مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
اردو تدریس کی موجودہ صورت حال بہت اچھی نہیں ہے، اس کی وجہ مادری زبان اردو میں بچوں کی تعلیم سے عدم التفات ہے، جب کہ تمام ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے لیے مناسب اور بہترین زبان ہے، لیکن اس کے بر عکس اردو کے عاشقین کی بھی پہلی پسند اپنے بچوں کے لیے انگلش میڈیم اورکنونٹ جیسے تعلیمی ادارے ہیں، ان کے گھروں میں بھی انگریزی زبان بولی جاتی ہے، تاکہ بچہ فرفر انگریزی بولنے لگے، ہمارا سفر ہوتا رہتا ہے اور ہر طبقے میں ہوتا ہے، آج تک کوئی گارجین ایسا نہیں ملا؛ جو مجھے یہ کہہ کر اپنے بچہ سے ملا کہ لڑکا فرفر اردو یا عربی بولتا ہے، انگریزچلے گیے، لیکن انگریزی زبان سے مرعوبیت چھوڑ گیے، ایک بڑی یونیورسٹی میں جو عربی وفارسی کے ہی نام پر قائم ہے، حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ساتھ جانا ہوا، ہم سب مولوی ہی تھے اور اردو بولنے والے بھی تھے، سامنے والے بڑے عہدہ پر تھے، بات اردو میں شروع ہوئی، تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے انگریزی بولنا شروع کیا؛ تاکہ ہم سب لوگ مرعوب ہوں، ہم لوگ مولوی ہی نہیں داڑھی ٹوپی والے تھے، سوچا ہوگا کہ یہ انگریزی کیا جانتے ہوں گے، مرعوب ہوجائیں گے، حضرت امیر شریعت نے اس بات کو محسوس کیا اور فصیح انگریزی زبان میں جب جواب دینے لگے تو افسر موصوف سٹپٹا گیے، انہیں توقع نہیں تھی کہ یہ مولوی ہم سے اچھی انگریزی جانتا ہوگا، وہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ انہیں صرف Yes, No ہی یاد رہ گیا، یہ واقعہ اس لیے ذکر کیا کہ اردو الے بھی انگریزی سے کس قدر مرعوب ہیں، انگریزی کے ٹیوٹر ہمارے اردو داں خوب رکھتے ہیں، لیکن اردو کے ٹیوٹر خال خال ہی رکھے جاتے ہیں، اگر کسی نے رکھ لیا تو انگریزی اور اردو کے ٹیوشن فیس میں آپ کونمایاں فرق ملے گا۔
ظاہر ہے جب بچے نے ابتدائی مرحلہ میں اردو نہیں سیکھی، اسے بولنا، لکھنا نہیں آیا، گھر میں انگریزی تہذیب اور انگریزی الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ایسے میں بچے کو اردو زبان آتی ہی نہیں،اسکول میں جو اردو کے اساتذہ ہیں، ان کی دلچسپی بھی عموما اردو تدریس سے کم، ادارے تنظیمیں جمعتیں، جماعتیں اور ان تحریکات سے زیادہ ہیں، جن سے اخبارات میں تصویریں چھپیں، ان سے دریافت کیجئے کہ پوری مدت ملازمت میں اردو کے کتنے آدمی تیار کیے، بغلیں جھانکنے لگیں گے، یہ معاملہ تنقید کا نہیں، احتساب کا ہے، احتساب سے اپنی کمیوں کے تجزیہ اور عمل میں سدھار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس کے بر خلاف جو اساتذہ پرانے تھے، انہوں نے پرانے انداز میں اپنے اساتذہ سے اردو لکھنا، بولنا، پڑھنا سیکھا تھا، انہیں اساتذہ نے نقل نویسی اور املا نویسی کی مشق کرائی تھی، واحد جمع کے اصولی قواعد سکھائے تھے، تذکیر وتانیث کی علامتیں اورمحل استعمال بتایا تھا، محاورے اور ضرب الامثال سے واقفیت بہم پہونچائی تھی، اس لیے ان کی محنت طلبہ پر اچھی خاصی ہوتی تھی او روہ اردو سیکھ جاتے تھے، لیکن استاذ کی وہ نسل بھی اب دھیرے دھیرے ختم ہو گئی، بعضے سبکدوش ہو گیے اور بعضوں نے دنیا ہی چھوڑ دیا، اب جو نسل اردو پڑھا رہی