ابوالکلام ، جمالپور
اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے ہر دور میں انبیاء کرام کو بھیجا، تاکہ لوگ اندھیروں سے نکل کر ایمان اور معرفت کی روشنی میں داخل ہوں۔ ان برگزیدہ ہستیوں میں حضرت یونس علیہ السلام ایک عظیم نبی ہیں، جن کی زندگی کا واقعہ قرآنِ کریم میں نہایت عبرت انگیز اور سبق آموز انداز میں بیان ہوا ہے۔ ان کی حیاتِ مبارکہ ہمیں اللہ پر توکل، دعا، استغفار اور صبر کا درس دیتی ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کا تعلق حضرت یوسف علیہ السلام کے قبیلے سے تھا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے نینویٰ (موجودہ عراق کے شہر موصل کے قریب) کے لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ نینویٰ کی بستی ایک عظیم شہر تھا جس کی آبادی ہزاروں میں تھی۔ مگر افسوس کہ وہاں کے لوگ شرک، بت پرستی اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو ان کی ہدایت کے لیے منتخب فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو ایک خدا کی عبادت اور نیک اعمال کی طرف بلائیں۔
حضرت یونس علیہ السلام نے نہایت حکمت اور صبر کے ساتھ اپنی قوم کو توحید کا پیغام دیا، انہیں شرک سے روکا اور عذابِ الٰہی سے ڈرایا۔ لیکن قوم اپنی ضد اور کفر پر قائم رہی۔ وہ آپ کی باتوں کو سن کر مذاق اڑاتے اور انکار کرتے۔ برسوں تک آپ انہیں سمجھاتے رہے مگر وہ ایمان نہ لائے۔آخرکار حضرت یونس علیہ السلام قوم کی ہٹ دھرمی اور انکار سے دل گرفتہ ہو گئے۔ آپ نے سمجھا کہ اب یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اللہ کا عذاب ان پر نازل ہو کر رہے گا۔ چنانچہ آپ اپنی بستی چھوڑ کر چلے گئے۔
حضرت یونس علیہ السلام ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ اچانک کشتی بھاری ہونے لگی اور ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ کشتی والوں نے مشورہ کیا کہ کسی ایک شخص کو سمندر میں ڈالنا ضروری ہے تاکہ کشتی ہلکی ہو جائے۔ قرعہ اندازی ہوئی تو تین مرتبہ حضرت یونس علیہ السلام کا نام نکلا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ آپ کو سمندر میں ڈال دیا گیا۔اللہ کے حکم سے ایک بڑی مچھلی نے آپ کو زندہ نگل لیا۔ یہ وہ عظیم آزمائش تھی جس نے حضرت یونس علیہ السلام کو تاریخ میں “ذوالنون” یعنی “مچھلی والا” بنا دیا۔
حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے۔ وہ جگہ اندھیری رات، سمندر کی گہرائی اور مچھلی کے پیٹ کے گھپ اندھیرے کا مجموعہ تھی۔ اس کرب اور تنہائی میں حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے رب کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کی، جو قرآن مجید میں یوں محفوظ ہے:”لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ”
تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں)
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کو قبول فرمایا اور مچھلی کے پیٹ سے نجات عطا کی۔ آپ زندہ سلامت خشکی پر پہنچ گئے۔
ادھر جب حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کے آثار ظاہر ہوئے تو ان کے دل کانپ اٹھے۔ وہ سب اجتماعی طور پر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے، توبہ کی اور عاجزی کے ساتھ دعائیں کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان سے عذاب کو ٹال دیا۔ یہ قرآن مجید میں ایک منفرد واقعہ ہے کہ کوئی پوری قوم اجتماعی طور پر توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما کر عذاب کو ہٹا دے۔حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو لوگوں نے آپ کو اللہ کا سچا نبی مانا اور ایمان لے آئے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر متعدد مقامات پر فرمایا ہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی ہمیں بہت سے سبق دیتی ہے:اللہ سے مایوس نہ ہوں: سب سے کڑے حالات میں بھی اللہ سے امید اور دعا کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔دعا کی اہمیت: دعائے یونس اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاص کے ساتھ مانگی گئی دعا مصیبتوں کو دور کر دیتی ہے۔اطاعتِ الٰہی: نبی بھی اگر اللہ کے حکم کے بغیر کوئی قدم اٹھائیں تو اللہ انہیں آزماتا ہے، اس سے ہمیں اطاعت کی اہمیت کا درس ملتا ہے۔توبہ کا اثر: اگر کوئی قوم اجتماعی طور پر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ عذاب کو ٹال دیتا ہے۔صبر اور استقامت: حالات جیسے بھی ہوں، صبر اور ثابت قدمی انسان کو نجات کی راہ دکھاتے ہیں۔
حضرت یونس علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ انسانیت کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ ان کا صبر، ان کی دعا اور ان کی قوم کی اجتماعی توبہ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے بندوں کے قریب ہے۔ اگر انسان اخلاص کے ساتھ رجوع کرے تو اللہ اپنی رحمت سے اسے نجات عطا فرماتا ہے۔آج کی دنیا میں جہاں مایوسیاں اور پریشانیاں عام ہیں، وہاں حضرت یونس علیہ السلام کی دعا اور ان کی سیرت ہمیں امید، سکون اور اللہ پر بھروسہ کرنے کا بہترین سبق دیتی ہے۔