مفتی محمد مرتضی حسن قاسمی
معراج کا واقعہ امت کے لئے انتہائی عظیم الشان اور تعجب خیز واقعہ ہے، ایسا واقعہ نہ کبھی اس سے قبل ہوا تھا اور نہ اس کے بعد قیامت تک ہوگا۔ اور یہ ایسا معجزہ ہے جو تمام انسانیت کے لئے درس عبرت اور چشم کشا ہے، جملہ انبیاء کرام اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معجزے دئے گئے تھے ان میں یہ معجزہ سید المعجزات کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اس معجزہ میں کلام الہی بھی ہے اور دیدار الہی بھی، قرب الٰہی بھی، حکم ربانی بھی، پیام انسانی بھی اور قدرت کی نیرنگی بھی ہے، اور یہ معجزہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص رکھا گیا، اور اس معجزہ سے انبیاء میں امتیازیت آپ کو حاصل رہی۔
الغرض حضرت جبرئیل علیہ السلام بحکم رب العالمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر چلے، اولاً سینے مبارک چاک کیا آب زمزم سے قلب مبارک کو دھویا۔ اور اندر روحانی گوشوں کو صاف ہوکر حکمت و معرفت سے لبریز کی، پھر برّاق پر سوار ہو کر مسجد اقصیٰ تشریف لائے، مسجد اقصیٰ میں پہلے سے ہی تمام انبیاء و رسل تشریف فرما تھے، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اذان کہی، اذان کی آواز سن کر ساتوں آسمان کے فرشتے نیچے اتر کر صف بصف ہوگئے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اقامت کہی، تمام انبیاء صفوں میں کھڑے ہوگئے، مگر مصلی خالی تھا، ہر ایک نبی کو تمنا تھی کہ امامت کا شرف مجھے ملتا مگر حضرت جبرئیل صف سے باہر ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا، ائے امام الاولین والآخرین، میں نے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا سفر کیا، مگر آپ سے افضل کسی کو نہ پایا، آپ کس کا انتظار فرما رہے ہیں آپ مصلہ پر تشریف لے چلیں اور امامت فرمائیں۔
چنانچہ امام الانبیاء مصلی پر تشریف لا کر دو رکعت نماز پڑھائی، سلام کے بعد حضرت جبرئیل نے کہا اے اللہ کے نبی کیا معلوم ہیں آپ کو کہ آپ کے پیچھے کن لوگوں نے نماز پڑھیں. آپ نے فرمایا کہ نہیں، حضرت جبریل نے فرمایا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسول اور ساتوں آسمان کے فرشتے نے نماز ادا کیں، نماز کے بعد انبیاء کرام علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حلقہ میں لے کر بیٹھ گئے، اور متعدد انبیائے کرام علیہ السلام کی تعارفی تقریر ہوئیں۔
(1) چنانچہ سب سے پہلے سیدنا ابراھیم علیہ سلام کھڑے ہوئے اور اپنا تعارف اس طرح پیش کیا!
تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے اپنا بڑا ملک عطا کیا۔ مجھے اپنا مطیع فرما بردار بنایا اور مجھے لوگوں کا پیشوا بنایا۔ تاکہ لوگ میری اقتداکریں۔ نمرود کی آگ سے نجات بخشی اور اس آگ کو میرے لئے ایسا ٹھنڈ کردیا جس میں پوری طرح خیریت وعافیت رہی۔
(2) حضرت موسی علیہ السلام کی باری آئی وہ کھڑے ہوئے اور مجمع انبیاء کے سامنے تعارفی تقریر
اس طرح فرمائی
الحمدللہ الذی کلمنی تکلیما وجعل ھلاک ال فرعون ونجاۃ بنی اسرائیل علی یدی وجعل من امتی قوما یہدون بالحق وبہ یعدلون”
تمام تعریف اس خدا کے لئے ہیں جسنے مجھے شرف کلام بخشہ اور مجھے کلیم اللہ کا خطاب دیا. اور آل فرعون کو دریا غرق کیا۔ اور بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں فرعون سے نجات بخشا۔ اور میری امت کو ہدایت یافتہ بنایا. جو حق کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے۔
(3) پھر سیدنا حضرت داؤد علیہ السلام ممبر پر تشریف لائے اور تعارفی کلمات اس طرح فصاحت و بلاغت کے ساتھ پیش کیا۔
” الحمدللہ الذی جعل لی ملکا عظیما وعلمنی زبور والان حدیدا وسخرلی الجبال یسبحن والطیر اعطانی الحکمۃ وفصل الخطاب”
تمام محامد ومحاسن اس پروردگار عالم کے لائق ہیں جس نے داؤد کو ایک ملک عظیم سے نوازا اور یہ ہی نہیں بلکہ زبور کتاب کے علم سے آشنا فرمایا، اور یہ آسمانی کتاب مجھ پر نازل فرما کر مزید احسان عظیم فرمایا. اور معجزہ کے طور سے لوہے کو میرے ہاتھ میں میں موم کر دیا. اور جب رب کائنات کی میں تسبیح بیان کرتا تو پہاڑ اور پرندے بھی میرے ساتھ ساتھ تسبیح بیان کرتے. اور مجھ کو حکمت و دانائی اور زبان کی فصاحت و بلاغت کی غیر معمولی قوت عطا کی۔
