مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
کلیم اللہ کلیم ؔدوست پوری(ولادت2جولائی1947ء) بن عبدالحلیم (م9مارچ2009ء) بن شیخ محمد ابراہیم، آبائی وطن موضع دوست پور، تھانہ کھجولی ، ضلع مدھوبنی، حال مقیم شاہ ارزاں کالونی، سلطان گنج پٹنہ بہار، سے میری شخصی و ذاتی واقفیت کم ہے۔ پٹنہ کے اپنے بائیس سالہ قیام میں صرف ایک بار اتفاقیہ قومی تنظیم کے دفتر میں ملاقات ہوگئی تھی۔ اتفاقیہ اس لیے کہ میں اردو میڈیا فورم کی میٹنگ میں بحیثیت صدر وہاں حاضر ہوا تھا۔ جناب اشرف فرید مدیر قومی تنظیم اردو میڈیا فورم کے سرپرست ہیں اور میٹنگ کے لیے ان کے دفتر کا انتخاب کیا گیاتھا، میٹنگ کے اختتام کے وقت کلیم دوست پوری بھی ایک میٹنگ اور مشورہ کے لیے وہاں پہنچے تھے، اب مجھے یاد نہیں کہ وہ تنہا تھے یا ان کے ساتھ ان کے احباب بھی تھے؛ البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ ان کی میٹنگ اردو ادب ایوارڈ کمیٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے پروگرام کے سلسلے میں تھی، ظاہر ہے اس میٹنگ میں میری حیثیت اجنبی کی تھی، نہ انہوں نے مجھ سے متعارف ہونا چاہا اور نہ ہی میں نے اس کی ضرورت محسوس کی، میرے مشورہ کی بھی انہیں کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لئے عُمی (اندھا)تو نہیں البتہ صم،بکم(گونگا،بہرہ) بنا رہا، وہ جو کلیم عاجز ؔنے کہا ہے کہ ”اس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں“معاملہ ایسا ہی تھا،ایسی مجلسیں جس میں کسی مولوی کو بالکل خاموش رہنا پڑے، اس سے بہتر اس مجلس سے نکل جانا ہوتا ہے، سو میں نے بھی ایسا ہی کیا، سامنے رہ کر بھی، جس کو ملاقات کہتے ہیں وہ تو نہیں ہوسکی؛ البتہ دید و شنید کے مراحل طے ہوئے۔
یہ تفصیل اس لئے بتانی پڑی کہ قاری اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ میری کلیم اللہ کلیمؔ دوست پوری سے کوئی قربت رہی ہے، ان کو میں نے قربت، تعلق اور ملاقات کے حوالہ سے نہ تو جانا ہے اور نہ ہی پہنچانا، میری ساری شناسائی ان کی ادبی خدمات، شاعری، ادب دوستی، تبلیغی کاموں سے دلچسپی، ملازمت میں ان کی ایمانداری، شفافیت، ان کی ضیافت، مالی قربانی، سخاوت بھرے مزاج کے بارے میں اخبارات میں شائع شدہ خبریں، چند اہل علم کے مضامین اور ان کے وہ اشعار ہیں جو جناب ڈاکٹر اے۔کے۔ علوی نے مجھ تک پہنچائے، اگر جناب اے۔کے۔علوی نے یہ کرم فرمائی نہ کی ہوتی تو میرے لیے کلیم دوست پوری پر کچھ لکھنا مشکل تھا؛کیوں کہ کلیم اللہ دوست پوری کی جانب سے منعقد کسی بھی تقریب میں اب تک میری شرکت نہیں ہو سکی ہے، ان کے پروگراموں میں مولویوں کی باریابی اور دوست پوری کی نوازشات سے یہ طبقہ اب تک محروم ہی رہا ہے۔
کلیم عاجز اور کلیم اللہ دوست پوری میں جو مماثلت ہے، وہ یہ کہ کلیم عاجز بھی تبلیغی جماعت سے منسلک تھے اور مثالی شاعری کرتے تھے، کلیم اللہ کلیمؔ دوست پوری بھی تبلیغی ہیں اور شاعری کرتے ہیں، کلیم اللہ دوست پوری تبلیغی جماعت کے سربراہ نہیں ہیں اور کلیم عاجز کی شاعری سے ان کی شاعری کی مماثلت کسی درجہ میں نہیں ہے، یہ مشابہت بس لفظی ہے، وجہ شبہ میں ہلکی سی مناسبت کافی ہوتی ہے، یہ مناسبت جسمانی بھی ضروری نہیں ہے، ظاہرہے خالد شیر کی طرح ہے کا مطلب اس کی جسمانی ساخت نہیں ہوتی، مراد جرأت و بہادری ہوتی ہے اور اس کا چھوٹا عنصر بھی تشابہہ کے لیے کافی ہوتا ہے، کلیم دوست پوری کے تبلیغی اور شاعرانہ جو ڑ کواسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
