مولانا شیخ حامد علی انواری
موسم سرما، قدرت کی انمول نعمتوں میں سے ایک ہے جو اپنے ساتھ سکون، خوشبو اور محبت کے لمحات لے کر آتا ہے۔ ٹھنڈی ہوائیں، دھندلی شامیں، اور خاموش راتیں انسان کو زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ موسم اپنے خاص رنگوں، مخصوص تہواروں اور منفرد مناظر کے ساتھ دل کو مسرور اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔
سرما کی صبحیں اپنی تازگی اور سکون کے لیے مشہور ہیں۔ جب دھند کے بادل زمین پر چھا جاتے ہیں، تو ہر منظر گویا خوابوں کی دنیا کا عکس بن جاتا ہے۔ سورج کی پہلی کرن جب دھند کو چیرتی ہے تو ہر شے سنہری روشنی میں نہا جاتی ہے۔ درختوں پر پڑی اوس کی بوندیں موتیوں کی طرح چمکتی ہیں اور ہر طرف ایک جادوئی منظر پیدا ہو جاتا ہے۔
سرما کی ان صبحوں میں لحاف میں دبک کر چائے کی بھاپ اُٹھاتی پیالی، ایک اچھی کتاب اور اپنوں کا ساتھ وہ لمحات ہیں جو زندگی کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔
موسم سرما میں قدرت اپنے حسن کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ پہاڑوں پر جمی برف، میدانوں پر پھیلی دھند، اور ٹھنڈی ہواؤں کا شور دل کو سرشاری بخشتا ہے۔ دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے پر جمی برف ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جیسے کسی ماہر مصور نے اپنی کینوس پر نقش کیا ہو۔
موسم سرما نہ صرف اپنی فطری خوبصورتی کے لیے مشہور ہے بلکہ یہ تہواروں اور تقریبات کا موسم بھی ہے۔ شادی بیاہ، خاندانی دعوتیں اور میلوں کا اہتمام خاص طور پر اسی موسم میں کیا جاتا ہے۔ لوگ رنگ برنگے گرم ملبوسات پہنے، خوشی سے سرشار نظر آتے ہیں۔ بچے اپنے معصوم سویٹروں اور رنگین ٹوپیوں میں خوشی کے پیکر لگتے ہیں، جبکہ بوڑھے اپنی گرم شالوں میں زندگی کی رونق کو محسوس کرتے ہیں۔
سرما کا ایک خاص پہلو اس کی مخصوص خوراک ہے۔ گجریلا، خشک میوہ جات، مونگ پھلی، اور چائے کی خوشبو اس موسم کو مزید دلکش بنا دیتی ہے۔ مکئی کی روٹی، مکھن، اور ساگ کا ذائقہ سرما کی دیہاتی زندگی کا ایک خوبصورت احساس دلانے کے لیے کافی ہے۔ دیہات میں لکڑی کے چولہوں پر بنی غذا کی مہک اس موسم کا خاص حصہ ہے۔
اردو ادب اور شاعری میں موسم سرما کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ موسم شاعروں کو نہ صرف فطرت کے قریب لاتا ہے بلکہ ان کے جذبات کو بھی گہرائی بخشتا ہے۔ دھندلی شاموں، سرد راتوں اور تنہائی کے لمحات کو شاعری میں خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
سرما کی راتوں میں شاعری اور غزل کی محفلوں کا اہتمام ایک عام روایت ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب انسان اپنی یادوں کے دریچوں میں جھانکتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے جذبات کو الفاظ کا لباس پہناتا ہے۔
پروین شاکر کہتی ہیں :
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال
سرما کی راتوں میں شاعری اور غزل کی محفلیں روح کو گرم جوشی فراہم کرتی ہیں۔ قہوے کے ساتھ شعری نشستوں کا لطف سرما کی راتوں کو یادگار بنا دیتا ہے۔
سرما کی راتیں اپنی خاموشی اور ٹھنڈک کے باعث منفرد ہوتی ہیں۔ چمکتے ستارے، آسمان کی وسعت، اور ہواؤں کا ہلکا شور انسان کو فطرت کی قربت کا احساس دلاتا ہے۔ یہ راتیں انسان کو اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے اور ماضی کی یادوں میں کھو جانے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔
شاعر کہتا ہے:
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
موسم سرما کی بہاریں، انسانی زندگی میں محبت، سکون اور خوشی کے رنگ بکھیرتی ہیں۔ یہ موسم ایک ایسا تحفہ ہے جو نہ صرف قدرت کی خوبصورتی کو سامنے لاتا ہے بلکہ ہمیں اپنے پیاروں کے قریب بھی کرتا ہے۔ سردیوں کی ہر صبح، ہر شام اور ہر رات اپنی کہانی سناتی ہے اور دل میں ایک نئی خوشبو بسا دیتی ہے۔