🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

ڈاکٹر عمرفاروق قاسمی
استادودیا پتی پلس ٹو ہائی اسکول بسفی
9525755126
رات کے تقریباً نو بج رہے تھے، کسی بات پر اپنے بچوں کو تادیباً ڈانٹ ڈپٹ رہا تھا۔میرا ذاتی موبائل دوسرے کمرے میں چارج پر لگا ہوا تھا کہ اچانک میری چھوٹی بہن فریدہ ظفر کے موبائل پر ایک نئے نمبر سے فون آیا۔اس وقت اس کا موبائل میرے ہی قریب تھا اس لیے میں نے ہی کال ریسو کیا دوسری طرف ایک جانی پہچانی آواز گویاتھی ’’بھیا! بڑے ابو کا انتقال ہو گیا‘‘۔یہ آواز میرے چھوٹے ماموں قاری محمد علی جوہر صاحبؒ کے صاحبزادے عزیزم مولوی عظمت سلمہ کی تھی،اس لیے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ” بڑے ابو” سے مراد میرے بڑے ماموں شوکت علی صاحب چندرسین پوری ہیں۔کلیجہ دھک سے رہ گیا۔موت کسی غیر کی نہیں تھی اپنے سگے ماموں کی تھی۔ان کی تھی جن کی گود میں کھیلا تھا،جنھوں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا۔اس لیے کلیجے کا اڑ جانا فطری اور توقع کے مطابق تھا۔موسم سرد تھا، کہرا چھایا ہوا تھا، واپسی میں دیر ہوجائے گی اس لیے ایک منٹ کے لیے سوچا کہ صبح جاؤں گا۔کہ اچانک دل نے کہا کیوں بھائی زندگی کے سفر میں جب وہ جوان و توانا تھے اور ان کی ضرورت پڑی تو وہ ہر وقت ہر ایک رشتے داروں کے لیے آمادۂ سفر رہا،آج ان کا آخری سفر ہے، کل وہ سپرد خاک ہو جائیں گے تو پھر صبح کا انتظار کیوں؟ دل کی اس آواز کے ساتھ اہلیہ راشدہ سلطانہ کی آواز بھی میل کھا گئی ’’ابھی نو ہی بجا ہے چلیے گیارہ بجے رات تک واپس آجائیں گے۔‘‘.اور پھر میں چندرسین پور کے لیے چل پڑا۔رات اُجالی تھی، چاند اور کُہرے کے درمیان غلبے کی لڑائی جاری تھی ،کہیں پر کُہرا غالب نظر آتا تو کہیں پر چاند اپنے حریف کو پچھاڑ تے ہوئے محسوس ہوتا ۔’’نرسام‘‘ سے پورب ہوتے ہوئے ’’نہسا‘‘ اور روپہولی (Rupahuli) کی راہ پر میری بائک سناٹے کو چیڑتے ہوئے تنہا چل رہی تھی۔بائک آگے کو رواں تھی مگر میرے خیالوں کاسفر پیچھے کی طرف گامزن تھا۔سڑک کے کنارے کا ہر چوڑ اور اس کے دونوں طرف کی ہر گاچھی مجھے پینتیس چالیس سال پیچھے لے جارہی تھی۔والدہ کے ساتھ ساتھ اوہار والی بیل گاڑی پر سوار ہوکر ددھیال جانا اور اس کے پیچھے دونوں ماموں میں سے کسی ایک کا سائکل پر سوار رہنا۔کبھی راستے میں گاڑی بان کو روک کر ماموں کی سائکل پر جاکر بیٹھ جانااور کبھی ان کے ساتھ روپہلی(Rupahuli) اور سمری کی ہوٹل پر رک کر چائے پینا غرض بچپن سے لیکر آج تک کے سارے ننھیالی اورددھیالی سفر کے خوب صورت مناظر ذہنی اسکرین پر گردش کر نے لگے۔
’’چندر سین پور‘‘ جی ہاں!یہی وہ سر زمین ہے جہاں راقم نے سب سے پہلے آنکھ کھولی تھی۔عثمان میرے نانا کا نام تھاجب سے ہوش سنبھالا گاؤں میں انھیں صاحب عظمت و جلال ہی پایا۔پولیس محکمے میں ان کی نوکری تھی ،اس لیے ان کے نام کے ساتھ سپاہی کا لاحقہ تادم حیات لگا رہا۔اور جب سے میں نے ہوش کی دہلیز پر قدم رکھا چندرسین پور میں لوگوں کے ذریعے اپنے تعارف میں ”عثمان سپاہی یا سپاہی جی کا ناتی” ہی میری کنیت کے طور پر متعارف ہوا۔دینی حلقوں میں اس وقت مولانا عتیق صاحبؒ، مولانا اہل اللہ صاحبؒ، مولانا زبیر صاحبؒ اور مولانا صابر صاحبؒ کی وجہ سے یہ گاؤں جانا جاتا تھا تو دنیا داروں کے حلقوں میں میرے نانا ”عثمان سپاہی” کی وجہ سے بھی لوگ اس گاؤں کو جانتے تھے۔اللہ نے بڑی دھاک دی تھی ،اطراف کی بستیوں میں بھی ان کا خوب چرچا تھا۔حسین پور،سمری، رہیکا، دبیاہی، کمل پور، ست لکھا،پاٹھک ٹولہ، کھباس ٹولی سمیت آس پاس کی بستی میں تعارف کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ میں عثمان سپاہی کا نواسہ ہوں۔ میری ابتدائی نشو و نما میں اور تعلیمی ترقی و تابانی بھی ان کااور ان کے ساتھ نانی نجم النسا ء کا اہم کردا رہا ہے ۔کئی خوشگوار یادیں ان دونوں کی زندگی سے وابستہ ہیں زندگی اور زمانے نے وفا کی تو انشاء اللہ مستقلاً ان پر قلم اٹھایا جائے گا۔اللہ نے انھیں کئی مذکر مؤنث اولاد سے نواز تھا، لیکن بعد میں چل کر چار اولادہی زندہ رہیں۔پہلی میری والدہ ریحانہ خاتون ہے،دوسری میری خالہ رخسانہ خاتون، الحمدللہ دنیاوی زندگی سے ان دونوںکی روح کا تسلسل قائم و دائم ہے ۔تیسرے نمبر پر شوکت ماموں تھے اور چوتھے نمبر پر قاری محمد علی جوہر فرقانی تھے۔
قاری محمد علی جوہر فرقانی میرے چھوٹے ماموں تھے ۔مدرسہ اشرف العلوم کنہواں سے حفظ قران کی تعلیم حاصل کر کے مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے سند قرات حاصل کی وہ بہترین قاری تھے۔آواز بھی اچھی تھی اور فن قرات پر گرفت بھی کافی مضبوط تھی۔مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں کئی سال استاد رہنے کے بعد کلکتہ کی سرزمین کو آباد کیا۔تقریر و اناؤنسری کی دنیا میں سرزمین کلکتہ میں بڑی شہرت حاصل کی۔ کلکتہ شہر سے کچھ دوری پر واقع ڈاک گھر ضلع چوبیس پرگنہ میں مدرسہ قریشیہ فضل ربانی کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا جہاں کئی سالوں تک بحیثیت مہتمم اپنی ذمہ داری نبھائی ۔اس کے بعد حافظ داؤد صاحب ؒکے مدرسہ محمود العلوم خضر پور میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔تقریباً بارہ سالوں تک حنیف دفتری مسجدماجرہاٹ منٹ کولکاتا میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دیا۔2دسمبر 2021 ء کو ان کی اہلیہ ’’جہاں آرا‘‘ اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں،جس کی جدائی کی تاب وہ نہ لا سکے اور صرف اٹھارہ انیس دنوں کے فاصلے سے 21دسمبر 2021کو وہ بھی راہی ملک بقا ہوگئے۔ وفات سے دو دن قبل دملہ میں ملا قات ہوئی اور وہی آخری ملا قات ثابت ہوئی ۔حافظ عمیر صاحب کے ساتھ کلکتہ کے سفر کے لیے روانہ ہوئے جیسیڈیہ جھارکنڈ کے آس پاس ہارٹ اٹیک ہوااور روح پرواز کرگئی اور بالآخر کلکتہ کا یہی آخری سفر سفر آخرت بھی ثابت ہوا۔ انتہائی متحرک و فعال شخصیت تھے ۔بنگال کی سرزمین پر ملی اور قومی مسائل پر اکابرینِ امت کے ساتھ ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ راقم سے ان کا تعلق بہت ہی مشفقانہ اور مربیانہ رہا۔بہت سے موقعوں پر حسب استطاعت جیب خرچ سے بھی نوازش کی ۔دینی تعلیم کے میدان میں انھوں نے مختلف موقعوں پر رہ نمائی کی،جو بعد میں چل کر ہمارے لیے بہت ہی قیمتی ثابت ہوئے.باضابطہ پہلی تراویح کی جگہ اپنے سسرال اجرا میں انھوں نے ہی متعین کی تھی۔طالب علمی کے زمانے میں جب بھی مالی پریشانی راہ کی دیوار بن کر سامنے آتی اور میں راستہ بدلنے کے لیے من بنانے لگتاان کے حوصلہ افزا جملے پھر مجھے حصولِ علم کے راستے پر گامزن کردیتے۔
