ڈاکٹرمنموہن سنگھ : خاموش انقلاب کے معمار

ڈاکٹر محمّد عظیم الدین
(مہاراشٹر، اکولہ)
کچھ لوگ تاریخ کے اوراق میں یوں اترتے ہیں جیسے خاموشی سے صبح کی پہلی کرن دھرتی پر آتی ہے؛بے آواز، مگر ہر ذرے کو اپنی روشنی میں نہلا دینے والی۔ منموہن سنگھ بھی ان شخصیات میں سے تھے جو بلند آواز نہیں، بلکہ اپنے اعمال کی صدا سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا وجود سیاست کے شوریدہ سمندر میں ایک پرسکون جزیرہ تھا، مگر اس جزیرے کے افق سے اٹھنے والی روشنی نے پورے بھارت کے بخت کو منور کر دیا۔ایک ایسا مردِ درویش جس کی آواز کم، مگر عمل کی گھن گرج فلک تک گونجتی تھی۔ اگر سیاست کو ایک معرکہ سمجھا جائے تو منموہن سنگھ وہ سپاہی تھے جنہوں نے تلوار نہیں اٹھائی، مگر ان کے قلم کی جنبش نے قوموں کی تقدیر بدل دی۔
یہ داستان کسی ایک لمحے یا ایک فیصلے کی نہیں، بلکہ دہائیوں پر محیط اس سفر کی ہے جس نے ہندوستان کے مستقبل کو سنوارا۔ یہ قصہ ہے اُس شخص کا جس کی آنکھیں کتب کی روشنی سے منور تھیں، جس کے خیالات کی گہرائی بحرِ ہند کی وسعتوں کو مات دیتی تھی، اور جس کے الفاظ بھلے ہی نرم تھے، مگر ان میں فولاد کی سی کاٹ تھی۔
منموہن سنگھ کی پیدائش 26 ستمبر، 1932ء کو برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان)کے پنجاب کے گاہ میں ہوئی ۔ جہاں زندگی کی سادگی اور فطرت کی قربت ان کے ہمزاد کی طرح تھی۔ تقسیمِ ہند نے ان کے خاندان کو نئی سرزمین کی طرف دھکیل دیا، مگر ان کے ارادے کی روشنی کبھی مدھم نہ ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر کیمبرج اور آکسفورڈ کی عظیم درسگاہوں میں علم کے چراغ روشن کیے۔ وہاں انہوں نے معاشیات کی جس باریک بینی سے آبیاری کی،جو بعد کے ہندوستان کی اقتصادی سرزمین پر خوشبو بن کر چھاگئی۔
منموہن سنگھ کا سفر ایک استاد سے شروع ہوا، جہاں وہ پنجاب یونیورسٹی اور دہلی اسکول آف اکنامکس میں طالب علموں کو نئی دنیا کے خواب دکھاتے تھے۔ مگر خواب صرف دکھائے نہیں جاتے، انہیں حقیقت کا لباس بھی پہنانا ہوتا ہے۔ یہی سوچ انہیں اقوامِ متحدہ کے معاشی اداروں اور پھر ریزرو بینک آف انڈیا تک لے آئی۔ وہاں وہ ہندوستان کی دھڑکن کو اپنے ہاتھوں میں محسوس کرتے رہے۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی معیشت زوال کے اندھیروں میں گھٹنوں کے بل گری ہوئی تھی۔ خزانہ خالی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ کر صرف چند ہفتوں کے رہ گئے تھے۔ ہر طرف ناامیدی اور بحران کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ایسے میں منموہن سنگھ کا اٹھنا گویا کسی صحرا میں بارش کے پہلے قطرے کے مانند تھا۔ انہوں نے نہ تو جذبات کے بادل برسائے، نہ عوامی جلسوں میں جوشیلے نعرے لگائے، نہ ہی عقل کو حیران کرنے والے بڑے بڑے دعوے کیے۔ وہ آئے، دیکھا، پرکھا ،اور اپنی حکمت سے ہندوستان کی معیشت کی تقدیر بدل کر اس کو اس نہج پر پہنچایا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔انہوں نے وہ فیصلے کیے جو تاریخ کے صفحات پر بہادری سے نقش ہیں۔ اقتصادی اصلاحات، نجکاری، اور عالمی منڈیوں کے دروازے کھولنے کے جراتمندانہ اقدامات نے بھارت کو اس زوال کی کھائی سے نکالا، جہاں معیشت دم توڑ رہی تھی۔
یہ اصلاحات کسی معرکہ آرائی سے کم نہ تھیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بھارت کے دروازے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھلے اور عالمی طاقتیں بھارت کی جانب دیکھنے لگیں۔ مگر ان تمام اقدامات کے پیچھے جو قوت کار فرما تھی، وہ منموہن سنگھ کی علمی بصیرت، سیاسی حکمت اور اقتصادی سوجھ بوجھ کی مرہون منت تھی۔
2004ء میں کانگریس نے الیکشن میں زبردست فتح حاصل کی اور سونیا گاندھی نے وزارت عظمیٰ سے دستبرداری اختیار کی، تب سب کی نگاہیں منموہن سنگھ پر جا ٹکیں۔ ایک ایسا شخص جس کے پاس نہ تو کوئی خاندانی سیاسی وراثت تھی، نہ ہی عوامی مقبولیت کے سیلاب، مگر پھر بھی وہ اقتدار کے اس سنگھاسن پر براجمان ہوا جہاں پہنچنے کے خواب بڑے بڑے سیاستدان بھی دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
