ہماری تہذیب پر اقتدائے مغرب کا خمار چھایا ہوا ہے، اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو اس نوعیت کے ایک دو نہیں بلکہ معاشرے میں ہزاروں واقعات مل جائیں گے
ابوالکلام
ہمارے معاشرے میں یہ برائی عام ہو چکاہے کہ ہم لوگ شادیو ں میں مشرکین کی نقل کرتے ہیں ۔ منگنی ، بارات، جہیز، ہلدی ،مہندی ودیگر رسومات اور ناجانے کون کون سی خرافات ہے ۔چند گھنٹوں کے لئے ہزاروں روپئے کو پانی کی طر ح بہا دیا جا تاہے ۔ اِن ساری رسومات پر لڑکی کے ماں باپ کو خوب خرچ کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ گھر فروخت کر کے کریں یا سود پر پیسہ لا کر کریں ۔رسومات تو ادا ہو جاتاہے اور باپ کا قرض ادا کرتے کر تے قبر میں چلا جاتاہے اور پھر بھی قر ض کی ادائیگی نہیں ہو تی ہے ۔اور خود لڑکے والے مہر ادھار رکھ کر جہیز نقد وصول کر کے اس رقم سے ولیمہ کرتے ہیں۔ ولیمہ کی سنّت میں مذاق اڑانے والی بے شمار حرکتیںشامل کر تے ہیں ۔ ہمارے سماج میں آج کل باراتیوں کی دو سو سے ڈھائی سو تک کی فہر ست تیار کی جاتی ہے۔ اس موقع پر کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے ، یا بھول کر کسی کا نام چھوٹ جاتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ اس فہرست میں کون دارو اور شراب پینے والا ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ پھر لڑکے والے لڑکی والوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو باراتی آپ کے یہاں پہنچیں ان کی خوب اچھی طرح خاطر داری ہو ۔ یہ کتنی بڑی زیادتی اور بے شرمی کی بات ہے کہ لڑکے والے اپنے مہمانوں کو زبر دستی لڑکی والوں کا مہمان بنا دیتے ہیں ۔اوراگر کھانے پینے میں ذائقہ بدل جائے تو پھر دیکھئےباراتیوں کا شو ر واویلامہمانو ں کی بد تمیزی جس سے لڑکی والوں کی شرم سےسر جھک جاتاہے ۔
اسلام میں صرف ولیمہ کا کھانا درست ہے، منگنی ، اور شادی کے دن کی بارات کا کھانا ہوایسی شادیوں کے دعوت نامے کو قبول نہیں کیجئے۔لیکن عزت کے ساتھ دعوت دینے والے سے ہمت کرکے کہیں کہ ’’ہم معافی چاہتے ہیں، ہم شرکت نہیں کرسکتے کیونکہ یہ شادی ہمارے نبیﷺ کے طریقے پرنہیں بلکہ یہ شادی یہودی و نصری، مشرکین کی نقل ہے۔ آپ کے بائیکاٹ کرنے سے یقینا وہ شادی رکنے والی نہیں ہے لیکن آپ کا جملہ وہ شخص کئی لوگوں کو سنائے گا، لوگوں کی اکثریت آپ پر تنقید کرے گی،لیکن چند لوگ ہوں گے جو نہ صرف آپ کی تائید کریں گے بلکہ ایسی شادیوں کے خلاف مہم چلانے کے لئے آپ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔ شادیوں کو مکمل سنت کے مطابق کروانے سے معاشرے میں ایک زبردست معاشی تبدیلی آئےگئی ۔ بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں میں سب کچھ لٹا کر جو لوگ آج مالی طور پر پریشان ہورہے ہیں، یہی لوگ کل تاجر اور خوشحال بن جائیں گے۔ اور ہمارے سماج میں ایک بڑی تبدیلی ہو گئی اور ہمارے سماج میں ہر شخص تعلیم یا فتہ ہوگا۔ فضول خرچی سے باز رکھنے کی مہم کو تیز کرنے کی کوشش کریں چونکہ اب شادی میں فضول خرچی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اب عام لوگوں کی شادیاں نوابوں اور راجاؤں کی شادیوں میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات دے رہی ہیں، دولت مند طبقوں نے اس کو اپنی مالی فراوانی کے مظاہرہ کا ذریعہ بنا لیا ہے، درمیانی طبقہ اس کی وجہ سے بعض اوقات در و دیوار تک بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ جب تک معاشرہ کے دولت مند لوگ سادگی کو اختیار نہ کریں گے، اس صورت حال میں کسی بھی تبدیلی کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا ، اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے قدرتی آفات و حادثات کے مواقع پر امداد اور بچاؤ کی مہم شروع کی جاتی ہے، اسی طرح نکاح میں سادگی پیدا کرنے کے لیے منظم ہو کر ایک مہم چلائیں اور گھر گھر دستک دے کر انھیں سادہ طریقہ پر تقریب نکاح انجام دینے کی دعوت دیں۔
ہماری تہذیب پر اقتدائے مغرب کا خمار اس قدبر ھا ہوا ہے۔اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو اس نوعیت کے ایک دو نہیں بلکہ معاشرے میں ہزاروں واقعات مل جائیں گے۔ جو اسلامی تعلیمات کی اگر ایک طرف اہمیت و افادیت کو کمزور کرتے ہیں تو وہیں دوسری جانب مغربی تہذیب کے فروغ کا زبردست ذریعہ بھی ہے۔غور کیجئے یہ ساری رسمیں کہاں سے آئی یہ ناہماری تہذیب کا حصہ ہے اور نا ہی ہمارےنبی اکرم ﷺ وسلم کی سنت ہے ۔ ہم نے صرف یہودی و نصری، مشرکین کی نقل کی ہے ۔اور اپنے نبی اکرم ﷺ کی سنت کو تر کیاہے ۔