شوکت علی میرے پہلے ماموں کا نام تھا۔ان کی زندگی پر شوکت نام کا پورا اثر رہا۔بہت ہی پر شوکت زندگی گزاری ۔سائنس سے ایم اے تھے ۔انگلش فراٹے سے بولتے تھے ۔علم ریاضی اور سائنس میں بھی کافی مہارت تھی ؛لیکن طبیعت میں کچھ ایسی آزادی رچی بسی تھی کہ وہ خود کوکسی سسٹم اور نظام کا پابند نہیں بنا سکے ۔کسی ادارے اور نظام میں رہنے کے لیے کچھ خاص آداب ہوتے ہیں لوگ حاشیہ برداری اور چمچہ گیری تک کر لیتے ہیں، آدمی ضمیر فروشی پر بھی آمادہ رہتا ہے کیونکہ اسے دو وقت کی روزی روٹی اور دو جوڑے کپڑے کی ضرورت ہے؛ لیکن وہ اس میدان میں زیرو تھے بلکہ مائنس میں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔نتیجتاً اپنی قابلیت اور لیاقت کا کوئی بڑا فائدہ حاصل نہ کر سکے ۔انتہائی نڈر اور بے باک قسم کے انسان تھے ۔کبھی کسی سے ڈرتے ہوئے نہیں پایا۔رعب و دبدبہ اپنے والد سے ورثے میں پائی تھی۔ چندرسین پور سے لے کر دملہ تک میں ان کے رعب و دبدبے کا فائدہ مجھے بھی بارہا محسوس ہوا۔بچپن کے زمانے میں بہت لمبا عرصہ وہاں گزرا ہے ۔ٹال گلِّی، کبڈی اور مٹی کے کچے برتن اور گھروندے بنانے کے عہد سے لے کر وسطانیہ، فوقانیہ اور مولوی کے امتحان دینے تک کے زمانے میں کافی لمبا وقفہ ان کی نگرانی میں گزراہے۔ ان کی شادی میں ان کے ڈولی میں بیٹھ کر بارات بھی گیا ہیں۔آم کے زمانے میں ندی والی گاچھی میں آم اگورنے کا کام بھی ان کے ساتھ کیا۔ان کے سائکل پر بیٹھ کر دملہ سے چندر سین پور کا سفر بھی کیا۔زندگی کے مختلف مرحلے میں ان کے ساتھ رہنے کا بارہا اتفاق ہوا۔ان کی زندگی سے جو سیکھنے کا موقع ملا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے اندر منافقت نہیں تھی ۔جن سے انھیں محبت تھی تو باہر سے بھی اور اندر سے بھی ۔اور جن سے نفرت تھی تو بھی ان کا باطن ان کے ظاہر سے الگ نہیں تھا۔سماجی امور میںوہ صلح کل کے بالکل قائل نہیں تھے ۔ان کی رائے میں جو حق ہوتااس کا بر ملا اظہار کرتے اور جو ناحق ہوتا اعلانیہ اس کی نکیر کرتے ۔زبان بے شک کڑوی تھی ؛لیکن دل کے صاف تھے اسی لیے وہ کینہ پرور انسان نہیں تھے۔دل کے غبار کو بہت جلد باہر کر دیتے جس سے ان کی رضااور ناراضگی کا پتہ لگانا بہت آسان تھا ۔ ذاتی طور پر وہ مجھ سے بہت ہی خوش رہے، میری ہر ترقی کی خبر انھیں بے پناہ خوشی عطا کردیتی، سرکاری ملازمت کے حوالے سے جو بھی مقابلہ جاتی امتحان پاس کرتا اور انھیں فون کرتا وہ اچھل جاتے، ٹی ای ٹی، ایس ٹی ای ٹی، نیٹ، پی آر ٹی، پی ایچ ڈی، اور بی پی ایس سی ٹیجر امتحان ہر ایک میں کامیابی کے موقع پر ان کی گفتگو میں جو خوشی میں نے محسوس کی شاید اتنی خوشی میں نے اپنے کسی رشتے دار میں نہیں پائی۔ ایسا لگتا کہ میری کوئی بھی خوش کن خبر ہو چندرسین پور کی ہر مجلس تک نہ پہنچادیں وہ خاموش نہیں بیٹھتے ۔19مئی 2023کو پی ایچ ڈی وائیوا کے موقع پر طبعیت خراب ہونے کے باوجودوہ یونیورسٹی پہنچے، اس دن ان کی خوشی لائق دید تھی ۔کاش ان کی زندگی اور طویل ہوتی اور ان کی مزید حوصلہ افزائی میری مزید ترقی وتابانی کا باعث بنتی۔
شروعاتی بلکہ ادھر آٹھ دس سال قبل تک مذہب کے حوالے سے سے انھیں صرف اس قدر دلچسپی تھی کہ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور گوشت خور تھے اور بس۔ زیادہ سے جمعہ و عیدین کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے ۔باقی اس سے زیادہ نہ وہ مذہب کو جانتے تھے اور نہ ہی اسے اس وقت ان کی تلاش تھی ،عام طور پر وہ مولوی بیزار ہی رہے ؛لیکن ادھر آٹھ دس سالوں میں ان کے اندر جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ میرے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی باعث ِحیرت تھیں، جس تبلیغی جماعت کو و ہ ازکارِ رفتہ مانتے تھے پھر اسی کے دام میں گرفتار ہوگئے.جن مولویوں کو وہ زمانہ ناشناس سمجھ کر کمترمانتے تھے یا پھر انھیں ناکارہ سمجھ کر درخورِاعتنا نہیں سمجھتے تھے پھر انھی سے نماز روزہ کے مسائل پوچھنے لگے ۔نماز کے ایسے پابند بنے کہ تہجد گزار ہوگئے ،اپنی سابقہ لاپرواہ زندگی سے ایسے بے زار ہوئے کہ تلافی مافات کے لیے بقیہ زندگی میں شب بیداربن گئے اور پھر ایسا ہوا کہ رات چاہے جاڑے کی ہو یا گرمی کی آہ سحر گاہی کے لیے نیند ٹوٹ ہی جاتی۔اور پھر آہستہ آہستہ چہرے پر ڈاڑھی بھی رکھنے لگے ۔وہ اردو اور عربی سے ناآشنا تھے ؛لیکن کہیں سے قرآن کا کا ہندی ترجمہ اور تفسیر اٹھا لائے ۔پھر اسی کے مطالعے میں مگن ہوگئے ۔دوران مطالعہ جہاں بھی ذہن کسی خلجان میں مبتلا ہوا فوراً فون اٹھایا اور راقم سے خلجان دور کرنے کی کوشش کی ۔مزاج تقلیدی نہیں تھا اس لیے وہ خود مطمئن ہونے کی کوشش کرتے ۔مفتی اختر امام عادل کی کتاب Islamic Law The Distinguishing Features کو مطالعے میںرکھتے تھے اور اس کتاب کی بڑی تعریف کرتے ۔لاک ڈاؤن میں جب کرونا وائرس کی وجہ سے علماء کرام اور مفتیان دین نے مسجد میں تقلیلِ جماعت کا فتویٰ دیا تو ایک دن انھوں نے بہت ہی غضبناک لہجے میں فون کیا۔ عمرفاروق! تم ہی لوگ کہتے ہو بیماری اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر یہ فتویٰ کیوں ہے کہ مسجد میں دو آدمی تین آدمی آکر نماز پڑھیں۔جماعت میں کثرت سے بیماری پھیلے گی ۔میں نے طے کرلیا ہے کہ چاہے جو کچھ ہوجائے نماز مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ پڑھوں گا۔بھلے ہی پورے چندرسین پور میں پولیس بھر دی جائے مگر میں نماز مسجد ہی میں پڑھوں گا.”پچھلی زندگی کی لاپرواہی اور آج اس قدر استحکام کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی میں سمجھ گیا کہ وحدانیت کا رنگ چوکھا ہوگیاہے ۔