ڈاکٹر سید احمد انعایت اللہ ممبئی
اے اللہ ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کو بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچادے ۔
ماہِ رجب کی ابتداء ہماری زبان سے لگی اس دعا سے ہوتی ہے
’’اے اللہ ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کو بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچادے ۔‘‘
بلا شبہ ماہِ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس میں معرفت وعرفان وترقیاتِ روحانی کے مظہر ، رحمان کی رحمت ، مغفرت اور بے شمار وبلاحساب برکات کا نزول ہوتاہے جبکہ ماہِ شعبان اس ماہِ مبارک کا پیش خیمہ ہے ۔
قدومِ رمضان سے قبل معبود کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے توفیق وبرکات کی درخواست کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ شعبان میں رمضان کی تیاری میں سرگرداں نظرآتے تھے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ شعبان میں یوں روزے رکھتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار نہ کریں گے ، پھر ترک فرماتے تھے ، ہم سمجھتے تھے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔
نیز فرمایا کہ : رمضان المبارک کے علاوہ سال کے کسی مہینے میں مکمل ماہ روزے نہیں رکھے اور شعبان کے سوا کسی دیگر مہینے میں زیادہ روزے نہیں رکھے۔ امام بخاری اور مسلم نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے۔اسی کے پیش نظر علمائے کرام نے شعبان کا پورا مہینہ روزہ رکھنے کو مکروہ کہاہے البتہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ۔
امام نسائی نے اپنی سنن میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر فرمائی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزے رکھتے ہیں ، میں نے دیگر مہینوں میں آپ کو اس طرح روزے رکھتے نہیں دیکھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ روزہ رکھنے سے غفلت برتتے ہیں اور یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے ۔ نیز فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ،تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ۔
اسی طرح امام ابو دادؤد ؒنے اپنی سنن میں یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھنا بہت ہی پسندتھا جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں روزے رکھتے تھے ۔
ماہ ِ شعبان استقبال ِ رمضان کی تیاریوں کا پیش خیمہ ہے۔ شعبان سے ہی رمضان کی تیاریاں شروع کرلینی چاہئیں جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے معمولات سے امت کو یہ درس دیاہے کہ کمر بستہ ہوکر رمضان کی تیاری شعبان ہی سے شروع کردینی چاہئے۔
دیلمیؒ نے آنحضرت ﷺکی یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ: شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ،نیز شعبان طہارت کرنے والا اور رمضان کفارہ کردینے والا مہینہ ہے ۔
امام بیہقیؒ نے روایت کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان ِ دنیا پر نازل ہوتے ہیں،پھر ہر شخص کی مغفرت
فرمادیتے ہیں سوائے شرک کرنے والے اور دل میں بغض رکھنے والے کے ۔
یہاں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ کچھ ایسے اخلاقی اور شرعی جرائم ہیں جن کی وجہ سے بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مبارک شب وروز میں بھی محروم رہتے ہیں ۔ مختلف احادیث میں ان کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : شرک کرنا ،کینہ اور بغض رکھنا، قطع رحمی کرنا والدین کی نافرمانی کرنا،کسی انسان کو ناحق قتل کرنا اور شراب نوشی کرنا وغیرہ۔
شعبان کا مہینہ چونکہ طہارت کا مہینہ ہے ، اس لئے اہل ایمان کو اس ماہ فضیلت میں خاص اہتمام سے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہئے تاکہ ان کے باطن کا خوب تزکیہ ہو تاکہ وہ ماہِ رمضان کا استقبال بہتر کیفیات کے ساتھ کرسکیں ۔ ان مبارک ایام میں اپنے لئے، پوری امت مسلمہ کیلئے جملہ خیرات کی دعاکریں اور دیگر راہِ ہدایت سے بھٹکی انسانیت کیلئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں ۔در اصل یہی ان ایام کا وہ مبارک ثمرہ ہے جس کی لذت سے ہمیں محظوظ ہونا چاہئے ۔
حق تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم الشان مہمان کی آمد سے پہلے پہلے عمدہ اخلاق اور عالی صفات سے مزین فرمادے کہ ہم خوب سیرت ہوکر اپنے اس مہمان کا استقبال کریں جس کی آمد کے ہم منتظر ہیں اور زبان سے دعاگو ہیں کہ
’’اے اللہ! تُو ہمارے ماہِ شعبان میں برکت عطافرما او رہمیں صحت وعافیت سے ماہِ رمضان تک پہنچا۔‘‘