شادیوں میں بارات کا رواج کب سے شروع ہوا؟یعنی پورے خاندان، برادری اور دوست احباب کا ایک جم غفیر اور انبوہ کثیر کو لے کر لڑکی والوں کے گھر جانا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ عہد رسالت وعہد صحابہ وتابعین یعنی دور خیر القرون میں اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ صرف گھر کے چند افراد جاتے اور خاموشی اور سادگی کے ساتھ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر نکاح پڑھ کے لڑکی کو اپنے ہمراہ لے آتے۔ شرعاً نکاح میں اعلان ضروری ہے اور یہ اعلان طرفین کے گھر والوں کے سامنے ہو جاتا تھااور ولیمے میں مزید لوگوں کے علم میں آجاتا ۔ اب جو بارات کا عام رواج ہے جس کے بغیر شادی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اس کے بے شمار نقصانات ہیں۔ چند بڑے نقصانات:سارے دوست احباب اور خاندان اور برادری کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جمع کرنا، اسراف (فضول خرچی) ہے۔پہلے خود لڑکے والوں کو تمام مہمانوں کے بیٹھنے اور خاطر تواضع کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ قریبی رشتے داروں کیلئے تو انتظام کئی کئی دن کے لیے کرناپڑتا ہے۔ پھر ان سب کو ساتھ لانے اور لے جانے کے لیے بسوں اور گاڑیوں کا انتظام اس پرمستزاد۔ اس سے بھی پہلے شادی کارڈوں کی اشاعت کا مسئلہ آتا ہے جو پہلے تو سادہ سے کارڈ چھپوا کر اطلاع کا اہتمام کرلیا جاتا تھا۔
اب اس میں بھی پیسے والوں نے بڑی جدتیں اختیار کر لی ہیں اور اتنے اتنے گراں کارڈ چھپنے لگے ہیں کہ ان کو دیکھ کر اس قوم کی فضول خرچی پر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ علاوہ ازیں زیادہ قریبی رشتے دار(بہنیں، بیٹیاں اور ان کی اولاد ) تو کئی کئی دن پہلے آ کر شادی والے گھرمیں ڈیرے ڈال لیتی ہیں اور مختلف رسموں (مایوں، مہندی وغیرہ) کے علاوہ کئی کئی راتیں مسلسل ڈھولکیاں بجاتیں اور اہل محلہ کی نیندیں خراب کرتی ہیں۔ پھر نکاح والے دن بقیہ خاندان اور احباب وغیرہ جمع ہو کر ایک لاؤ لشکر کی صورت میں لڑکی والوں کے گھر جاتے ہیں جس کی ضیافت اورٹھہراؤ کے لیے کسی شادی ہال یا کسی بڑیمکان کا انتظام لڑکی والوں کو کرنا پڑتا ہے۔اس طرح انکو ایک بڑا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جنکیپاس و سائل کی فراوانی ہوتی ہے ان کے لیے تو یہ بو جھ کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن جن کے پاس زیادہ وسائل نہیں ہوتے ان کو بھی خواہی نخواہی ہی سب کچھ کرنا پڑتا ہے چاہے وہ زیر بار ہوجائیں اور اس بوجھ کے اتارنے میں وہ سالہا سال پریشان ر ہیں ۔ شریعت کی دھجیاں اُڑانا:جب لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور اللہ سے بے خوفی کے نتیجے میں یہ تصور بھی عام ہے کہ یہ خوشی کا موقع ہے اس وقت جو چاہیں کر لیں، اس کا جواز ہے۔ چنانچہ بڑی بڑی شیطانی حرکتیں کی جاتی ہیں اور باراتی ان سے خوب محظوظ ہوتے ہیں، اس طرح سب گناہ میں شریک ہوجا تے ہیں۔ بلکہ اکثر اوقات لڑکی والوں کی طرف سے بھی ان کا مطالبہ اور اصرار ہوتا ہے۔ یوں دونوں خاندان اور ان کے سارے عزیز و اقارب اجتماعی طور پر نہایت دھڑلے سے اللہ کی نافرمانیاں کرتے اور شریعت اسلامی کی دھجیاں اڑاتے ہیں جب کہ اسلامی تعلیم کی رو سے انفرادی گنا جو خفیہ اور چھپ کر کیا جائے، اگرچہ وہ بھی گناہ ہے لیکن اگر کوئی گناہ کا کام کھلم کھلا لوگوں کے سامنے کیا جائے، تو اس جرم کی شناعت و قباحت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ نرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’کل امتی معافی الا المجاہرین‘‘۔ترجمہ :’’میری امت کے سارے گناہ معاف ہوسکتے ہیں سوائے ان گناہ گاروں کے جو کھلم کھلا گناہ کا ارتکاب کرنے والے ہوں گے۔‘‘ ( صحیح بخاری : 6069 )
اس خبر کو بھی پڑھئےاجتماعی خرافات: اجتماعی طور پرکیے جانے والے یہ گناہ جو باراتیوں کے ہجوم میں اور ان کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ حسب ذیل ہیں بینڈ باجوں کا اہتمام جن کی شیطانی دھنوں سے لوگ محظوظ ہوتے ہیں حتیٰ کہ ان پر نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے جس کا نام ’’ویل دینا‘‘رکھا ہوا ہے۔آتش بازی ’’جو گھر پھونک، تماشہ دیکھ‘‘ کی مصداق ہے۔ ہزاروں روپے اس پر اڑادیے جاتے ہیں۔ ہوائی فائرنگ، جس کی زد میں آئے بعض باراتی یا اڑوس پڑوس کے لوگ آجاتے ہیں اور موت کا شکار ہوجا تے ہیں۔ بھنگڑا اور لڈیاں ڈالنا، اس کا رواج بھی بڑھتا جارہا ہے حتی کہ بعض باراتوں میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ خواتین بھی اس میں شریک ہوجاتی ہیں۔ پیسے لٹانا، پہلے تو ریزگاری کی شکل میں تھوڑی سی رقم ہی اس پر خرچ ہوتی تھی، اب یہ رسم نوٹوں تک پہنچ گئی ہے جس سے اس مد پر بھی ہزاروں روپے برباد کیے جاتے ہیں۔ قریبی رشتے دار اور دوست احباب دولہا کو نوٹوں والے اور دیگر انواع و اقسام کے ہاروں سے لا ددیتے ہیں جن کا بوجھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے، یہ بھی فضول خرچی ہی کی ایک مد ہے۔
بے حیائی کی انتہاء:یہ بارات جب لڑکی والوں کے ہاں (ہال یا گھر میں ) پہنچتی ہے تو نوجوان لڑکیاں اور یکسر بے پردہ عورتیں دونوں طرف ہاتھوں میں پھولوں کے تھال پکڑے ہوئے دولہا اور باراتیوں کا استقبال کرتی ہیں اور ان پر گل پاشی کرتی ہیں۔ یہ بھی بے پردگی کی ایک ایسی بے ہودہ رسم ہے جس کی توقع کسی مسلمان مردوعورت سے نہیں کی جاسکتی۔بارات کے ساتھ کرائے کے مووی فلم میکر ہوتے ہیں جوان ساری خرافات کو بھی اور ہال میں ہونے والی ساری کارروائی کو بھی نکاح کی تقریب سے لے کر دلہن کی رخصتی تک فلم بندی کرتے ہیں اور ایک ایک سین کو بالخصوص خواتین کے مختلف پوزوں کو اوردلہن کے ایک ایک پوز کو محفوظ کرتے ہیں اور بعد میں دونوں خاندانوں کے گھروں میں بے حیائی کے ان مظاہر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے۔بارات میں خواتین کا بھی ایک ریلا شریک ہوتا ہے جو سب سے بے پردہ، نہایت بھڑکیلے، زرق برق حتیٰ کہ عریاں اور نیم عریاں لباس میں ملبوس، نہایت بے ہودہ میک اپ اور سولہ سنگھار سے آراستہ اور زیورات میں لدی پھندی ہوتی ہیں۔ گویا وہ شادی کی ایک بابرکت تقریب میں نہیں بلکہ وہ مقابل حسن یا آرائش وزیبائش اور بے پردگی و بیحیائی کے مقابلے میں شریک ہونے کے لیے جاری ہیں۔ مخلوط اجتماع:اب بہت سی جگہوں پرمخلوط اجتماع بھی ہونے لگے ہیں لیکن مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ حصے نہیں ہوتے، کھانے کا الگ الگ انتظام نہیں ہوتا، بلکہ بغیر کسی تفریق اور پردے کے مرد اور عورت کے لیے ایک ہی ہال اور کھانے کی میز میں بھی مشترکہ۔ ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘آخر میں مراثیوں کا ایک غول آجاتا ہے جو الٹی سیدھی ہنسانے والی باتیں ہانک کر اور بڑکیں مارکر باراتیوں سے (ویلیں ) وصول کرتے ہیں۔ اور بعض جگہ اور بعض خاندانوں میں مجرے کا رواج ہے لیکن مخنث (ہیجڑے) نسوانی لباس اور نسوانی ناز و ادا اور ناچ گاکر باراتیوں کا دل لبھاتے ہیں اور ان سے خوب ویلیں وصول کرتے ہیں اور باراتی ان پربھی نوٹوں کی بارش برساتے ہیں۔
کھانے کی بربادی:کھانے کے موقعے پر بھی اکثر و بیشتر عجیب ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ کھانے پرلوگ اس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں، جیسے مویشیوں کو چارہ کھرلی میں ڈال کر چھوڑ دیا جا تا ہے اور وہ ’’اکلون کما تاکل الانعام* کے مصداق ہوتے ہیں یا جیسے بھوکے گدھ ہوتے ہیں یا جیسے ایسے وحشی اور گنوار قسم کی قوم کے افراد ہوں جن کو کبھی کھانا نصیب نہیں ہوا یا جن کا کوئی تعلق تہذیب و شائستگی سے نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ہر شخص اپنی اپنی پلیٹوں کو اس طرح بھر لیتا ہے کہ اکثر وہ اس سے کھایا ہی نہیں جاتا اور آدھی آدھی پلیٹیں بکھری ہوئی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ سارا کھانا کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس صورت حال کے پیش نظر میزبان ضرورت سے زیادہ وافر مقدار میں کھانا تیار کرواتا ہے اور یہ اندیشہ قطعاً نہیں ہوتا کہ کسی کو کھانا نہیں ملے گا۔بعض دفعہ کسی میز پر بیرے کو دوبارہ کھانا لانے میں ذرا دیر ہو جاتی ہے تو لوگ معمولی سا انتظار کرنے کے بجائے ہوٹنگ شروع کر دیتے ہیں۔ بداخلاقی اور تہذیب و شائستگی سے عاری یہ مظاہر اتنے عام ہیں کہ ہم ان تقریبات میں غیر مسلم اشخاص کو بلانے کی جسارت نہیں کر سکتے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے بارے میں کیا تاثر قائم کریں گے کہ یہ ایک مسلم قوم کے وارث ہیں جن کے اسلاف نے دنیا کو مکارم اخلاق اور تہذیب وشانگی کا درس دیا تھا اور جن کے پیغمبر بھی خلق عظیم کے مالک تھے اور اعلی اخلاق کی تعلیم ہی کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ جس کے بہترین نمونے ان کے پیروکاروں (صحابہ کرام و تابعین عظام) نے دنیا کے سامنے پیش کیے اور دنیائے انسانیت میں معلم اخلاق کے نام سے معروف ہوئے۔بداخلاقی اور بدتہذیبی: یہ تمام اعمال ایک تو سراسر اسراف تبذیر میں داخل ہے جن کے مرتکبین کو اللہ تبارک و تعالی نے اخوان الشیاطین (شیطانوں کے بھائی) قرار دیا ہے۔