“شیش محل”سے شکست تک: اروند کیجریوال کی سیاست کا زوال

🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

چاند اور تارے

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین  (اکولہ،مہاراشٹر)

بھارت کی جمہوری تاریخ میں ایک اور باب رقم ہو چکا ہے، جس کے اثرات نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک کی سیاسی فضا پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بی جے پی نے 27 سال کے طویل انتظار کے بعد دہلی میں فتح کا پرچم لہرایا، جب کہ عام آدمی پارٹی کو ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا جو نہ صرف سیاسی ناکامی بلکہ اخلاقی بحران کی بھی علامت ہے۔ یہ صرف ایک انتخابی معرکہ نہیں، بلکہ عوامی شعور کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس میں خواب، امیدیں اور احتساب کی لہر شامل ہے۔

بی جے پی کی اس کامیابی کے پس پردہ دہلی کے عوام کی ایک گہری بیزاری پنہاں تھی، جو عام آدمی پارٹی کی حکومت کے غیر عملی اقدامات کے سبب پروان چڑھتی گئی۔ 2013 میں انقلابی سیاست کے طور پر ابھرنے والی اے اے پی کا آغاز جس جوش و خروش کے ساتھ ہوا تھا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ مدھم ہوتا چلا گیا۔ گورننس کے وعدے، شفافیت کے دعوے، اور عوامی بہبود کے منصوبے سب وقت کی گرد میں کھو گئے۔ نالیوں کی صفائی، فضائی آلودگی پر قابو، یمنا دریا کی بحالی، یہ سب وہ نکات تھے جن پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا گیا۔ بی جے پی نے انہی کمزوریوں کو اپنی مہم کی بنیاد بنایا اور دہلی کو عالمی معیار کا شہر بنانے کا عزم دہرایا، جب کہ کیجریوال کے طرزِ حکمرانی کو “بے بنیاد دعووں” کا پلندہ قرار دیا۔

دہلی کے متوسط طبقے، جو سیاسی منظرنامے کا حقیقی معمار ہے، نے اس انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بی جے پی نے انہیں ٹیکس میں چھوٹ، بہتر روزگار، اور معیاری زندگی کے وعدوں سے اپنی طرف مائل کیا، جب کہ اے اے پی کی فلاحی اسکیموں کو “عارضی سہولت” اور “انتخابی چالاکی” قرار دیا گیا۔ بی جے پی نے ایک ایسی سیاست کو فروغ دیا جو مفت مراعات کے بجائے خود انحصاری اور ترقی پر مبنی تھی۔ یہی وہ حکمت عملی تھی جس نے دہلی کے ووٹرز کو لبھایا اور بی جے پی کی جیت کی راہ ہموار کی۔

اروند کیجریوال کی ناکامی کا ایک اور اہم سبب ان کی قیادت کا بحران تھا۔ جب ان کے کلیدی رفقا، مانیش سسودیا اور ستیندر جین، قانونی گرفت میں آئے، تو پارٹی کا ڈھانچہ کمزور ہو گیا۔ کیجریوال کا جیل سے انتخابی مہم چلانا عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی ایک کوشش تھی، مگر عوام نے اسے “ڈرامہ بازی” سمجھا۔ اس کے برعکس، بی جے پی نے مقامی قیادت کو مضبوط کیا اور پرویش ورما جیسے عوامی نمائندوں کو آگے بڑھایا، جو دہلی کے زمینی مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔

بی جے پی کی اس شاندار کامیابی میں آر ایس ایس کے زمینی کارکنوں کا کردار بھی نمایاں رہا۔ گھر گھر جا کر بی جے پی کے نظریات اور پالیسیوں کو عام کیا گیا، اور ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ووٹرز کو قائل کیا گیا۔ یہ مہم کسی نعرے یا اشتہار تک محدود نہیں تھی، بلکہ ایک فکری انقلاب کی صورت میں متعارف کروائی گئی تھی۔