منموہن سنگھ کا طرزِ سیاست ایک خاموش ساز کی مانند تھا جس میں شور نہیں، مگر ہر ساز میں ایک انقلاب پوشیدہ تھا۔ ان کا ایک ایک فیصلہ کسی گہری سوچ کا عکس تھا، جیسے کوئی شاعر اپنے کلام کے ہر لفظ کو محبت اور مشقت سے تراشتا ہے۔ وہ وزیر خزانہ بنے تو لگتا تھا کہ ہندوستان کی معیشت کو ایک ایسا استاد نصیب ہوا ہے جو اسے نئی راہیں دکھائے گا۔ ان کے اصلاحاتی فیصلے نہ صرف معیشت بلکہ قوم کے اعتماد کی بحالی کا پیغام تھے۔اور جب وہ وزیر اعظم بنے تو یوں لگا کہ ہندوستان کی قیادت کسی حکیم کے ہاتھوں میں آ گئی ہو۔ منموہن سنگھ نہ تو جذباتی تقاریر کے قائل تھے اور نہ ہی بے مقصد وعدوں کے۔ ان کے نزدیک ترقی صرف بلند و بانگ دعوؤں میں نہیں بلکہ خاموش مگر مستقل عمل میں پوشیدہ تھی۔
منموہن سنگھ نے دو مرتبہ بھارت کی قیادت سنبھالی اور اپنے طرزِ حکومت سے یہ ثابت کیا کہ قیادت صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ عمل کی سرگوشی ہے۔ ان کے دور میں بھارت نے اقتصادی ترقی کی وہ رفتار پکڑی کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ دیہی ترقی، تعلیم، اور صحت کے شعبوں میں ان کی پالیسیوں کے مثبت اثرات نے کروڑوں ہندوستانیوں کی زندگیوں میں روشنی کی کرن بن کر سرایت کیا۔
ان کا دورِ اقتدار یوں گزرا جیسے کوئی دریا بہتا ہے؛ نہ آواز، نہ ہنگامہ، مگر ہر لمحہ زمین کو زرخیزی عطا کرتا ہے۔ وہ ان سیاست دانوں میں سے نہ تھے جو اقتدار کے ایوانوں میں رہ کر خود کو بادشاہ سمجھتے ہیں۔ ان کے وجود میں عاجزی تھی، ان کے عمل میں انکساری تھی اور ان کے خیالات میں وسعت تھی۔
منموہن سنگھ کے کردار کی سب سے منفرد بات ان کی سادگی اور دیانت تھی۔ وہ نہ تو محلوں میں رہے، نہ ہی اقتدار کا غرور کبھی سر چڑھ کر بولا ۔ وہ وزیر اعظم کے عہدے پر بھی اسی طرح تھے جیسے ریزرو بینک کے گورنر یا اقوامِ متحدہ کے مشیر؛خاموش، مگر ہر لمحہ متحرک۔ وہ کہتے تھے کہ قیادت کا مطلب خدمت ہے، اور وہ خدمت انہوں نے بنا کسی صلے کے انجام دی۔منموہن سنگھ کی زندگی ایک آئینہ تھی جس میں سیاستدان اپنے چہروں کو دیکھ سکتے ہیں، مگر ان جیسا کردار اپنانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی ایک شاعر کی مانند تھے، جن کے فیصلے شعر کی صورت میں صفحۂ ہستی پر ثبت ہو گئے۔
ان کی وفات 26 دسمبر 2024ء کو 92 برس کی عمر میں ہوئی۔ مگر وہ نہ تو وقت کی قید میں آئے اور نہ ہی موت کے ہاتھوں معدوم ہوئے۔ ان کے فیصلے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے ہر زاویے میں زندہ ہیں۔ آج ہندوستان کا ہر آسمان چھوتا ہوا کاروبار، ہر ترقی پذیر منصوبہ، اور ہر روشن چہرہ منموہن سنگھ کے خاموش انقلاب کا آئینہ دار ہے۔
تاریخ کے سنہری صفحات میں منموہن سنگھ کا نام ان چند لوگوں میں شمار ہوگا جنہوں نے تاریخ کے اوراق پر اپنے نشان شور سے نہیں بلکہ سکوت سے چھوڑے۔منموہن سنگھ اس سکوت کا نام ہے جس کے اندر طوفان پوشیدہ تھا۔ ان کا ہر فیصلہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اگر قیادت کے سینے میں دل ہو اور ہاتھ میں تدبر کا چراغ، تو قومیں ہمیشہ ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ ان کی یادیں، ان کے کارنامے اور ان کا فلسفہ ہندوستان کے سیاسی اور اقتصادی مستقبل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ان کے جانے کے بعد بھارت کی سیاست میں ایک خلا ہے جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ایسے لوگ چراغوں کی طرح ہوتے ہیں، جو خود جل کر راستے دکھاتے ہیں۔ اور جب وہ چراغ بجھتا ہے تو اس کی روشنی برسوں تک سفر کرتی ہے۔ منموہن سنگھ بھی ایک ایسا ہی چراغ تھے۔
از قلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (مہاراشٹر، اکولہ)
Mobile: 8275232355
Email: journalisturdu@gmail.com

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *