مولانا ڈاکٹر سجاد احمد ندوی
ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ ہی سے زرخیز رہی ہے ۔ یہاں کے سپوت ہر میدان اور ہر جگہ اپنے جوہر اور کمال دکھاتے رہے ہیں ۔ حضرت مولانا نابغۂ روزگار اور عبقری شخصیتوں میں سے
ایک تھے ،اور بیسوی صدی کے ایک ممتاز عالم دین اور صاحب دل تھےجس نے اپنی رووشن ضمیری اور بلند نگاہی سےنہ صرف ملت اسلامیہ ہند یہ کو بلکہ پورے عالم اسلام اور عالم انسانیت کو جگایا ۔ جس نے عرب و عجم کو مسلسل ایک ہی پیغام دیاکہ اسلام میں تمام پریشانیوں کا حل اور جملہ امراض کا علاج ہے ۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمت اللہ علیہ ایک جامع اور ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ وہ ایک عالم دین کے ساتھ بڑے ادیب داعی، اور مفکر تھے آپ کا نام سنتے ہی ہر شخص اپنے دل میںبے پناہ عقیدت و محبت محسوس کرنے لگتا آپ کی شخصیت ایسی دلنواز ،پرسوز اور پرکشش تھی کہ ہر شخص ان کو اپنا تسلیم کرتا تھا ۔ اپنی ذات میں آپ ایک انجمن تھے ۔ زہدو استغنا ء اور تقوی و طہارت میں اکابر و اسلاف کی یاد گار تھے ۔
مولانا علی میاں ؒنے ایک مرد مومن کی پاکیزہ زندگی کا عملی ،سچا اور جیتا جاگتا نمونہ پیش کیا ۔ وہ عالم ربانی بھی عارف بھی اور مصلح بھی تھے ۔ مفکر اور مورخ بھی ۔ معلم اور محقق بھی تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں ہندوستان کے کئی دور دیکھے آزادی کی تحر یک سے لے کر ملک کی تقسیم تک ملت اسلامیہ پر ٹوٹنے والے مظالم سے لے کر ہولناک فسادات کے لا متناہی سلسلہ تک ،ثقافتی وسیاسی یلغار سے لے کرحقوق سے محرومی تک ہر طرح کے نشیب و فرازسے دو چار ہوتے رہے ۔ ایک پر ایک فتنے اور اور مسائل سر اٹھاتے رہے ۔ قومی دھارے کا فتنہ یکساں سول کوڈ کا فتنہ، وندے ماترم کا فتنہ ، اقلیتوں کو دہشت زدہ کرنے کا فتنہ ، لیکن حضرت مولانا ؒ پوری طاقت اور پا مردی کے ساتھ ملت اسلامیہ اور اٹھنے والے طوفانوں کے درمیان ایک مضبوط چٹان بن کر کھڑے رہے اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لئے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہے ۔ وہ اپنی پوری زندگی ہندوستانی مسلمانوں کی دینی حالت کو بہتر بنانے اور سدھارنے میں لگے رہے حضرت مولانا ؒ قوموں کے عروج و زوال ، مسلمانوں کےتنزل و انحطاط کے دنیا پر مرتب ہونے والے اثرات کے موضوع پر گہری نظر تھی ۔ موجودہ زندگی میں خرابیوں اور بیماریوں ااور موجودہ عہد کے انسان کی نبض پر مولانا کی انگلیاں مسلسل رہتیں ۔
اسی بنا پر وہ مغرب ہو یا مشرق ہر جگہ اصل مرض اور بیماری کی نشاندہی اور تشخیص ہمیشہ صحیح سمت میں اور بر وقت کیا کرتے اس لئے آج بھی ان کی تحریروں اور خطبوں میں عیاںنظرآتی ہیں جو انہوں نے اپنی زندگی میں پیشن گوئیاں کی تھیں حضرت مولانا علی میاں کی علمی و ادبی ،تحقیقی و تصنیفی خدمات کا ثبوت ہزاروں صفحات پر مشتمل عربی و اردو کی وہ تقریریں ہیں جن میں وہ انسانی زندگی کے ہر موضوع اور پہلو کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان کے وہ سیکڑوں مقالات و خطوط ہیں جن میں وہ انسانی زندگی کے عروج و کمال ، سعادت و فلاح کے راز بتاتے ہیں ۔ ان کی وہ بیش قیمت تصنیفات و تالیفات ہیں جو اسلامی تاریخ ، اسلامی تہذیب ، اسلامی ادب اور اسلامی معرفت پر مشتمل ہیں ۔وہ سفر اورحضر میں ہر جگہ یہی پیغام دیتے رہے