دوسری جانب، اپوزیشن کی تقسیم نے بھی بی جے پی کے لیے آسانی پیدا کی۔ اگر کانگریس اور اے اے پی متحد ہو جاتے، تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے، مگر اختلافات کے باعث اپوزیشن کی طاقت منتشر ہو گئی۔ اس تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی نے اٹھایا اور دہلی سمیت دیگر ریاستوں میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا۔

اروند کیجریوال کی شخصیت پر اٹھنے والے سوالات بھی ان کی شکست کی ایک بڑی وجہ بنے۔ جو رہنما کبھی سادگی اور دیانت داری کی علامت سمجھا جاتا تھا، وہ اب “پرتعیش سیاستدان” کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ 33 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر شدہ “شیش محل” عوامی غصے کا مرکز بن گیا۔ عوام نے محسوس کیا کہ جو شخص کبھی عام آدمی کے حق کی بات کرتا تھا، وہ اب خود ایک اشرافیہ کا حصہ بن چکا ہے۔ بی جے پی نے اس موقع کو نہایت مؤثر طریقے سے استعمال کیا اور کیجریوال کی شخصیت کو عوامی نظروں میں مشکوک بنا دیا۔

انتخابی مہم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ بی جے پی نے مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار کردہ ویڈیوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان ووٹرز کو متوجہ کیا، جب کہ اے اے پی کی مہم پرانی روایتی حکمت عملیوں میں الجھی رہی۔

یہ انتخاب بھارتی سیاست میں ایک واضح پیغام چھوڑ گیا ہے: عوام اب صرف وعدوں پر نہیں، بلکہ عملی اقدامات پر فیصلہ کرتے ہیں۔ بی جے پی نے اپنی فتح کو “مودی کی گارنٹی” کے ساتھ جوڑا، جو عوام کے لیے ایک قابل اعتماد نعرہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف، اے اے پی اور کانگریس جیسے حریف جماعتیں اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کے بغیر مستقبل میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہیں گی۔

اگر اپوزیشن اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے ایک متحدہ حکمت عملی اختیار نہیں کرتی، تو بھارت کا جمہوری نظام ایک یکطرفہ سیاست کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، بی جے پی کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ عوامی اعتماد ایک امانت ہے، جسے برقرار رکھنا ہی اصل چیلنج ہوتا ہے۔ دہلی کی یہ جیت ایک نیا آغاز ہے، جس کے اثرات آئندہ انتخابات میں مزید گہرے ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اروند کیجریوال اپنی غلطیوں سے سیکھ کر واپس آ سکیں گے، یا دہلی میں بی جے پی کی حکمرانی کا نیا سورج طلوع ہو چکا ہے؟

Related Posts

آگیا رمضان ہے

ہو گیا ہم پے خدا کا پھر بڑا احسان ہےمل گیا اس سال پھر سے جو ہمیں رمضان ہے اس مہینے میں ہیں اتری آسمانی اور کتباس مہینے میں ہی…

Read more

وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور بہارکی ترقی

ابوالکلام ، دربھنگہ بہار وزیر اعلیٰ نتیش کمار بہار کی سیاست میں ایک نمایاں اور مؤثر شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنی قیادت میں ریاست کی ترقی اور خوشحالی کے لیے…

Read more

آپ وہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں

سیما شکور، حیدر آباد اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ ایک کامیاب انسان ہیں تو واقعی آپ ایک کامیاب انسان ہیں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کی…

Read more

بیسویں صدی کےنامور مسلمان مصلحین

از:ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقیڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل بوٹینیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، حکومتِ ہند، لکھنؤ مسلم دنیا میں کئی صدیوں تک فکری زوال اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے طویل نیندکے…

Read more

اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کیجئے

ام سلمہجمالپور، دربھنگہ تعلیم اور تربیت کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ ایک معاشرہ اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے…

Read more

جو راستہ تم نے چُنا ہے…؟

سیما شکور، حیدر آباد جو راستہ تم نے چُنا ہے… وہاں خار تو ہوں گے، کیونکہ یہ راستہ سچائی کا راستہ ہے، یہ راستہ ایمانداری کا راستہ ہے۔ تم تو…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *