قاضی مجاہدالاسلام قاسمی: ایک عہد ساز شخصیت

مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڑیسہ جھارکھنڈ

فقیہ امت،مجاہد ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (م :اپریل ۲۰۰۲) قاضی القضاۃ امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ و جھارکھنڈ، سکریٹری جنرل آل انڈیا ملّی کونسل،صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اورسکریٹر ی جنرل اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی ہر دم رواں پیہم رواں رہنے والی زندگی مختصر میں کہاجائے تو اقامت دین کی سعیٔ پیہم سے عبارت تھی، اس کو پھیلاناچاہیں تو آپ اقامت دین کے ساتھ اتحاد امت اور ہمہ جہت تعلیم کو شامل کرسکتے ہیں، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں بھی اقامت دین ہی کا جز ہیں۔
تعلیم کے سلسلے میں قاضی صاحبؒ کا نظریہ بالکل واضح تھا، وہ بنیادی دینی تعلیم کو مسلمان بچے بچیوں کے لیے ضروری سمجھتے تھے ،اوراپنی تحریر وتقریر میں اس پرکھل کر گفتگو کرتے تھے۔ ان کے خیال میں کنونٹ وغیرہ میں بھی جو بچے پڑھ رہے ہیں ان کے لیے بھی وہاں کے نصاب میں بنیادی دینی تعلیم کولازماً شامل کیاجانا چاہئے اور اگر آپ اپنے بچوں کووہاں داخل کررہے ہیں تو ایسا پریشر بناناچاہیے کہ وہاں دینیات کی تعلیم کا نظم ہو۔بچہ کلمہ قرآن اور ضروریات دین سے نابلد نہ رہے، اسی لیے وہ ہرایسے تعلیمی ادارے کی قدر کرتے تھے جہاں عصری تعلیم کے ساتھ دینیات بھی داخل نصاب ہو، اس سلسلے میں ان کا موقف یہ تھا کہ عیسائی مشنری کے اسکول چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے قطعی مفید نہیں ہیں، کیونکہ ان کی تہذیب وثقافت اور ان کے معتقدات کے اثرات بچے قبول کرلیتے ہیں ،اس طرح تعلیم تووہ حاصل کرلیتے ہیں مگر اپنا بڑا سرمایہ ضائع کرچکے ہوتے ہیں، کبھی تہذیب ثقافت کا اورکبھی ایمان ویقین کا بھی۔ اس لیے وہ اس بات پر زور دیتے کہ ہمارے ابتدائی تعلیم کی عصری درسگاہیں اپنے نصاب اور نظام کے اعتبار سے ایسی ہوں کہ بچہ وہاں سے پڑھ کرجو بھی نکلے، وہ راسخ العقیدہ مسلمان ضرور ہو، اپنے انہی نظریات کی وجہ سے وہ ایسے اداروںکی حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی فرماتے جو قرآن کریم، کلمہ ، نماز وغیرہ کے ساتھ بچوں کو اس طرح تیارکرتے ہوں کہ وہ آگے چل کر مدرسہ یااسکول کا انتخاب اپنے رجحان طبع کے اعتبار سے کرسکیں۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں وہ خالص دینی مکتب کے قیام پر زور دیتے تاکہ بچہ دین کے اعتبار سے نابلد نہ رہے اور فرماتے کہ کوشش کیجئے کہ وہ خودکفیل ہوں۔امارت شرعیہ کے شعبۂ تعلیم کے ذریعہ ایک سو سے زائد مکاتب کا قیام ان کی سوچ اورفکر کانتیجہ تھاجوالحمد للہ ان کے یادگار کے طور پر آج بھی مختلف علاقوں میں چل رہے ہیں اور دن بہ دن اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہاہے، ان کا خیال تھاکہ اگر ہم دینی تعلیم کے نظم کو مستحکم اور مربوط انداز میں چلاسکیں تو قادیانیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات پر روک لگاسکتے ہیں۔ قاضی صاحبؒ فرمایاکرتے تھے کہ قادیانی اورعیسائی مشنریوں کے اثر ونفوذ کاان کے تعلیمی ادارے سب سے بڑا ذریعہ ہیں بغیر مضبوط اورمؤثر متبادل کے ہم انہیں نہیں روک سکتے۔بچہ کی تربیت اسلامی نہج پر ہوگئی اور وہ ضروریات دین سے واقف ہوگیا تو اسے عصری علوم کی طرف بھی بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ وہاں بھی اس کی نگرانی رہے تاکہ کچی عمر میں جو انفعالی کیفیت اور اثر پذیری کا مزاج ہوتاہے اس پر قابو پایاجاسکے۔ امارت شرعیہ کے قاضی نورالحسن میموریل کاقیام انھوں نے اسی فکر کے نتیجے میں کیا اور ابتداء میں جب اس کا رخ اور منہج متعین کرنا تھا ، خودسکریٹری رہے اور آج بھی ان کے اٹھائے قدم اوربنائے ہوئے اصول پر غریب بچوں کی تعلیم کایہ ایک اچھا ادار ہ ہے۔
وہ ثانوی اورسیکنڈری سطح پر بھی ایسے ادارے چاہتے تھے جہاں عصری علوم کے ساتھ اسلامی ماحول اور بود وباش کے ساتھ ہمارے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔ایسا کوئی ادارہ امارت کے ذریعہ قائم نہیں ہوسکا، لیکن انھوں نے اس نہج پر چل رہے اسکولوں کی حوصلہ افزائی ضرور کی۔مولانا سعود عالم قاسمی نے علی گڑھ میں جب اقراء اسکو ل قائم کیا تو حضرت قاضی صاحبؒ نے ان کی بے پناہ حوصلہ افزائی فرمائی۔اعلیٰ تعلیم میں اپنی فکر ونظریات کو عملی رنگ دینے کے لیے انھوں نے جالے میں قاضی کالج قائم کیا، بعد میں اپنی بے پناہ مصروفیات اور طویل علالت کی وجہ سے ان کے لیے اس میں رنگ بھرنا تو ممکن نہیں ہوسکا، لیکن جتنا کچھ وہ بتاگئے اور کرگئے اس کی روشنی میں اس کام کو آگے بڑھایاجارہاہے، اس کے لیے جذب دروں کی ضرورت ہے۔ کالج کی منظوری کے بعد وہاں کے اساتذہ کے معاش کا مسئلہ تو حل ہو گیا لیکن جو اصل مقصد قاضی صاحب کا تھا اس طرف توجہ کی اب بھی ضرورت ہے۔یوں موجودہ دور کے تقاضوں کی روشنی میں حضرت قاضی صاحبؒ سیدھے سیدھے ڈگریاں حاصل کرنے کو بہت مفیدنہیں سمجھتے تھے،اسی طرح وہ میڈیکل کالج سے زیادہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کے مراکز کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، اسی لیے حضرت قاضی صاحبؒ نے حضرت امیر شریعت رابع کے ساتھ مل کر امارت شرعیہ کے زیراہمتام مختلف علاقوں میں ٹیکنیکل تعلیمی اداروں کے قیام کی طویل اورکامیاب منصوبہ بندی کی،اس منصوبہ بندی کے نتیجے میں آج امارت شرعیہ کے زیراہتمام سات سے زائد ٹیکنیکل ادارے کام کررہے ہیں، جن سے سیکڑوں طلبہ کسب فیض کرکے رزق حلا ل حاصل کررہے ہیں اور انھیں نوکریوں کے حصول کے لیے دردر کی خاک چھاننی نہیں پڑرہی ہے۔ امارت شرعیہ کے موجود ہ ذمہ داران بھی اسی نہج پراس سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں، بہار شریف ،رانچی، دھنباد، وغیرہ میں مزید ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے کھولنے کا منصوبہ ہے۔ اور جلد ہی انشاء اللہ اس پر کام شروع ہوجائے گا۔