میں نے انھیں بتلایا کہ سارے لوگوں کا عقیدہ آپ جیسا مضبوط نہیں ہے،کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کمزور عقیدہ کے حامل انسان ہیں اگر جماعت کی نماز میں شامل ایک شخص بھی اس بیماری کے شکار ہوگئے تو لوگ یہ سمجھیں گے اسی وجہ سے یہ بیماری لاحق ہو گئی ہے اسی لیے طاعون کی شکار بستی کے لوگوں کو باہر جانے اور باہر کے لوگوں کو طاعون زدہ بستی میں جانے سے منع کیا گیا ہے؛لیکن اس کے باوجود وہ پورے لاک ڈاؤن میں مسجد میں باجماعت ہی نماز ادا کرتے رہے ،اس واقعہ سے خلیفہ ٔثانی حضرت عمر کی یاد آجاتی کہ جب ان کے اندر تبدیلی آئی تو انقلابی تبدیلی آئی اور دار ارقم پہنچ کر بے ساختہ کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ کیا ہم حق پر نہیں اور اگر ہم حق پر ہیں تو پھر چھپ کر عبادت کی کیا ضرورت ہے؟اور پھر صحابہ کو ساتھ لے خانہ کعبہ میں جاکر برملا اپنے اسلام کا اعلان کیا۔شوکت ماموں کی جرآت دیکھ کر حضرت عمر کا یہ واقعہ بے ساختہ ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگا۔ان کی آٹھ دس سالہ آخری زندگی میں آئی انقلابی تبدیلیوں ،شب بیداری اور تہجد گزاری کے حوالے سے ان کے دونوں صاحب زادے انور علی حیدر علی، اہلیہ اور محلے کے مسجد کے امام مولانا شبیر اشرف،مقامی علماء اور تبلیغی جماعت کے کچھ ساتھیوں نے جو واقعات نقل کیے ہیں ان سے یہ امید پوری طرح رکھی جاتی ہے کہ اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گاکیوں کہ سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ؐ نے ازمنۂ حیات کی آخری گھڑیوں کو بخشش کے حوالے سے بہت ہی معتبر مانا ہے۔’’الاعمال بالخواتیم‘،وفی روایۃ انماالاعمال بالخواتیم‘‘ اور شاید اسی مژدۂ جاں فزا کے لیے غفار الذنوب اور ستار العیوب نے سفر آخرت پرروانگی کے لیے جمعے کی رات منتخب فرمائی ۔ خدا ان کی قبر کو منور فرماکر جنت نشیں بنائے ۔
انھوں نے نے اپنی بنیادی تعلیم پورنیہ میں حاصل کی۔ بعد میں چل کر TNB کالج بھاگلپور سے بائلوجی میں ماسٹر آف سائنس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 80 کی دہائی میں شارٹ ہینڈ ٹائپسٹ کی حیثیت سے جھنجھار پور ایس ڈی او کورٹ میں جوائن کیا اور پھر چند سال بعد اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ تعلیمی میدان میں، انہوں نے متھلا جنتا کالج مدھوبنی میں لیکچرر کی حیثیت سے بحال ہوئے اور کچھ سالوں کے بعد، انہوں نے اسے بھی چھوڑ دیا اور گولڈن انگلش اسکول کے نام سے اپنا ایک ادارہ قائم کیاجو چندر سین پور کا پہلا پرائیویٹ اسکول ہوا کرتا تھا ۔ تقریباً 3 سالوں تک پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے نیشنل ٹیچر ٹریننگ کالج، اریر مدھوبنی میں کام کیا۔ کچھ دنوں بعد اس سے بھی مستعفی ہوگئے۔ آخر کار انہوں نے مدرسہ اصلاحیہ حنفیہ مقام بلیا تیسی میںسائنس ٹیچر کا عہدہ سنبھالا جو 2024 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ختم ہوا۔ انہوں نے سینکڑوں بچوں کو انگریزی کی تربیت دی اور سی بی ایس ای بورڈ کے طلباء کو بھی پڑھایا۔ان میں سے کچھ تواسکولوں میں استاد ہیںیا انجینئر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