ہے، ان میں سے بیش تر کو اردو خود ہی نہیں آتی ہے، اس کا اندازہ ان مضامین اور خبروں کو دیکھ کر ہوتا ہے، جس میں اردو املا کے ساتھ تذکیر وتانیث اور واحد جمع تک کی غلطیاں پائی جاتی ہیں، بعض ان کتابوں کو دیکھ کر بھی اردو کی حالت زار کا انداز ہوتا ہے، جو بغیر کسی اہل نظر کی نظر ثانی کے طباعت کے مراحل سے گذر گئیں، یہی حال اردو اخبارات کا ہے، بعض الفاظ کااملا دیکھ کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے،مستثنیات سب جگہ ہیں، یہاں بھی بعض اساتذہ اردو کی تدریس میں بہت اچھے ہیں اور ان کے طلبہ بھی کامیاب نکل رہے ہیں، بعض صحافی کی غیر معمولی صلاحیت پر رشک آتا ہے، لیکن یہ معاملہ خاص خاص کا ہے، عمومی احوال وہی ہیں، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
اس بے توجہی کی بڑی وجہ اردو کے طلبہ کے لئے بہترین ملازمت کے مواقع کی کمی ہے، استاذ مترجم اور معاون مترجم میں بحالیاں ہوجاتی ہیں، لیکن کتنے اردو داں اس ملازمت میں سما سکتے ہیں،جو سما گیے ان کی دلچسپی بھی ترجمہ سے زیادہ دوسرے فائل نمٹانے سے ہوتی ہے، کیوں کہ اس میں بالائی آمدنی کے مواقع زیادہ نظر آتے ہیں،اس دور میں جب پیشہ وارانہ تعلیم ہمارے رگ وریشے میں سما گیا ہے اور تعلیمی اداروں میں شائقین زبان وادب کے بجائے ان طلبہ کا ہجوم ہے جن کو بتایا گیا ہے کہ اس ڈگری کے حصول پر روٹی کے دو ٹکڑے اور شوربے کا ایک پیالہ مل سکتا ہے تو سارے ادھر ہی بھاگے جا رہے ہیں، اور اردو پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے، جو پڑھ رہے ہیں وہ بھی احساس کمتری کے شکار ہیں، وہ اپنے کو دوسرے مضامین پڑھ رہے طلبہ سے کم تر سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قدر سماج میں انگریزی اور سائنس پڑھ رہے طلبہ سے کم ہے، یہ احساس کم تری ان کو حوصلہ شکنی کے مقام تک پہونچا دیتی ہے، ہم ہائی اسکول سطح پر اردو اختیاری نہیں، لازمی مادری زبان کی حیثیت سے پڑھانے اور ہر ہائی اسکول میں کم از کم ایک استاذ کی بحالی پر زور دیتے ہیں، دینا بھی چاہیے، لیکن ہمیں اس صورت حال کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ اردو ایک مضمون کی حیثیت سے رکھنے کے خواہش مند کتنے طلبہ ہیں؟ اور ہم نے کتنے کو اس مضمون کے رکھنے کے لیے تیار کیا ہے؟
اردو درس وتدریس کے حوالہ سے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے ایک بڑا مسئلہ اس کی املا نویسی کا ہے، اردو کے نصاب میں الفاظ کی تحلیل اور املا میں سدھار کی جو غیر فطری تجویزیں آتی رہتی ہیں، اس نے طلبہ واساتذہ کو حیران کر رکھا ہے، کوئی املا کا مدار حرف کی صوت پر رکھنے کی بات کرتا ہے اور کوئی قدیم املا کو باقی رکھنے کی سفارش کرتا ہے، صوت پر املا کی بنیاد رکھنے کا مطلب ہے کہ ہم سدا (ہمیشہ) صدا (آواز) خار (کانٹا) خوار (ذلیل) خان (ذات) خوان (دسترخوان) کو ایک ہی طرح لکھنے لگیں، طوطا میں آواز ”ط“ کی کون نکالتا ہے، اس لیے تو تا”ت“ سے لکھا جانے لگے، طشتری ”ت“ سے لکھا جائے، علٰحدہ، علاحدہ، مولانا، موسیٰ اور عیسیٰ کو الف سے اور بالکل کو بغیر الف کے لکھا جائے، ان سفارشات کا بڑا نقصان یہ کہ اردو زبان میں جو ہم خاندان السنہ ایک موضوع کے طور پر پڑھاتے ہیں،ا لفاظ کے املا بدلنے سے