!…کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

حاجی محمد حنیف

اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خان دانوں میں پیدا کیا۔اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے تفاوت (فرق) رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، لیکن ربّانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر یا نادان انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا۔مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشہ میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب مفلس، مسکین اور بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندق کھودی، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، کئی ہفتوں کھانا بنانے کے لے کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔ (العلل المتناہیۃ)حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکو کا ر کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔‘‘ (بخاری)حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو نصیحت فرمائی، مفہوم: ’’اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازیں گے ۔‘‘ (ترمذی)مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طلب گارو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *