🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی
سائنس اور ٹیکنالوجی کسی جدید معاشرے کی ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔ کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ مذہب اور سائنس میں تصادم پایا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سائنس مادی ترقی کے لیے ضروری ہے اور مذہب انسانی زندگی میں ایک کثیر الجہتی کردار ادا کرتا ہے، جو دنیا میں ہماری حیثیت کو سمجھنے کا ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ ایک مشہور اردو شاعر نے کہا ہے۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
میرے اپنے تجربے میں، ایک واقعہ یاد آتا ہے جو اس شعر کے پسِ پردہ جذبے کو واضح کرتا ہے۔یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور برسوں پہلے کا ہے۔ میں یورپ کے ایک معروف شہر میں ایک اکیڈمی آف سائنسز کی دعوت پر سفر کر رہا تھا۔ ایک دن، ایک یونیورسٹی کے پروفیسر اور میرے دوست نے مجھے اتوار کے دن ایک چرچ آنے کی دعوت دی، جہاں ایک پادری سائنس اور مذہب پر ایک لیکچر دینے والے تھے۔ چونکہ میں عرصے سے اس موضوع میں دلچسپی رکھتا تھا، میں نے فوراً دعوت قبول کر لی۔اگلے دن میں چرچ گیا اور محترم پادری کا لیکچر سنا۔
انہوں نے Genetic Engineering کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس کے فوائد اور اثرات بیان کیے۔ اپنے لیکچر کے اختتام پر، انہوں نے مذہبی نقطہ نظر سے واضح کیا کہ اس موضوع کی ترقی، اور حقیقت میں تمام سائنسی علوم کی ترقی بالکل ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس اور مذہب میں کوئی تصادم نہیں ہے۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک مذہبی عالم اتنی دقیق سائنسی معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ اگلے دن میں نے اپنے پروفیسر دوست سے اپنی حیرانی کا اظہار کیا۔ وہ مسکرائے اور بتایا کہ وہ پادری اصل میں زوالوجی میں ڈاکٹریٹ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر یورپی ممالک میں تقریباً نصف چرچ کے پادریوں کے پاس کم از کم سائنس میں ڈگری ہوتی ہے اور ان میں سے بہت سے پوسٹ گریجویٹ یا پی ایچ ڈی کی سند رکھتے ہیں۔ باقی نصف دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں جو فلسفہ، تعلیم، اور دیگر جدید مضامین میں مہارت رکھتے ہیں۔ میرے دوست نے مزید وضاحت کی کہ انہی قابلیتوں کی بنا پر وہ اپنے چرچ سے منسلک کالجوں اور اسپتالوں کو چلانے کے قابل ہوتے ہیں۔ان کی یہ وضاحت میرے لیے حیرت انگیز تھی۔ میری حیرانی پر انہوں نے کہا جو کچھ ہم آج کر رہے ہیں، وہ دراصل ابتدائی اسلامی دور کی روایت تھی، جب مختلف سائنسی موضوعات میں عظیم پیش رفت ہوئی تھی۔ اس دور میں اسلامی اسکالرز نے ریاضی، فلکیات، طب، کیمیا اور دیگر شعبوں میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ وہ دور حقیقتاً سائنسی ترقی کا ایک سنہری دور تھا۔۔میں اپنے پروفیسر دوست کی ان باتوں سے بے حد متاثر ہوا، جو میں کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ میں نے سوچا کہ شاید مغرب کی ترقی کا راز اس حقیقت میں مضمر ہے کہ وہاں مذہبی علم اور دنیاوی علم میں کوئی علیحدگی نہیں ہے۔