ان کا خاندان گم ہو جاتا ہے، مثلا بالکل عربی زبان سے آ یا ہے، اس لیے اس کو الف سے لکھنا ہی ہوگا، عیسیٰ موسیٰ کا املا بھی متعین ہے اور اس کا تلفظ چاہے جو ہو، املا وہی ہے جس طرح قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے، اسی طرح معدولات یعنی وہ حروف جو تلفظ میں نہیں آتے، ان کو ہٹا دینے سے بھی اس لفظ کا خاندان گم ہوجائے گا، اور یہ کہنا کہ اس سے طلبہ کو لکھنے میں آسانی ہوجائے گی، خواہ مخواہ کی بات ہے۔
یہی لوگ جب انگریزی بولتے، لکھتے اور پڑھاتے ہیں تو نالج اور نائف کے “K”سائلنٹ کو حذف کرنے کی بات نہیں کرتے اور اردو میں ساری تجویزیں اول جلول کی آتی رہتی ہیں۔
اردو زبان کی تدریس کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم اس زبان کو اجنبی زبان کی طرح پڑھاتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں میں اردو زبان کو صرف ایک مضمون کی طرح پڑھایا جاتا ہے، زبان کی طرح نہیں، اردو تدریس میں ایک کام متن کی خواندگی کا ہے، متن کی خواندگی صحیح نہیں ہو تو درست مفہوم تک نہیں پہونچا جا سکتا، میرا جب سعودی عرب کے جدہ واقع انڈین اسکول میں جانا ہوا تو اردو کے ایک استاذ نے باتوں باتوں میں میرا وہ مشہور شعر پڑھا کہ
جانا نہ تھا مجھے جہاں سو بار واں گیا
ضعف قُویٰ سے دست بدیوارواں گیا
اس شعر میں انہوں نے متن کی خواندگی میں فاش غلطی کی، کہ قُویٰ کو قو ِی پڑھ لیا، میں نے زیر لب مسکراتے ہوئے ان سے پوچھا کہ ضعف قوی کا کیا مطلب ہے کہنے لگے بہت کمزوری، حالاں کہ یہ لفظ قُویٰ ہے، اعضاء وجوارح ہاتھ پاؤں وغیرہ کے معنی، جب اردو کے اساتذہ کا یہ حال ہوگا تو طلبہ کیسے نکلیں گے، آپ خود سوچ سکتے ہیں۔اس لیے تدریس میں متن کی صحیح خواندگی پر زور دیا جائے، تدریس میں طلبہ کا بھی رول ہو زیادہ سے زیادہ سوالات کرکے عبارت کا ماحصل طلبہ کے ذہن وماغ میں بیٹھایا جائے، ان کی نفسیات کا خیال رکھا جائے اور ہر ہر طالب علم کو اہمیت دی جائے، تاکہ استاذ کی توجہ ہر طالب علم پر رہے، یقینا کلاس طلبہ کی جماعت سے تیار ہوتا ہے، لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ان میں کا ہر فرد ہمارا مخاطب ہے، اور یقینا کلاس کے تمام لڑکوں کی قوت تفہیم اور معلومات کی سطحیں الگ الگ ہوتی ہیں، ہمیں اردو کو خالص ادبی حیثیت سے نہیں بلکہ معنی کی تفہیم وترسیل کے مقصد سے بھی پڑھانے کی ضرورت ہے۔
آج کل ایک خرابی یہ بھی ہے کہ طلبہ تو طلبہ ہی ہیں اساتذہ کا تلفظ بھی صحیح نہیں ہوتا ہے، اس کی وجہ نیچے درجات میں تلفظ کا صحیح نہیں ہونا ہے، اس کے لیے تلفظ کی مشق ضروری ہوتی ہے، ج،ز، ض، س، ش، ص میں فرق کرنے کی مشق ابتدائی تعلیم سے ہی ضروری ہے، ورنہ اگر بنیاد صحیح نہیں ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ تاثریا می روددیوار کج۔دیوار جتنی بھی بلند ہو جائے ٹیڑھی ہی رہے گی۔