یہ عصری علوم کے اداروں کے سلسلے میں قاضی صاحبؒ کی سوچ تھی ، لیکن قاضی صاحبؒ علوم دینیہ اوراس میں اختصاص کوبھی ضروری سمجھتے تھے، مدارس اسلامیہ کے تعلیمی انحطاط پر ا ن کی آنکھیں خون کے آنسو روتی تھیں۔ وہ مدارس میں معیاری تعلیم پر زور دیتے تھے اورجہاں کہیں یہ جوہر نظر آتا، تو اس کی بے پناہ حوصلہ افزائی فرماتے اور اسے ملت کا قیمتی سرمایہ اوراثاثہ فرماتے، اپنی مجلسوں میں اس کاتذکرہ کرتے بلکہ بعض ان لوگوں کو جو ان کاموں سے منسلک ہوتے اسے وہاں بھیجتے کہ جاکر دیکھیں کہ کام کیسے ہوتا ہے؟ سلیقہ سے کس طرح کیاجاتا ہے؟ پھرجو طلبہ مدارس سے پڑھ کر نکلتے اگر وہ ان سے مشورہ چاہتا تو اس کی بھر پور رہنمائی کرتے اس کے ذوق و وجدان، نفسیات واحساسات کو اندر تک کھنگالتے اورپھراسے تخصص کے شعبوں میں مزید تعلیم حاصل کرنے یا درس وتدریس میں لگ جانے کا مشورہ دیتے۔ بعدمیں انھوں نے خو د بھی المعہد العالی کی بنیاد ڈالی جو تدریب افتاء وقضاء کا پورے ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، اس کام کا احساس اب بہتوں کو ہے اور کئی ادارے وجود میں آگئے ہیں وہ سب اصلاً قاضی صاحبؒ کی اسی سوچ کا مظہر ہیں۔ ( یہ بھی پڑھیں ڈپٹی نذیر احمدکے تعلیمی افکار و نظریات – ڈاکٹر شاداب تبسم )
عصری علوم کی اپنی اہمیت وافادیت کے باوجودوہ آج کے دانشوروں کی طرح مدارس میں سارے علوم عصریہ کے پڑھانے کے سخت مخالف تھے، وہ مولانا مناظراحسن گیلانی کی طرح علم کی اکائی کے بھی قائل نہیں تھے، وہ بجا طور پریہ سمجھتے تھے کہ اگر مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کو پورے طورپر داخل کردیاجائے گا تو مدارس کی روح نکل جائے گی۔ مدارس اسلامیہ اصلاً مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے ہیں، اور ان کو اسی کے لیے خاص رکھنا چاہئے۔ اس معاملہ میں ہندوستان میں جو تین تجربے ماضی میں کیے گئے اس کی ناکامی کا وہ خاص طورپر تذکرہ کرتے اور فرماتے کہ اگر میڈیکل کالج سے انجینئر نہیں بنایا جاسکتا تو آخر ان مدارس سے ہی کیوں چاہا جارہا ہے کہ وہ سب کچھ بن کر نکلیں ، وہ فرماتے تھے کہ ایسے ادارہ سے کچھ بھی بن کر کوئی نکلے ماہرعالم نہیں ہوسکتا۔ البتہ وہ بقدر ضرورت انگریزی ، ہندی اور حساب کی شمولیت کو پسند کرتے وہ بھی ابتدائی درجات میں، امارت شرعیہ کے دارالعلوم الاسلامیہ کے نصاب کو دیکھیں تواس کا پرتو صاف نظر آئے گا۔اب جب کہ دونوں علوم کے لوگ الگ الگ ہوگئے تو کام کی کیا شکل ہو، حضرت قاضی صاحبؒ فرماتے تھے کہ ٹیم ورک کیا جائے گا۔ عصری علوم کے ماہرین متخصصین سے صورت مسئلہ جانا جائے اور اس کا شرعی انطباق علماء کرام قرآن واحادیث کی روشنی میں کریں۔ اس طرح کام بہتر اور اچھے انداز میں ہوگا اور علماء ودانشوروں کی دوریاں بھی کم ہوں گی۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے کام کا جو منہج آپ نے تیار کیا وہ اسی اصول پرمبنی ہے اور کامیاب ہے۔
مختصر یہ کہ حضرت قاضی صاحبؒ کے جو تعلیمی نظریات تھے، وہ ہمہ جہت لیکن وہ ایک کو دوسرے سے خلط ملط نہیں کرتے تھے اور ان کے مدارج پر بھی نظر رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے نظریات کوعملی رنگ وروپ دیا، اورجو ادارے انھوں نے قائم کیے وہ آج بھی بہت مفید خدمات انجام دے ہیں۔

Leave a Comment