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرانہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
وہ خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے اس لئے خدا وندقدوس نے ان کی عزت ومقبولیت عوام و خواص میں احترام و اکرام سے نوازا وہ نہ صرف معمار ملت تھے بلکہ وہ اپنی ملکوتی خصوصیات کی بنا پر جو انہیں بزرگوں کی توجہات و فیوض اور نسبت کی برکت سے حاصل ہوئی تھیں ۔پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کا نام آتا ہے تو احترام و عقیدت و محبت کا سمندر موجیں مارنے لگتا ہے ۔ مولاناؒ صرف بر صغیر بلکہ عالم اسلام کی ایک ایسی بلند و بالا شخصیت تھیں جو اپنے علم و فضل ، فکرروشن ، گداز قلب ، پاکیزہ سیرت اور دلنوازی کی وجہ سے محبوب خاص عام تھے۔ مولانا مفکر بھی تھے، مصنف بھی تھے ،مورخ بھی تھے ،مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒآج ہمارے درمیان نہیں ہیں وہ عالم فنا سے عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے لیکن ان کی بلند پرواز روح ان کے نقوش حیات اور ان کے آثار زندگی ہم سے بہ زبان حال کہہ رہے ہیں کہ تم بھی اپنے اندر جو ہر پیدا کر و ۔ اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو اور اپنے بلند عزم و حوصلہ کو اجاگر کرو اور دربار عالی سے آہ سحر گاہی کی سوغات حاصل کر ۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے بے آہ سحر گاہی
مولانا کے چند معرکۃ الآرا تصنیفات مندرجہ ذیل ہے :
تاریخ دعوت وعزیمت ، آئندہ نسلوں کےلئے اسلام ضمانت، اسلامی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ، امت مسلمہ کی دہری ذمہ داریاں ، انسانیت کی صحیح گرہ کشائی ، اورنبئی رحمت اسلام ایک مکمل دین مستقل تہذیب ، امت مسلمہ کا فرض منصبی انکے انقلابی اثرات، نقوش اقبال ، پاجا سراغ زندگی ، پرانے چراغ ، حکومت کی تبدیلی سے سبق آئندہ کےلئے صحیح طریقہ کار ، جب ایمان کی بہار آئی ، طالبان علوم نبوت کا مقام اور انکی ذمہ داری ، صحبت با اہل دل ، یہ تصنیفات ایسی ہیں جو لوگوں کے قلوب میں نئی روح پھو نکنے کا کام کرتی رہیںگی اور ان کی تحریریں آج بھی زندہ و تابندہ ہے ۔اور عربوں نے ان کی کتاب پڑھ کر عربی زبان میں مزید مہارت حاصل کی اللہ تعالی نے ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا اور خانہ کعبہ کی چابی بھی دی گئی ۔ بلکہ یہ کہاجائے تو بہتر ہوگا کہ شاہ ولی اللہ ؒ کی آخری کڑی تھے ۔
22رمضان المبارک 1420(31دسمبر1999ء)بروز جمعہ سورہ کہف کی تلاوت کرتے ہوئے اپنے حالق حقیقی سے جاملے ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔
مولانا ڈاکٹر سجاد احمد ندوی
9934287655