کلیم اللہ دوست پوری کی ذہنی اٹھان مذہبی ہے، تبلیغی جماعت کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی دوروں نے ان کے مزاج کو صیقل کیا ہے، چہرے پر گھنی ڈاڑھی ان کے مذہبی رجحان کی غماز ہے، وہ کسی بھی تقریب میں اذان کے بعد نماز کی ادائیگی کو ترجیح دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اذان کے بعد سارے گھروں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، صرف ایک گھر کا دروازہ کھلا رہتا ہے اور وہ ہے اللہ کا گھر”مسجد“ جب نماز اور مسجد کی اہمیت اس قدر ذہن ودماغ میں ہو تو ایسے شخص کو اللہ اپنے گھر کی خدمت کے لئے بھی منتخب کر لیتا ہے، کلیم دوست پوری کو اللہ نے اپنے گھر کی خدمت کے لیے چنا،پندرہ برسوں تک وہ جامن گلی مسجد سبزی باغ اور دس برس جامع مسجد مکھنیاں کنواں پٹنہ کی خدمت بحیثیت سکریٹری کرتے رہے،2008ء میں شاہ ارزاں کالونی پٹنہ میں ان کی جدو جہد اور اہل خیر کے تعاون سے ایک مسجد کی بھی تعمیر ہوئی، حدیث میں آیا ہے کہ جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے،اس طرح دیکھا جائے تو اس مسجد کی تعمیر کے ذریعہ انہوں نے اپنے لیے جنت میں گھر بنوانے کا کام کیا ہے، صادق الامین علیہ السلام کے ہر قول پر ہمارا ایمان ہے اور اس کا تقاضہ ہے کہ شاہ ارزاں کالونی کی مسجد کی تعمیر کے بدلے ہم جنت میں ان کے لیے گھر کی تعمیر کو تسلیم کریں۔
کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، یہ عورت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی میں سے کوئی ہو سکتی ہے، کلیم اللہ دوست پوری کی کامیابی میں ان کی اہلیہ ثریا خاتون بنت حافظ محمد اسماعیل ساکن ململ مدھوبنی کا بھی بڑا ہاتھ ہے، بیوی سے توافق ذہنی نہ ہو تو انسان گھر کے اندر و باہر ٹینشن میں رہتا ہے، ٹینشن کے ساتھ نہ تو تعمیری فکر پروان چڑھ سکتی ہے اور نہ ہی دینی، ملی، سماجی کاموں میں صحت مندانہ شرکت ممکن ہے۔
کئی مضمون نگارنے کلیم دوست پوری کی ضیافت کا بھی ذکر کیا ہے، گو مجھے کبھی اس کا موقع نہیں ملا، یہ شہادت بھی سنی سنائی ہے؛لیکن حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے، اس کام میں اگر بیوی ساتھ نہ دے تو مہمان نوازی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا، اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ معاملہ ضیافت کا ہو یا دینی کام کا، اہلیہ نے انہیں سکون کا ماحول فراہم کیا، گھر کو”ٹینشن فری ژون “ بنایا اور کلیم دوست پوری کے لیے دینی، ملی، سماجی اور ادبی کاموں میں آگے بڑھنا ممکن ہو سکا۔
چرچے کلیم دوست پوری کی سخاوت کے بھی عام ہیں، وہ ادبی ایوارڈ تقریب میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں، ادباء و شعراء کو نقد سے نوازتے ہیں، اس کے لیے وہ چندہ اکٹھا نہیں کرتے، اپنی جیب خاص سے خرچ کرتے ہیں، دوسرے لوگ (میرے علاوہ)جو تقریب منعقد کرتے ہیں وہ بھی ان کی اس صفت خاص سے فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ دوسروں سے خرچ کرانے کے بجائے اپنی رقم خرچ کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں، چاہے معاملہ تقریب کا ہو یا چائے ناشتہ کا، ان کا ہاتھ فوراً اپنی جیب کی طرف چلا جاتا ہے، اس دور میں جب بیشتر کانفرنس، سمینار، سمپوزیم، مذاکرات علمی کا انعقاد کرنے والے دوسرے کی جیب کاٹنے میں لگے رہتے ہیں، پٹنہ میں کلیم دوست پوری اور اکبر رضا جمشید اپنا خرچ کرنے پر یقین رکھتے ہیں، اللہ نے نوازا ہے اور اللہ کی نوازش ان دونوں سے ملنے پر مجسم ہوجاتی ہے، وہ غربا یتامیٰ اور مساکین کے بھی کام آتے ہیں۔