(4) آپ کے بعد بعد آپ کے فرزند بڑے ہی جاہ وجلال والے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام تشریف لائے. بڑے ہی فخریہ انداز میں اپنا تعارف اسطرح پیش کیا۔
الحمدللہ الذی سخرلی اجنۃ یعملون لی ماشئت من محاریب وتماثیل وجفان کالجواب وقدور راسیات وعلمنی منطق الطیر واتانی من کلی شیئ وفضلا وسخرلی جنود والشیاطین والانس والطیر وفضلنی علی کثیر من عبادہ المؤمنین واتانی ملکا عظیم لاینبغی لاحد من بعدی وجعل ملکا طیبا لیس فیہ حساب”:
تمام تعریف اس خدا ہے وحدہ وقدوس کی ہیں. جس نے ہوا کو میرے لئے مسخر کر دیا، اور شیاطین کو میرے تابع کر دیا جو کام میں چاہتا تھا ان سے لے لیتا. یعنی عالیشان عمارتیں بنواتا. مجسمہ اور تصاویر بنواتا. بڑے بڑے دیگیں غیر معمولی مضبوط اور مستحکم بنواتا. اور پرندوں کی بولیوں کا علم اللہ نے مجھے دیا اور اپنے فضل سے ہر قسم کی چیزیں عطا فرمائیں. اور مزید خدا کا فضل یہ رہا کہ میرے واسطے شیطانوں. انسانوں. اور پندوں کو مسخر کردیا گیا اور مجھے بہت سے مومنین پر فضیلت عطا فرمائی اور اس خدا کی بے حد تعریفیں ہیں کہ جس نے مجھے ایسی عظیم الشان سلطنت مرحمت فرمائی کہ میرے بعد ایسی سلطنت کسی کو نہیں دی گئی. مزید یہ کہ ایسی پاکیزہ سلطنت دی گئی کہ اس بابت مجھ سے کوئی حساب وکتاب نہ ہوگا۔
(5)پھر انبیاء بنی اسرائیل کے آخری تاجدار صاحب کتاب نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام بڑے ہی متمکنانہ انداز میں تشریف لائے اور اپنا تعارف اسطرح پیش فرمایا:
الحمدللہ الذی جعلنی کلمتہ وجعل مثلی کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون وعلمنی الکتاب والحکمت وتوراۃ والانجیل وجعلنی اخلق من الطین کہیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ وجعلنی ابرہ الاکمہ والبرص واحی الموتی باذن اللہ ورفعنی وطہرنی واعاذنی وامی من الشیطان الرجیم فلم یکن للشیطان علینا سبیل”
تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے مجھے اپنے حکم سے پیدا فرمایا. اور کلمۃ اللہ بنایا اور مجھے حضرت آدم کے مثل قرار دیا کہ بغیر باپ کے پیدا فرمایا، اور مجھے تورات و انجیل کے علم سے سرفراز فرمایا، کتاب وحکمت سے نوازا اور مجھے معجزہ دیا گیا کہ مٹی سے پرندہ کی شکل بناتا اور پھونک مارتا تو وہ حقیقت میں پرندہ ہو جاتا، اور اللہ کے حکم سے مادر زاد اندھوں کو صحیح کر دیتا، اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتا، اللہ نے مجھے اٹھایا مجھے پاک وصاف کیا اور مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے محفوظ رکھا، اور شیطان کا میرے اوپر کسی قسم کا تسلط نہ تھا۔
(6) پھر آخر میں امام الانبیاء و المرسلین، شفیع المذنبین؟ رحمت اللعالمین، صاحب معراج، محبوب ذوالجلال، مسند آراء ہوئے، اور اپنا تعارف فصیحانہ انداز میں اس طرح پیش فرمایا: “فقال کلکم اثنی علی ربہ وانی لمثنی علی ربی فقال الحمدللہ الذی ارسلنی رحمۃ للعالمین وکافۃ للناس وجعل امتی وسطا وجعل امتی ھم الولون وھم الاخرون وشرحلی صدری ووضع عنی وزری ورفعلی ذکری وجعلنی فاتحا وخاتما”
تمام حضرات نے رب کائنات کی تعریف پیش کیں. اب میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں یقینا ساری تعریفیں اس اللہ وحدہ قدوس کی ہیں جس نے مجھے رحمۃللعالمین بنایا، اور تمام لوگوں کے لئے لیے بشیرد ونذیر بنایا۔ مزید یہ ہے کہ قرآن کریم جیسی کتاب مجھ پر نازل فرمائی، جس میں ہر چیز کا بیان وارد ہےاور میری امت کو خیر امت بنایا؟ جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی اور میری امت کو معتدل امت قرار دیا اس کو اولین و آخرین کا درجہ دیا گیا، اور لائق حمد وہی خدا ہے جس نے میرے سینے کو کھول دیا، اور میری بوجھ کو ہلکا کر دیا، میرا شہرا کو بلند کیا اور مجھے فاتح خاتم دونوں بنایا۔
تعارفی جلسہ ختم ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید فرمائی۔ فرمایا کہ ان ہی وجود کی بنا پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب پر افضل ہیں، پھر آپ براق پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل و میکائیل کے ہمراہ اللہ تعالی سے ملنے تشریف لے گئے۔
رابطہ:8271543546