ام سلمیٰ
دنیا میں سب سے بڑی خوشی بھی اپنوں سے ملتی ہے اور سب سے بڑا دکھ بھی اکثر اپنوں ہی سے ملتا ہے۔ بیگانوں کا وار جسم کو زخمی کرتا ہے لیکن اپنوں کی زیادتی دل کو چیر دیتی ہے۔ قرآن کریم نے ہمیں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ سنا کر یہ سبق دیا ہے کہ اپنوں کی طرف سے ملنے والی اذیتیں اور حسد بھی اللہ کی آزمائش ہیں، اور ان پر صبر و معافی ہی اصل کامیابی ہے۔
حسد کی آگ اور اپنوں کا ظلم
حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی ہم سب کے سامنے ہے۔ وہ ایک معصوم بچہ تھے، جنہیں والد یعقوب علیہ السلام کی بے پناہ محبت حاصل تھی۔ لیکن یہی محبت ان کے بھائیوں کے دل میں حسد کی آگ بھڑکا گئی۔ انہوں نے اپنے ہی بھائی کو کنویں کی تاریکیوں میں پھینک دیا، پھر جھوٹ بول کر والد کو دھوکا دیا۔
سوچیے! یہ ظلم دشمنوں نے نہیں، بلکہ سگے بھائیوں نے کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سب سے خطرناک وار کبھی کبھی اپنے ہی کرتے ہیں۔ آج ہمارے گھروں اور خاندانوں میں بھی یہی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ مسلمان مسلمان سے جلتا ہے، بھائی بھائی پر بھاری ہونے کی کوشش کرتا ہے، رشتے دار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں۔ وراثت کے جھگڑے، دنیاوی مفادات اور معمولی ضدیں خاندانوں کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
صبر، عزیمت اور معافی
حضرت یوسف علیہ السلام کو غلام بنایا گیا، جیل میں ڈالا گیا، لیکن انہوں نے ہر حال میں صبر کو اپنایا اور اللہ پر بھروسہ رکھا۔ وہ چاہتے تو اقتدار ملنے پر بھائیوں سے بدلہ لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے فرمایا:”آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔”یہ الفاظ سن کر دل کانپ اٹھتا ہے۔ جن بھائیوں نے ظلم کیا، انہی کو معاف کر دیا۔ یہی کردار ہمیں دکھاتا ہے کہ اصل بلندی صبر اور معافی میں ہے، نہ کہ بدلہ لینے میں۔
آج کے مسلمانوں کے لئے پیغام
ہمارے دل حسد اور کینہ سے بھر گئے ہیں۔ ہم دوسروں کی خوشی دیکھ کر جلتے ہیں، بھائی بھائی سے نفرت کرتا ہے، خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ یہی رویے ہمیں کمزور کر رہے ہیں اور دشمن ہم پر غالب آ رہا ہے۔اگر ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے سبق لیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ:حسد انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔اپنوں کا ظلم آزمائش ہے، لیکن صبر اس کا علاج ہے۔معافی دل کو سکون دیتی ہے اور اللہ کی رضا کا ذریعہ بنتی ہے۔
اپنوں کے زخم اور اللہ کا انعام
اپنوں کی طرف سے ملنے والے زخم گہرے ہوتے ہیں، لیکن یہی زخم اللہ کے فضل سے عزت اور کامیابی میں بدل جاتے ہیں۔ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں کی تاریکیوں سے نکال کر سلطنت کے تخت تک پہنچایا گیا۔اگر ہم صبر کریں اور دل کو بڑا کریں تو اللہ ہماری آزمائش کو بھی کامیابی میں بدل سکتا ہے۔ آج کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے دلوں سے نفرت اور حسد کو نکال دیں، اپنوں کو معاف کرنا سیکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے سے رہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے ایک روشن مینار ہے۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنوں کے ظلم اور حسد پر صبر، برداشت اور معافی ہی اصل کامیابی ہے۔ اگر آج کے مسلمان اپنے دلوں کو صاف کر لیں، دشمنی اور نفرت کو چھوڑ دیں، اور اپنوں کے ساتھ بھلائی کو اپنائیں، تو نہ صرف ہمارے خاندان جنت کا نمونہ بن سکتے ہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ ایک بار پھر عزت و سربلندی حاصل کر سکتی ہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی اور ہدایت کا خزانہ ہے۔ اس واقعے میں ہمیں صبر، برداشت، عفو و درگزر، اور اللہ کی تدبیر پر بھروسے کا وہ عملی نمونہ ملتا ہے جو آج بھی ہماری زندگیوں کو سنوار سکتا ہے۔حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے حسد کی آگ میں جل کر ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اپنوں سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے اپنے ہی بھائی کو کنویں میں پھینک دیا، پھر جھوٹ اور مکاری سے اپنے والد کو دھوکہ دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھیے کہ وہی یوسفؑ غلامی سے عزت کے تخت پر پہنچے اور آخرکار ان بھائیوں کو معاف بھی کر دیا جنہوں نے ان پر ظلم کیا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ حسد اور ظلم کرنے والے دراصل خود کو تباہ کرتے ہیں، مگر صبر کرنے والے اللہ کی نصرت اور عزت کے مستحق بن جاتے ہیں۔ یاد رکھیں! اپنوں کے ہاتھوں ملا زخم وقتی ہے، مگر صبر اور معافی انسان کو وہ مقام عطا کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک سب سے عظیم ہے۔