دوسرے قدم قدم پراللہ کی نافرمانی کا ارتکاب ہے۔تیسرے، ڈنکے کی چوٹ پر علانیہ بڑے بڑے گناہوں کی جسارت ہے جس کی کسی مسلمان سے توقع نہیں کی جاسکتی۔چوتھے، بد اخلاقی اور بدتہذیبی کے مظاہر ہیں جن کی توقع کسی بھی مہذب اور شائستہ قوم سے نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ اسلام کے ماننے والے ان کا ارتکاب کریں ؟تمام مذکورہ خرافات کے بعد آخر میں فوٹو سیشن ہوتا ہے جس میں مرد وعورت سب اسٹیج پر یا اور کسی نمایاں جگہ پر جمع ہوتے اور باری باری دولہا اور دلہن کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں۔ یہ سراسر بے پردہ اور مخلوط اجتماع ہوتا ہے۔
بارات کا سلسلہ ختم کریں:ان تمام مفاسد اور خرابیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ اور ایک ہی حل ہے کہ بارات کا سلسلہ ختم کیا جائے اور مختصر چند لوگ لڑکی والوں کے گھر جائیں لڑکی والے بھی اپنا پورا خاندان جمع کرنیکے بجائے چند ضروری افراد کی اس تقریب میں شریک کریں اور گھر کے ایک کمرے ہی میں نکاح کر کے حسب استطاعت مہمانوں کی ضیافت کر کے اپنی بیٹی کے ہمراہ ان کو رخصت کردیں۔ اس طرح اس تقریب کے لیے نہ شادی ہال کی بکنگ کی ضرورت ہوگی۔ نہ مہمانوں کے لیے درجنوں کے حساب سے دیگوں مختلف ڈشوں اور دیگر اشیائے طعام کی۔ نہ عورتوں کی بے پردگی و بیحیائی کا فتنہ اور نہ بینڈ باجوں، آتش بازی اور نہ مودی فلموں کی حیاسوز فتنہ انگیزی اور نہ دیگر بیشمار خرابیوں کا ظہور، جس کی تفصیل گزشتہ سطور میں پیش کی گئی ہے۔سادگی اختیار کریں: فھل من مذکر (القرآن الحکیم ) کیا کوئی ہے ان نصیحتوں پر کان دھرنے والا ؟ سادگی اور اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے والا؟ اور لوگوں کی ناراضگی اور لومتہ لائم (ملامت گروں کی ملامت) سے بے خوف ہو کر صرف اللہ کوراضی کرنے والا؟بارات میں عورتوں کی شرکت کے مزید مفاسد کے پیش نظر لڑکی والوں کے گھر جاتے وقت سوائے گھر کی خواتین کے (بیٹے کی ماں اور بہنوں کے) خاندان کی عورتوں اور دوست احباب کی بیگمات کو قطعا ساتھ نہ لے جایا جائے اس لیے کہ شادیوں میں عورتوں کی شرکت بھی بے شمار مفاسد کا باعث ہیں۔خواتین میں خرافات: عورتوں میں سادگی کا تصور بالکل ختم ہوگیا ہے۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ عورتیں بالکل سادہ لباس میں باپردہ گھر سے باہرنکلیں۔ جبکہ ہوتا یہ ہے کہ خاندان میں کسی کی شادی کی اطلاع ملتے ہی گھر کی خواتین مردوں کو مجبور کرتی ہیں کہ گھر میں (بچیوں اور بیوی سمیت) تمام خواتین کے لیے کم ازکم دودوسوٹ اعلیٰ قسم کے تیار کیے جائیں۔ ایک نکاح والے دن اور دوسرا ولیمے والے دن کے لیے کیونکہ خاندان کی ساری عورتوں نے ان کو دیکھنا ہے۔ دونوں دن ایک ہی سوٹ میں اور ساد لباس میں ملبوس ہونے کی صورت میں ان کی سبکی ہوگی۔ محدود آمدنی والے مرد کے لیے اپنے محدود بجٹ میں اس کے لیے گنجائش نکالنا بڑا مشکل ہوتاہے۔ علاوہ ازیں لباس اور اس کی سلائی کے علاوہ۔