اردو ہی نہیں تمام موضوعات کی تدریس کے لیے سبق کی مؤثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، جسے تدریس کی زبان میں ”لیسن پلان“ کہتے ہیں، ہمارے یہاں سرکاری سطح پر سبق کی منصوبہ بندی کے لزوم کے باوجود اس کا اہتمام نہیں کیا جاتا، حالاں کہ اگر آپ ذہنی منصوبہ بندی کرکے اسے کاغذ پر منتقل کر لیتے ہیں تو آموزش،سیکھنے سکھانے کا عمل خوش گوار ہوگا اور درسگاہ میں طلبہ کے اندر شوق وذوق پیدا ہوگا، جس سے سبق پڑھانا آسان ہوگا، اور ہم اپنی صلاحیتوں کو طلبہ تک منتقل کر سکیں گے۔ خواجہ غلام السیدین کا قول ہے کہ اچھے استاذ کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے شعور وآگہی میں طلبہ کو شریک کر لے، یعنی جو کچھ وہ جانتا ہے، طلبہ میں منتقل کر دے، اچھے استاذ کے لیے بہت ساری معلومات کا اس کے پاس ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ صحیح معلومات کو طلبہ تک منتقل کرنے کی صلاحیت اس کے پاس ہونی چاہیے۔مؤثر منصوبہ بندی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کی ذہنی صلاحیت اور مبلغ علم کو سامنے رکھا جائے، اس کے بعد تدریس کا خاکہ، مقاصد تدریس، ذہنی آمادگی، متن کی خواندگی، تفہیمی سوالات، نئے الفاظ کے معنی تک رسائی وغیرہ مؤثر منصوبہ بندی کے ذیلی عناوین ہو سکتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے اور اس کے بغیر کامیاب تدریس کے تصور کو خواب وخیال یا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف سمجھنا چاہیے۔
ایک اور کام جو تدریس کے حوالہ سے ہمیں کرنا چاہیے وہ ہے تدریس کے طریقہئ کار میں
تبدیلی، چہک وغیرہ میں طلبہ کو پڑھایا ہی نہیں جاتا، آموزش کے عمل کو استاذ اور شاگرد ناچ گا کر بھی سیکھتے سکھاتے ہیں، میں اس کو تدریس کی سنجیدگی کے خلاف اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو کمر ہلا کر رقص کی طرف مائل کرنا سمجھتا ہوں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح سے طلبہ میں دلچسپی پیدا ہوتی ہے، مجھے خود ایک بار سنٹرل انسٹی چیوٹ آف انڈین لنگویج نے سو لن کے ورکشاپ میں بلایا تھا اور موضوع دیا تھا کہ کھیل کھیل میں بچوں کو کیسے پڑھائیں، انیس روزہ ورک شاپ میں شرکاء نے جو”کھیل کھیل میں بچوں کو کیسے پڑھائیں“ کے عنوان سے کھیل بنائے، اس کو این سی پی اول نے اردو زبان کے جادو کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع کر دیا ہے، میں نے اس میں سارے ایسے کھیل بنائے، جس میں ڈانس اور کمر ہلا نے کی ضرورت نہ پڑے، تدریس کی سنجیدگی بر قرار رہے، اردو کے اساتذہ کو بھی روایتی اور سرکاری طریقہ کار سے الگ ہٹ کر اپنے درس کو دلکش بنانا چاہیے، اس کے لیے جدید تدریسی آلات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ موبائل او رانٹر نیٹ لڑکوں کا ذوق بن گیا ہے، ہم اسے تدریس کے کاموں میں آن لائن تعلیم سے الگ ہٹ کر کس طرح اور کس قدر استعمال کر سکتے ہیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ان مسائل سے نمٹنے کے لیے اردو دوست حضرات کو آگے آنا پڑے گا، طلبہ میں اردو زبان وادب کے تئیں دلچسپی پیدا کرنی ہوگی، گھر میں بھی اردو لکھنے، پڑھنے اور بولنے کا ماحول دینا ہوگا، گارجین کو بھی اردو لکھنا، پڑھنا اور صحیح تلفظ کے ساتھ بولنے کی مشق کرنی ہوگی، تبھی بچوں میں اردو سیکھنے اور پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا، ان کے ذہن میں یہ بات راسخ کرنی ہوگی کہ دوسرے علوم وفنون تم روزی روٹی کے لیے پڑھ رہے ہو، لیکن تمہاری مادری زبان اردوہے، علوم وفنون کا بڑا سرمایہ اور معلومات کا خزانہ اس میں موجود ہے،اس لیے اس