کسی بھی قوم یا خطے کا عروج یا زوال براہِ راست اس کی سائنسی علم کو دی جانے والی اہمیت سے وابستہ ہے۔ جیسا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے بجا طور پر مشاہدہ کیا:”سولہویں صدی کے بعد، مغرب نے مشرق کے قرون وسطیٰ کے طرزِ فکر کو اپنایا اور علم کی قدر کو تسلیم کیا، جبکہ مشرق نے دنیاوی علوم کو مذہب کے خلاف سمجھ کر نظرانداز کر دیا، جس کی وجہ سے وہ زوال کا شکار ہوا اور مغرب ترقی یافتہ ہو گیا۔” یہ بات فراموش کرنا مشکل ہے کہ قدیم یونانی سائنسدانوں نے، جنہیں پرانے نظریات کو رد کرنے پر زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا، نئے تصورات متعارف کرائے۔ اسی طرح، قرونِ وسطیٰ کے عرب سائنسدانوں نے سائنس کو ایک ایسی شکل دی جو بعد میں نئی دنیا کی بنیاد بنی۔ تاریخ میں پہلی بار، ان اسکالرز نے مذہب اور سائنس کو ایک ہی چھت کے نیچے یکجا کر کے دنیا کو دکھایا کہ انسانی فلاح کے لیے کی جانے والی سائنسی ترقی درحقیقت ایک مذہبی خدمت ہے۔ اس طرح، انہوں نے مذہب اور سائنس کے کسی بھی ممکنہ تصادم کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔جب میں جدید دور کے دانشوروں کے بارے میں سوچتا ہوں، تو مجھے سرسید احمد خان کا ایک خط یاد آتا ہے، جو انہوں نے انگلینڈ سے اپنے ایک دوست کو لکھا تھا۔ اس میں انہوں نے انگلینڈ کی سائنسی ترقی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اتحریر فرمایاکہ: اگر میری اپنی قوم کے نوجوان انگریزوں سے کچھ سیکھ پاتے، جو مسلسل سائنسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، تو ہمارے حالات بھی بہتر ہوتے۔ یہاں فرقہ وارانہ اور نسلی اختلافات کا کوئی وجود نہیں ہے اگر ہماری قوم انیسویں صدی میں سرسید کی اس سوچ کو اپنا لیتی، تو برصغیر میں غربت اور جہالت ختم ہو چکی ہوتی۔عصرِ حاضر کے مفکرین میں علامہ اقبال کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی یورپ کی سائنسی ترقی سے متاثر ہو کر اپنی قوم کو جدید علوم کی اہمیت کا احساس دلاتے رہے۔ انہوں نے فرمایا۔
اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا
ہے خون فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نشتر
اسی خیال کو دہراتے ہوئے، مولانا ابوالحسن ندوی نے ایک موقع پر کہا کی جب مذہب کو علم، خاص طور پر سائنسی علم کا مخالف سمجھا جانے لگے، تو اقوام زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ لیکن جب مذہب، علم، اور حکمت ہم آہنگ ہو جائیں اور ایک دوسرے کے معاون بن جائیں، تو قومیں عروج حاصل کرتی ہیں۔۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی معاشرتی ترقی کے ستون ہیں، جو ہر شعبے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور معیارِ زندگی کو بہتر بناتے ہیں۔ تاہم، سائنسی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سائنسی مزاج رکھنا بھی نہایت اہم ہے۔ سائنسی مزاج ایک ایسا ذہنی رویہ ہے جو سمجھ بوجھ اور استدلال کی روشنی میں آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے۔قرآن میں کئی آیات ہیں جو تحقیق، مشاہدے، اور غور و فکر کی ترغیب دیتی ہیں، جیسے کہ ۔
۔آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں ۔(یونس: 101)۔
بے شک، آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات و دن کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران: 190)
ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن سائنسی تحقیق اور غور و فکر کو فروغ دیتا ہے، جو اسلامی دنیا میں سائنسی ترقی کی بنیاد بنا۔اب وقت آ چکا ہے کہ ماضی کے فخر میں کھو جانے یا پرانی تباہیوں پر نوحہ کرنے کے بجائے، اپنے حال کا تجزیہ کریں اور سائنسی ترقی کے ذریعے اپنے مستقبل کو روشن بنائیں۔
اقبال نےکہا ہے
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے،ہونے والا ہے،
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں۔
سائنس اور سائنسی مزاج کی مدد سے ہم سائنسی ترقی کو جستجو اور عقلی فکر کے جذبے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے، ہم ایک ایسے مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں جو خوشحال اور روشن دونوں ہونگے