ڈاکٹر شاہد حبیب
فتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک روشن استعارے کی حیثیت حاصل ہے۔ مسجد مغلیہ دور کی عظمت، اور روحانیت کے حسین امتزاج کی حامل ہے۔ 1650 عیسوی میں مغل شہنشاہ شاہجہاں کی ملکہ، فتحپوری بیگم، نے اس مسجد کی تعمیر کروائی، جو ان کی محبت اور مذہبی عقیدت کی علامت ہے۔ یہ مسجد لال قلعے کے بالمقابل واقع ہے اور دہلی کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔
فتحپوری مسجد کو شاہجہانی طرزِ تعمیر کا ایک شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے کہ شاہجہانی دور کی تعمیرات کی ابتدائی سبھی خوبیوں سے یہ مزین ہے۔ اس مسجد کی تعمیر مغل دور میں علم، روحانیت، اور مختلف فنون کے فروغ کی ایک بڑی علامت کے طور ہوئی تھی۔ مسجد کا قیام نہ صرف عبادت کے لیے ایک جگہ فراہم کرنا تھا بلکہ اسے علم و دانش کے فروغ اور سماجی رابطے کا مرکز بھی بنانا تھا۔ مغل حکومت کے زوال کے بعد بھی، یہ مسجد نہ صرف دہلی کے مسلمانوں کی شناخت بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی ایک اہم نشانی اور مرجع کی حیثیت سے قائم ہے۔ حالانکہ مسجد عام سرخ پتھر سے بنی ہے، اس کے باوجود سادگی و عظمت کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ اس کا مرکزی صحن، بلند و بالا گنبد، اور کشادہ محرابیں اسلامی فنِ تعمیر کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسجد کا ڈیزائن عبادت گزاروں کو روحانی سکون فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس کی کھلی فضا اور وسیع صحن ہر آنے والے کو سکون و راحت کا احساس دیتے ہیں اور کشادہ حوض ماحول کو خوشگوار بنائے رکھتا ہے، ساتھ ہی وضو کے لیے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ مسجد کے تین داخلی دروازے ہیں، جو مختلف سمتوں سے آنے والے افراد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مرکزی گنبد کے ساتھ موجود دو چھوٹے گنبد، مسجد کے فن تعمیر میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ اندرونی دیواروں پر کی گئی نقش نگاری، اسلامی خطوط اور خوبصورت آرٹ کا حسین نمونہ ہیں۔
انیسویں صدی کے دوران، برطانوی حکومت نے 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد فتحپوری مسجد کو ضبط کر لیا اور اسے ایک تاجر کو فروخت کر دیا۔ تاہم، 1877 میں، اس وقت کے وائسرائے لارڈ لٹن کے حکم پر مسجد مسلمانوں کو واپس کر دی گئی۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ فتحپوری مسجد صرف ایک عبادت گاہ نہیں بلکہ دہلی کے مسلمانوں کی روحانی اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کی ایک جدوجہد کی علامت رہی ہے۔ یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مرکز ہے بلکہ روحانی سکون اور بھائی چارے کا پیغام بھی دیتی ہے۔ یہاں بلا ناغہ پانچوں وقت کی نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں، اور جمعہ کے خطبے میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے۔ رمضان المبارک کے دوران، مسجد میں تراویح، افطار، اور دیگر روحانی سرگرمیوں کا ایک خاص اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد جمع ہو کر اسلام کی تعلیمات کو سیکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور اخوت کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں فتحپوری مسجد میں مختلف سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
فتحپوری مسجد کے موجودہ شاہی امام، ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد، کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ نہ صرف مسجد کی انتظامیہ کو عمدگی سے چلا رہے ہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مکرم احمد اس مسجد سے اتحاد، امن، اور تعلیم کے فروغ کو عام کر رہے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کو اتحاد، تعلیم، اور بھائی چارے کا درس دے رہے ہیں۔ ان کے خطبات دل و دماغ کو جلا بخشتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ ان کے خطبات علمی گہرائی کے حامل ہوتے ہیں اور معاشرتی مسائل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد نے سماجی خدمات کے میدان میں بھی نمایاں کام کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور مسجد کو علم و دانش کے مرکز کے طور پر فروغ دیا۔ ان کی رہنمائی میں فتحپوری مسجد نے نہ صرف دہلی بلکہ پورے ہندوستان میں اسلامی تعلیمات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ نوجوان نسل کو مذہب کے ساتھ جوڑنے کے لیے خاص طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں مسجد نے نہ صرف ایک عبادت گاہ کی حیثیت سے بلکہ ایک علمی اور سماجی مرکز کے طور پر بھی ترقی کی ہے بلکہ اسے ایک ایسا مرکز بنایا ہے جہاں دینی علوم سے لیس ہو کر نئی نسل نکل بھی رہی ہے۔ یہاں جدید علوم کے لیے بھی اسکول قائم کیے گئے ہیں۔ اس طرح وہ طلبہ کو قرآن و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں بھی آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد کے مختلف خطابات سے ان کی علمیت، عاجزی، اور محبت کا اندازہ ہوا ہے اور دل کو متاثر کیا ہے۔ ان کی قیادت میں مسجد نے جو ترقی کی ہے، وہ واقعی قابلِ تحسین ہے۔
فتحپوری مسجد نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک روحانی مرکز ہے بلکہ دہلی آنے والے سیاحوں کے لیے بھی ایک پرکشش مقام ہے۔ مختلف ممالک سے آنے والے سیاح اس مسجد کی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کو دیکھنے آتے ہیں۔ یہ مسجد دہلی کی متنوع ثقافت اور تاریخ کا ایک لازمی حصہ ہے۔ مسجد میں مختلف مواقع پر سماجی مسائل پر مبنی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں علماء اور ماہرین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کا مقصد مسلمانوں کو ان کے سماجی فرائض سے آگاہ کرنا اور معاشرتی ترقی کے لیے ان کی رہنمائی کرنا ہے۔
فتحپوری مسجد میں جب بھی حاضری ہوئی، اس کی زیارت میرے لیے ایک روحانی اور مسرت آگیں تجربہ ثابت ہوئی۔ یوں تو ہر مسجد کی فضاؤں میں ایک عجیب سے سکون کا احساس ہوتا ہے لیکن یہاں پہنچ کر اس احساس میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جو دل و دماغ کو سکون بخشتا ہے۔ مسجد کے کشادہ صحن میں بیٹھ کر، اس کی تاریخ اور اسلامی ورثے کا حصہ بننے کا احساس ناقابلِ بیان ہے۔ مسجد نہ صرف ماضی کی عظمت کی گواہ ہے بلکہ آج بھی مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے، جو ہمیں ہماری تاریخ اور ورثے کی یاد دلاتا ہے اور ہمیں ان اقدار کے تحفظ کی ترغیب دیتا ہے جو ہماری شناخت کا حصہ ہیں۔
میری دعا ہے کہ یہ مسجد ہمیشہ مسلمانوں کے لیے ایمان و عقیدت کا مرکز بنی رہے اور اس کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات عام ہوتی رہیں اور مرجعِ خلائق بنی رہے کہ یہ مسجد ماضی کی شان و شوکت کا مظہر ہے اور آج بھی دہلی کی اسلامی ثقافت کی ایک زندہ تصویر ہے۔ آمین
8539054888) (موبائل:
اس کو بھی پڑھیں