ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی ۔بجنور
9897334419
تمام مذاہب میں کسی مقدس مقام کا سفر عبادات میں شامل ہے۔ یہودیت میں ہیکل سلیمانی کی زیارت اور اس کا طواف کیا جاتا ہے ۔ عیسائیت میں بیت المقدس کی زیارت کا افضل سمجھا جاتا ہے ۔سکھ مذہب میں گولڈن ٹیمپل اور بودھ دھرم میں لمبینی ،سارناتھ،کشی نگر اور گیا کے مہابودھی مندر کی زیارت باعث اجر و ثواب ہے ۔ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے وطنی بھائی کاشی، متھرا، ہری دوار، چار دھام کی یاترا کرتے ہیں اور وہاں جاتے وقت بہت معمولی لباس پہنتے ہیں۔ وہاں اپنے معبودوں کا طواف (پری کرما) کرتے ہیں، وہاں موجود دریا، ندی یا تالاب میں نہاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سارے پاپ دھل گئے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ سب حج کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔حضرت ابراہیم ؑ کے دور سے ہی ہر نبی اور اس کی امت نے مناسک حج ادا کیے ہیں۔یہاں تک مشرکین عرب بھی ہر سال مناسک حج ادا کرتے تھے اور حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ایک بڑے میلے کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔جب اللہ کے رسول ﷺ نے اصلاح معاشرہ کے فرض کو انجام دیا تو حج کے ساتھ جوغیر ضروری رسمیں در آئی تھیں آپ نے مناسک حج کو تمام آلودگیوں سے پاک کیا اور حج کو تقرب الٰہی کا ذریعہ بنایا۔
اسلام میں حاجی اللہ کے گھر کعبہ کا سفر کرتے ہیں،وہاں بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں، زم زم کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور حج کرنے کا ثواب بھی یہی بتایا گیاہے کہ انسان گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
حج کے لغوی معنیٰ ہیں ’’ ارادہ کرنا‘‘ اور دین کی اصطلاح میں حج اس عبادت کو کہتے ہیں جس میں ایک مسلمان کعبہ کی زیارت کاارادہ کرتاہے۔جس کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ حج کے اخراجات اور واپس آنے تک گھر والوں کے خرچ کے لیے کافی ہو اس پر حج فرض ہے۔ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے:’’اللہ کے لیے ان لوگوں پر اللہ کے گھر کا حج فرض ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔‘‘(آل عمران)
احادیث میں بھی حج کی فرضیت پر زور دیا گیا ہے اور حج کو ارکانِ اسلام میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (۱) توحید و رسالت کی گواہی (۲) نماز قائم کرنا (۳) ادائیگی زکوٰۃ (۴) رمضان کے روزے (۵) اور حج۔ (مسلم)
تمام علمائے حدیث اور ائمہ فقہ کا اس کے فرض ہونے پر اتفاق ہے۔ کوئی مسلمان بھی اس کی فرضیت کا منکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس کی فرضیت کاانکار کرتاہے تو وہ مسلمان نہیںہے۔
حج ایک جامع عبادت اور اسلامی زندگی کاتربیتی نصاب ہے ۔ اس میں ذکر ودعا، نماز، زکوٰۃ ، روزہ، ہجرت اور جہاد جیسی تمام اہم اور بنیادی عبادات کی روح اور تربیتی مقاصد واثرات موجود ہیں۔ اس عبادت کی ابتدا لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اذکار کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔بالخصوص یوم عرفہ تو ہے ہی ذکر و دعا اور توبہ و استغفار کا دن۔ منیٰ میں قیام کے دوران بھی ذکر کی خاص تاکید کی ہے۔ارشاد ربانی ہے:
’’پھر جب تم جوق در جوق عرفات سے واپس ہونے لگو تو اللہ کا ذکر مشعر حرام کے پاس کرلیا کرو اور اس کا ذکر اس طرح کرو جس طرح کرنے کی اس نے تمھیں ہدایت کی ہے اور اس سے پہلے تم راہ بھولے ہوئے تھے، پھر تم اسی جگہ سے واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں اور اللہ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ گناہ معاف فرمانے والا اور مہربان ہے۔ پھر جب تم حج کے تمام مناسک ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کا ذکر کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔‘‘(سورہ بقرہ199)
حاجی اللہ کے جس گھر کی طرف منہ کرکے عمر بھر نماز پڑھتا رہا ہے آج وہ اسے دیکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ اس کا طواف کرتا ہے اور اس کے مالک کے حضور سجدہ ریز ہوکر اس سے بہت قریب ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ وصدقات دیتا رہا ہے، سفر حج میں اپنے محبوب مال کا بڑا حصہ خرچ کرکے مال کی محبت کو اللہ کی محبت پر قربان کرتا ہے۔ وہ روزہ میں جن شہوات وخواہشات کو اللہ کی مرضی کے تابع کرتاہے اور تراویح و قیام میں جیسا سخت مجاہدہ کرتا ہے،اس کی تربیت احرام کی پابندیوں اور حج کے پُرمشقت مناسک میںموجود ہے۔
ہجرت کی حقیقت ترک وطن، اہل و عیال سے جدائی، سفر کی مشقت، دنیوی مفادات کی قربانی اور اللہ کے حکم پر لبیک کہنا ہے۔ حج میں بھی بندہ لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کی ایمان پرور صدا بلند کرتے ہوئے پوری شان بندگی کے ساتھ اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف اور اپنے وطن سے اس شہر کی طرف روانہ ہوتاہے جس میں اللہ کے شعائر (نشانیاں) ہیں اور جس کا حج اس پر فرض ہے۔
