ام سلمہ
پندرہ اگست وہ دن ہے جب سورج نے ایک آزاد ہندوستان کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ بکھیری۔ یہ وہ دن ہے جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، اور کروڑوں ہندستانیوں نے آزادی کی فضا میں پہلی سانس لی۔ 15 اگست 1947 صرف ایک تاریخ نہیں، بلکہ ہزاروں قربانیوں، بے شمار آہوں، اور نہ ختم ہونے والے خوابوں کی تعبیر ہے۔
ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں تک غیر ملکیوں نے راج کیا۔ 1857 کی پہلی جنگِ آزادی سے لے کر 1947 تک، ہر گوشۂ وطن سے “آزادی” کی پکار سنائی دیتی رہی۔ مہاتما گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک، سبھاش چندر بوس کا انقلابی جوش، بھگت سنگھ، راج گرو اور اشفاق اللہ خان کی قربانیاں، اور بے شمار گمنام مجاہدین کا لہو، سب نے مل کر ایک عظیم تاریخ رقم کی۔
15 اگست کے دن ملک بھر میں جوش و خروش ہوتا ہے۔ صبح ہوتے ہی اسکولوں، دفاتر اور گلی محلّوں میں ترنگا لہرایا جاتا ہے۔ لال قلعے سے وزیرِ اعظم قوم سے خطاب کرتے ہیں، اور قومی ترانہ فضاؤں میں گونج اٹھتا ہے۔ ہر دل میں ایک ہی نعرہ ہوتا ہے۔
یہ آزادی محض جشن منانے کا موقع نہیں، بلکہ ایک عہد ہے۔ ایک وعدہ کہ ہم اپنے وطن کو ترقی، انصاف، تعلیم، اور بھائی چارے کی راہ پر آگے بڑھائیں گے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی کا مطلب صرف بولنے کا حق نہیں، بلکہ سچ بولنے کی جرأت بھی ہے۔
یومِ آزادی ہمیں اپنے ماضی کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے اور مستقبل کے لیے حوصلہ اور امید بخشتا ہے۔ آئیں، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی سرزمین کو علم، امن اور انصاف کا گہوارہ بنائیں گے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں فخر سے کہیں۔