سادگی کا تصور ختم ہونے کی وجہ سے۔ میک اپ اور سولہ سنگھار کا سامان کا بھی مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے اور آنے جانےکیلئے کرائے کی گاڑی بھی ضروری ہے ۔ جو صاحب حیثیت گھرانے ہیں ان کی بیگمات کا، مذکورہ اخراجات کے علاوہ۔زیورات کے نئے طلائی سیٹ کا مطالبہ ہوتا ہے۔ گھر میں پہلے جوسیٹ بعض کے ہاں کئی کئی سیٹ ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہوتا ہے وہ پرانے ہیں یا فلاں کی شادی میں میں نے وہ پہنے تھے، اب وہی سیٹ اس شادی میں میں نے نہیں پہننا ہے۔ اور آج کل کے ’’زن مرید‘‘ قسم کے شوہر مطالبے بھی پورے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور اب بہت سی خواتین میک اپ کیلئے بیوٹی پارلروں کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں اور وہاں سے اپنے بال، چہرہ اور ہر چیز سیٹ کروا کر شادیوں میں شریک ہوتی ہیں تا کہ وہ لباس اور زیورات ہی میں نہیں بلکہ حسن و جمال اور آرائش و زیبائش میں بھی یکتا اور ممتاز نظر آئیں۔
پردے سے کوسوں دوری: پھر ان تکلفات وتصنعات میں پردے کا اور نماز پڑھنے کا اہتمام کیوں کر ممکن ہے؟اِسی لیے ہماری شادیوں میں ان سب کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ پردہ کریں گی تو آرائش و زیبائش کے ہی مناظر لوگوں کوکب نظر آئیں گے اور نماز کے لیے وضو کریں گی تو میک اپ کا سارا مصنوعی حسن بہہ جائے گا اور چہرے کی اصل رنگت اور اصل خدوخال نمایاں ہو جائیں گے۔یہ عورتیں جب شادی والے گھر یا شادی ہال میں اکٹھی ہوتی ہیں تو ان کی نظر میں دیگر تمام عورتوں کے لباس، زیورات اور میک اپ کا جائزہ لیتی ہیں۔ اگر وہ ان سب میں ممتاز ہوتی ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، شیطان ان کے اندر تفاخر اور تکبر کا احساس اور اپنے سے کمتر عورتوں کی تحقیر کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ بلکہ بعض دفعہ توسادہ مزاج قسم کی عورتوں کی بابت اس قسم کے تبصرے بھی ان کے نوک زباں پر آجاتے ہیں کہ فلاں کو دیکھو! اللہ نے ان کو سب کچھ دیا ہے لیکن یتیموں اورفقیروں کے سے لباس میں یہاں آئی ہیں۔ یعنی یہ سادگی، جو ان کو پسند ہے، شیطان صفت ان عورتوں کو بری لگتی ہے۔کئی عورتیں ایک جگہ جمع ہوتی ہیں تو اکثر وبیشتر ان کی باہم گفتگو کا موضوع ایک دوسرے کی غیبت اور ایک دوسرے پرلعن طعن ہوتا ہے۔ اللہ کا ذکر شاز و نادر ہی ان کی زبانوں پر آتا ہے۔بازاری عورتوں کی طرح ویڈیو مووی بنوانا: مووی فلم میں، جو آج کل شادیوں کا (بارات میں بھی اورولیمے میں بھی) ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ ان سے پردہ اور فیشن پرست عورتوں کے ایک ایک سین کو محفوظ کر کے ان کے حسن و جمال اور بناؤ سنگھار اور لباسوں کی تراش خراش بلکہ عریانی و نیم عریانی کو عام کر کے دونوں خاندانوں میں ان کی نمائش کا اہتمام اور ان کا چرچا ہوتا ہے حالانکہ عورتوں کی یہ ساری خوبیاں اور آرائش و زیبائش کی ساری صورتیں صرف خاوند کے لیے جائز اور اس کے مخصوص ہیں۔ لیکن بے چارہ مرد تو اپنی بیوی کو اپنے گھر میں بالعموم اس کے برعکس حالت میں دیکھتا ہے کیونکہ عورتیں اپنے خاوند کے لیے اس طرح کی آرائش و زیبائش کا اہتمام نہیں کرتیں جب کہ ان کو اس کے سامنے بناؤ سنگھار کرنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ حکم ہے لیکن جب ان کو باہر جانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس طرح بن سنور کر گئی ہیں کہ اللہ کی پناہ، بالخصوص شادیوں میں تو اسکی بے پردگی، اس کا نیم عریاں لباس، میک اپ، غازہ لپ سٹک، اس کی ایک ایک حرکت وادا ایک غارت گر دین و ایمان اورر ہزن تمکین و ہوش، کسی الھٹر حسینہ، دل ربا چنچل بازاری عورت سے کم نہیں ہوتی حالانکہ اس کو حکم یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلے تو باپردہ اور سادگی سے نکلے حتی کہ اس کی خوشبو کی مہک بھی کسی مرد کیوں نہ ہو۔
بھاری بھرکم بارات کا بوجھ: آج کل شاد یو ں میں کئی کئی سو افراد کی بارات لیکر جانا عام بات ہے جس کا رہنے اور کھانے کا پورا انتظام لڑکی والوں کو کرنا ہوتا ہے۔بھاری بھرکم بارات کا تصور لڑکی والوں کیلئے خواہ مخواہ کا وہ ناروا بوجھ ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ معاشرے کا وہ ناجائز رواج ہے جو لڑکی والوں کے لیے ایسا تصور ہے جس نے زمانہ جاہلیت کی طرح لڑکی کی پیدائش کو غم و اندوہ اور ماتم و شیون والی چیز بنادیا ہے جس کو اسلام نے آکر مٹایا تھا اور لڑکی کی پیدائش کو بھی اللہ کی نعمت قرار دیا تھا۔ بارات کے ناروا بوجھ اور دیگر رسم ورواج کے اغلال و سلاسل نے ایک اسلامی معا شرے کو دوبارہ قبل از اسلام کے جاہلی معاشرے میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور قرآن کریم نے(سورہ النحل میں ) اسلام کی نعمت سے محروم جاہلی معا شرے کی جو یہ کیفیت بیان کی ہے۔ ترجمہ:’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وغم و غصے سے بھرا ہوتا ہے۔‘‘غیر ضروری رسموں کی بیڑیاں: یہی کیفیت ہمارے پاک و ہند کے مسلمان معاشروں کی ہوگئی ہے۔ اور اس کی وجہ صرف وہی رسوم ورواج ہیں جو شادیوں کا جزو لاینفک بن گئے ہیں۔ جن میں بارات، جہیز، بری اور زیورات وغیرہ کی وہ غیرضروری رسمیں ہیں جن کی بیڑیاں خود ہم نے اپنے پیروں میں ڈالی ہوئی ہیں اور جن کو اتار پھینکنے کے لیے کوئی تیار ہیں۔ نیز اس میں دونوں خاندان برابر کے ملوث ہیں لڑکے والے بھی اور لڑکی والے بھی اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ کہ اس سے نہ کوئی دین دار خاندان مستشنی ہے اور غیر دین دار خاندان۔مسلمان معاشروں سے اس جاہلی کیفیت کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شادی بیاہوں کے ان تکلفات کی بیڑیوں کو کاٹ کر نہیں پھینک دیا جائے گا جن میں ایک بھاری جرم بارات کا کروفر کے ساتھ آنا اور پھر شاہان انداز میں اس کی ضیافت کرنا شامل ہے۔شادی کی رسومات میں ایک رسم جہیز بھی ہے۔ یہ رسم ایسی ہے کہ اس کی اصل حیثیت میں اختلاف ہے کہ یہ واقعی دیگر غیر ضروری رسومات کی طرح ایک رسم محض ہے یا کسی لحاظ سے اس کا شرعی جواز بھی ہے؟