جہاد کی بہت سی خصوصیات بھی حج میں موجود ہیں۔ جہاد کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے، مجاہد سر پر کفن باندھ کر محاذ جنگ پر جاتا ہے، کبھی ایک محاذ پر مصروف جہاد ہوتا ہے اور کبھی دوسرے محاذ پر دشمن سے لڑتا ہے۔ اس فرض کو ادا کرنے میں وہ اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اسے اپنا ہوش نہیں رہتا، نہ وہ سر میں تیل ڈالتا ہے، نہ ہی کپڑوں پر توجہ دیتا ہے، نہ پوری طرح نیند لیتااور آرام کرسکتاہے، نہ وقت پر کھانا کھاسکتاہے۔ یہاںتک کہ وقت پر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا۔ اس راہ میں اللہ کے کچھ بندے شہید بھی ہوجاتے ہیں۔ حج میں بھی سفرکی تکان، کفن نما لباسِ احرام، احرام کی پابندیاں، مکہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات میں ظہر کے ساتھ نماز عصر اور مزدلفہ میں مغرب کی نماز، عشاء کے ساتھ پڑھنا، عرفات سے مزدلفہ اور پھر منیٰ مقررہ وقت پر پہنچنا، جمرات پر کنکریاں مارنا اور جانور کی قربانی کرنا،بعض حاجیوں کا مناسک کی تھکن، گرمی کی شدت اور بھیڑ کی وجہ سے انتقال کرجانا جہاد کا پرتو ہے ۔ اس لیے کمزوروں کا جہاد حج کو قرار دیاگیا ۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہر کمزور کا جہاد حج ہے۔ ‘‘(مسند الشھاب)
حج ایک غلام کی عاجزی و انکساری اور عبدیت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ خدا کے دربار میں حاضر ہونا ، کفن نما کپڑا پہننا، اللہ کے گھر کا چکر لگانا، صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا، عرفات و مزدلفہ کے صحراؤںمیں پڑاؤ ڈالنا، جمرات پر کنکریاں مارنا، بلند آواز میں تلبیہ کہنا اور اس قسم کے بہت سے اعمال انجام دینا بندگی اور عبدیت کا بہترین مظہر ہیں۔ یہ اللہ سے محبت کی معراج ہے۔ یہ حضرت ابراہیم ؑ کے عشق ِ خداوندی کی اداؤں کا احیاء ہے اور اسلام کا آخری رکن ہے۔
حج کو اجر و ثواب کے لحاظ سے بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے حج کیا اور اس نے کوئی شہوانی اور فحش کام نہ کیا اور نہ ہی خدا کی نافرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہوکر واپس لوٹتا ہے جیسا اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔‘‘(بخاری و مسلم)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے اس لیے حج کرو۔ ایک شخص نے سوال کیا:۔ ’’ اے اللہ کے رسولؐ کیاہر سال حج کرنافرض قرار دیا گیا ہے؟‘‘اس نے تین بار یہی سوال دہرایا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا اور تمہارے اندر اس کی استطاعت نہیں ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ’’ جو چیزیں میں بیان نہ کروں اس کے سلسلہ میں مجھ سے سوال مت کیا کرو اور مجھے آزاد چھوڑ دیا کرو۔ تم سے پہلی امتوں کے لوگ اسی لیے تباہ ہوگئے کہ وہ اپنے نبیوں سے بہت زیادہ سوالات کرتے تھے۔ پھر ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ لہٰذا جب میں تم کوکسی چیز کاحکم دوں تو طاقت بھر اس کی تعمیل کرو اور جب کسی چیزسے روکوں تو اس کو چھوڑ دو۔‘‘ (مسلم)ایک بار نبی کریم ؐ سے معلوم کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:
’’ اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان لانا۔‘‘ پھر دریافت کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔‘‘ عرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’ حج مبرور۔‘‘
حج مبرور وہ حج ہے جو بارگاہِ ایزدی میں مقبول ہو اور بارگاہِ ایزدی میں وہی حج مقبول ہوتا ہے جو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے کیا جائے اور ہر قسم کی فحاشی و بے حیائی اور فسق و فجور سے پاک ہو۔
بخاری و مسلم میں نبی کریم ؐکا یہ ارشاد موجود ہے’’:حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے۔‘‘آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’ حج اور عمرے کو پے در پے کرو کیوں کہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کو ایسا دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے ، چاندی اور سونے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے اور مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ جس شخص کے پاس حج کے لیے ضروری سامان اور ایسی سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچاسکے اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘(ترمذی)
مطلب واضح ہے کہ اگر کوئی شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے حج فرض ہونے کے باوجود حج ادا نہ کیا تو اس حال میں مرنا یہودی اور نصرانی ہوکر مرنے کے برابر ہے۔ جس طرح نماز چھوڑنے کو کفر و شرک کے قریب تر بتایا گیا ہے ۔ اسی طرح حج ادا نہ کرنے کو یہود و نصاریٰ کے عمل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کیوں کہ یہود ونصاریٰ حج نہیں کرتے تھے، جب کہ مشرکین عرب حج تو کرتے تھے مگر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ اس لیے ترک ِ نماز کو شرک سے قریب بتایا گیا ۔ ارشاد ہوا: ’’نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے مت ہوجاؤ۔ ‘‘ (سورہ روم)
l l l