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے، خواہ خود کسی مشکل میں ہی کیوں نہ ہوں۔
5 جولائی، 2023، یعنی 14 ذی الحجہ، 1444 ہجری کی صبح وہ الم ناک گھڑی آئی، جب ہمارے لئے روشنی کا مینار بجھ گیا۔ صبح کے قریب 10 بجے میری دنیا اچانک اندھیروں میں ڈوب گئی۔ چند گھنٹے قبل وہ اپنے دوستوں سے ہنسی خوشی باتیں کر رہے تھے۔ ایک روز قبل انہوں نے اپنے بڑے بھائی، جناب عبد السلام صاحب، جو حج کے سفر پر تھے، سے فون پر بات کی۔ گفتگو میں انہوں نے کہا، ’’بھیّا، میرے لئے دعا کیجیے گا، میرا کھانا پینا آج سے بند ہو گیا ہے۔‘‘یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ وہ چلتے پھرتے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اپنے پیچھے محبتوں اور دعاؤں سے بھرا ایک عظیم خاندان چھوڑ گئے۔ ان کے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ،جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔یہ میرے لئے ایک ایسا دکھ ہے جو تا حیات میرے افسردہ دل میں زندہ رہے گا۔میرے والدِ محترم ایک ایماندار، شفیق، اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی دیانت داری، خلوص، اور خوش اخلاقی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے خاندان بلکہ دوستوں اور اردگرد کے لوگوں کے لئے بھی محبت و ایثار کا عملی نمونہ تھے۔ 2022 میں، جب میں دہلی میں مقیم تھا، والدِ محترم علاج کے سلسلے میں ایک بار دہلی گئے تھے ۔ ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے بڑی محبت و عقیدت سے ان سے ملاقات کی۔ ہر ملنے والا ان کی ایمانداری، شرافت، اور خلوص کی تعریف کرتے نہیں تھکتا۔ ان کی سادگی اور دل کشی ہر ایک کو متاثر کرتی تھی۔ وہ خندہ پیشانی سے سب سے ملتے، ہر ایک کے دکھ درد کو سمجھتے، اور ہر ممکن مدد کی کوشش کرتے تھے۔ والد محترم نےچند سال تک دہلی جامع مسجد کے قریب جواہر ہوٹل میں انہوں نے منیجر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ وہاں بھی ان کی ایمانداری، حسنِ سلوک اور شرافت ہر خاص و عام میں مشہور تھی۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں اور خوش مزاجی نے نہ صرف ہوٹل کا ماحول بہتر بنایا، بلکہ مستقل گاہک بھی ان کے اخلاق اور خلوص کی بدولت ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کی زندگی ہمیشہ اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عکاس رہی۔ انہوں نے ہمیشہ حق و صداقت کا دامن تھامے رکھا اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی نصیحت کی۔ ان کی یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، اور ان کی سادگی، محبت، اصول پسندی، اور بے لوث خدمت کا جذبہ ہمیشہ ہمارے لئے مشعلِ راہ رہے گا۔
قرآنِ مجید میں والدین کی خدمت اور احترام کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ حدیثِ نبویﷺ کے مطابق، ’’والدین کی خدمت جنت کے دروازے کھول دیتی ہے۔‘‘ اسی لئے ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے والدین کی عزت کریں، ان کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں، اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ کا سبب بنیں، کیونکہ ان کے جانے کے بعد صرف یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔
میرے والدِ محترم اپنی زندگی کا امتحان مکمل کر کے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، لیکن ان کے سکھائے ہوئے اصول، ان کی محبت، اور ان کے نقوش ہمیشہ میرے دل میں محفوظ رہیں گے۔ ان کی دائمی جدائی کا غم اتنا گہرا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن اس بات کا اطمینان ہے کہ وہ ایک نیک اور عظیم انسان کی حیثیت سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
5 جولائی، 2023 سے میرے گھر میں ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک عجیب سا خلا محسوس ہوتا ہے۔ وہ ایک شخص، جس کی موجودگی نے مجھے کبھی غمگین ہونےنہیں دیا، وہ میری ہر تھکان کا مداوا تھا۔ جب لفظ کم پڑ جاتے، ان کی آنکھیں بولتی تھیں۔ ان کی سادہ سی مسکراہٹ میرے اندر کی ٹوٹی ہوئی دیواروں کو سہارا دیتی تھی۔ وہ ایک اکیلا شخص میری ہر پریشانی کا حل تھا۔
اے پروردگار! میرے والدِ محترم کو اپنے سایۂ رحمت میں رکھ، ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا، انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین، ثم آمین، یا رب العالمین!