میں ماں کی محبت کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے، انہیں بتائیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں، تہذیب بھی ہے،زبانیں اپنی تہذیب کے ساتھ ہی زندہ رہا کرتی ہیں، آپ خوابگاہ کو بیڈ روم، باورچی خانہ کو کچن، استقبالیہ کمرے کو ڈرائنگ روم، طعام گاہ کو ڈائننگ ہال، غسل خانہ کو باتھ روم، چمچے کو اسپون، پانی کو واٹر، کرسی کو چیر، میز کو ٹیبل، کھڑکی کو ونڈو،ناشتہ کو بریک فاسٹ، دن کے کھانے کو لنچ اور رات کے کھانے کو ڈِنر کہہ کر اردو کی حفاظت نہیں کر سکتے، اردو کی حفاظت اس کے الفاظ اور رسم الخط کی حفاظت سے ہو گی، اساتذہ کو اردو تدریس کے تئیں سنجیدہ ہونا ہوگا، یہ صحیح ہے کہ آن لائن حاضری بنانے کے لزوم نے اسکولوں میں اساتذۃ کی حاضری کا تناسب سو فی صد تک پہونچا دیا ہے، لیکن حاضری کے بعد اردو کے اساتذہ اردو نہیں پڑھائیں، کلاس میں موبائل دیکھ کر وقت گذاردیں یا وہ دوسرے موضوعات پڑھانے میں لگ جائیں تو اردو کی تعلیم کہاں سے ہو سکے گی، ہماری دو کانوں اور سرکاری دفاتر پر اردو میں بورڈ نہ لکھا ہو تو کس طرح اس کے پڑھنے کا شوق پیدا ہوگا، دوسری زبانوں کے بولنے والے اس قدر حساس ہیں کہ تامل، تلگو، بنگلہ، کنڑ وغیرہ بولنے والے اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کا قطعا استعمال نہیں کرتے، دوکانوں اور دفاتر پر بھی بورڈ دوسری زبانوں میں لگانہیں ہوتا، آپ وہاں جا کر ہندوستان کے شہری ہونے کے باوجود اجنبیت محسوس کریں گے، ریلوے اسٹیشنوں کے علاوہ ہندی کا نام ونشان کہیں بھی نظر نہیں آئے گا، میں آپ لوگوں کواس قدر متعصب ہونے کی تلقین نہیں کرتا، لیکن دوسری زبانوں کے ساتھ اپنی زبان کے ساتھ بھی انصاف کیجئے، ہمارے یہاں اردو کے حوالہ سے مدارس اسلامیہ کے علاوہ شاخوں کو پانی پٹانے کا عمل جاری ہے، ضرورت ہے جڑوں میں پانی دینے کی، جڑ میں پانی دینے کا یہ عمل، گھر اور اسکول سے شروع کیجئے، یقینا مسائل ہیں، لیکن مسائل سے نبرد آزما ہوئیے، اپنے اندر کمی ہے تو اس کا بھی محاسبہ کیجئے، کمیوں کو دور کیجئے، خوب اچھی طرح یاد رکھیے،زبانیں سرکاری سر پرستی سے نہیں، بولنے، لکھنے، پڑھنے اور استعمال سے زندہ رہتی ہیں، ورنہ حبرو زبان کب کی مر گئی ہوتی، در بدری اور خانہ بدوشی کے زمانہ میں بھی یہودیوں نے اسے پڑھ لکھ کر گھروں میں زندہ رکھا، اور کوئی بائیس سو سال زندہ رکھنے کے بعد جب اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی تو پہلی ڈکلیریشن میں ہی اسے سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔آپ پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، اردو یہاں دوسری سرکاری زبان ہے، اس کی ترویج واشاعت کے بڑے مواقع حاصل ہیں، بس اتنا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کی طرف اٹھی ایک انگلی کے بعد تین انگلیاں ہماری طرف رخ کر کے پوچھ رہی ہیں کہ اردو کے عاشقین اردو کی بقا، ترویج واشاعت اور نئی نسل تک اسے منتقل کرنے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں، حکومت پر دباؤ بنانے کے ساتھ اپنی ترجیحات کا رخ بھی اردو کی طرف کر دیجئے، صورت حال بھی بدلے گی اور مسائل بھی حل ہوں گے۔ ان ارید الاالاصلاح مااستطعت وما توفیقی الا باللہ