کلیم دوست پوری کی زندگی سلیقے کے ساتھ گذری ہے، دور ملازمت کا رہا ہو یا سبکدوشی کے بعد کا، معاملہ لباس کا ہو یا وضع قطع کا، سب میں ان کی سلیقگی جھلکتی ہے،ادب سلیقہ سے چیزوں کے پیش کرنے کا بھی نام ہے، اسی لیے دسترخوان کو عربی میں مادبۃ کہتے ہیں جس پر خورد ونوش کے سامان سلیقے سے رکھے جاتے ہیں، جو شخص ظاہری وضع قطع میں سلیقہ برتتا ہے، اس کے اندر عموماً خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کا بھی سلیقہ آجاتا ہے؛ چنانچہ کلیم دوست پوری کو اللہ رب العزت نے یہ سلیقہ بھی عطا کیا ہے، جسے انہوں نے شاعری کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے جسے گلدستہ کلیم (مطبوعہ2017ء) اور سخنہائے کلیم (مطبوعہ2021ء) میں دیکھا جاسکتا ہے۔
کلیم دوست پوری نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے،انہوں نے غزل اور موضوعاتی نظمیں بھی لکھی ہیں،ان کے یہاں داغ اسکول کی طرح کاکل و گیسو،گل و رخسار اور ہجر وفراق کا ذکر کثرت سے نہیں ملتا،آج کی شاعری میں جو حقیقت پسندی پائی جاتی ہے اس کوکلیم دوست پوری نے اپنی شاعری میں برتا ہے وہ مانتے ہیں کہ ”یہ دور اشارات و کنایات نہیں ہے“ اس لئے بات کھل کر کی جانی چاہئیے۔
اس طرح دیکھیں تو کلیم دوست پوری کی شاعری میں کھلا پن ہے، کھلے پن کا ترجمہ برہنگی مت کر لیجئے گا، کھلے پن سے مراد ایسے خیالات ہیں جسے الفاظ کے سانچے میں ڈھلنے کے بعد مفہوم تک پہنچنے کے لیے ذہنی جمنااسٹک نہیں کرنی ہوتی، آپ کہہ سکتے ہیں کہ کلیم دوست پوری کی شاعری میں تخیل کی رفعت اس قدر نہیں ہے کہ اس کے ڈانڈے فلسفیانہ ژولیدگی سے مل گئے ہوں اور نتائج اخذ کرنے کے لیے قضایا ترتیب دینے اور حد فاصل نکالنے کی ضرورت ہو،البتہ کلیم دوست پوری کی شعری کائنات میں فکر کی صلابت بدرجہ اتم موجود ہے؛ البتہ کہیں اور کبھی کسی شعر میں ردیف و قافیہ کے سیم تنی اور بحر و اوزان کے تاروں پر بل پڑ گیا ہو تو دوسری بات ہے،ان کی شاعری میں فنی بحثوں کی گنجائش ہے؛لیکن ان کی فکر پر آپ انگلی نہیں اٹھا سکتے۔
کلیم دوست پوری کے بہت سارے اشعار سہل ممتنع کا نادر نمونہ ہیں، مندرجہ ذیل شعر دیکھئے ؎
جس زباں پہ ذکر خدا نہ ہو وہ زباں زباں نہیں ہے
ذرا سر جھکا کے دیکھو وہ کہاں کہاں نہیں ہے
نظر کرم جو پہلے تھی عالی جناب کی
اب آپ کی وہ چشم عنایت نہیں رہی
کیسی کیسی ہستیاں تھیں مل گئیں سب خاک میں
کل جہاں آبادیاں تھیں آج ہیں ویرانیاں
کلیم دوست پوری دوسروں سے خیال مستعار نہیں لیتے۔ وہ ا پنے خیالات کو اپنے انداز میں پیش کرتے ہیں، عشق کا لفظ ہماری اردو شاعری میں زیادہ استعمال ہوتا رہاہے؛بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ لفظ ہمارے عہد میں سوقیانہ ہو گیا ہے،عربی زبان میں پہلے بھی یہ لفظ پاکیزہ نہیں سمجھا جاتا تھا، اسی لیے عربی شاعری میں تو یہ لفظ ملتا ہے؛لیکن قرآن و احادیث میں اس کا استعمال نہیں ہوا ہے،شعراء نے اس کے اثرات کو اپنے اپنے ڈھنگ سے باندھا ہے۔ غالبؔ کہتے ہیں
عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
کلیم دوست پوری نے بھی عشق کی کارستانیوں اور نقصانات کا ذکر کیا ہے، اس نے ان کو رسوا بھی کیا اور بے قرار بھی، دل کا خسارہ اس پر مستزاد، کہتے ہیں ؎
عشق نے آخر مجھ کو رسوا کر دیا یہ دل کا سودا تھا خسارے میں رہا
بے وفائی بے رخی دیکھی نہیں ایسی آبرو جاتی رہی دل مرا روتا رہا
لیکن اس عشق کو عاشق صادق مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی ؒنے غالب کے شعر میں صرف دو لفظ کو بدل دیا تو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، غالب کے شعر کو ذہن میں رکھیے اور مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھیؒ کی اس ترمیم کو دیکھئے ؎
عشق نے احمد ”مجلی“ کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے ”نام“ کے
آپ سوچ سکتے ہیں، عشق کے فرسودہ لفظ کو اس ترمیم نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔
میں نے اب تک کلیم دوست پوری کی عمومی شاعری کا تجزیہ کیا ہے، جہاں تک ان کی غزلیہ شاعری ہے،اس میں انہوں نے رومانی تخیل پیش کیا ہے، غزل محبوب و محبوبہ سے بات کرنے کا ہی نام ہے، اس لیے کسی بھی شاعر کی غزلیہ شاعری اس سے خالی نہیں ہوتی، کلیم دوست پوری کے یہاں بھی ایسا ہے؛لیکن کم کم سا ہے،وہ جو غالب نے کہا ہے نا
ع بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر
وہی حال کلیم دوست پوری کی غزلیہ شاعری کا ہے، کلیم دوست پوری کی غزلوں کے چند اشعار دیکھیں ؎
تجھے کیا بتاؤں میں حال دل، کیا کشش ہے تیرے جمال میں
تُو حسین و جمیل ہے اس قدر کسے لاؤں تیری مثال میں
تُو ہے شادماں، میں ہوں غمزدہ تجھے فکر کیوں ہو کلیم کا
میری داستان الم ہے یہ کٹی عمر رنج و ملال میں
کلیم شاعر ہیں،اچھے نثر نگار ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی مذہبی حس ہر وقت بیدار رہتی ہے، وہ شاعری کی ایسی مجلس کو دور سے سلام کرنا پسند کرتے ہیں، جہاں رنگ محفل غلط رخ پر جم گیاہو، ایسے میں وہ مصلی بچھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
رنگ محفل ہو جہاں تو شاعری کو چھوڑ کر
وقت اذاں آجایئے مصلی بچھاتے جایئے
کلیم کو احساس ہے کہ اب ان پر ضعیفی مسلط ہوگئی ہے اس لیے انہیں عمر رفتہ کا گلہ نہیں کرنا چاہیے ؎
گلہ کیوں ہے کلیم تم کو اپنی عمر رفتہ سے
ضعیفی میں تو ہر ایک کو نقاہت ہو ہی جاتی ہے
کلیم دوست پوری شاعری سے مالی منفعت کا حصول نہیں چاہتے، شاعری سے ان کو کیا ملتا ہے اس کے بارے میں ان کے ہی ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں، لکھتے ہیں:
”یہ کیا کم ہے کہ (شاعری)زندگی میں فرحت و تازگی عطا کرتی ہے، روح کو بیدار کرتی ہے، مردہ دلوں کو زندہ کرتی ہے، سوتے ہوئے احساس کو جگاتی ہے، حوصلہ بڑھاتی ہے اور بلندی عطا کرتی ہے، دلوں میں جوش و خروش پیدا کرتی ہے،اصول و ضوابط کے مطابق زندگی گذارنے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہے۔“
کلیم دوست پوری اپنی شخصیت اور شاعری کے سہارے لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں،میں ان کے لئے درازئ عمر کی دعا کرتا ہوں؛ لیکن جب وہ دنیا سے چلے جائیں گے تو اپنی تحریروں اور فن پاروں میں زندہ رہیں گے۔