ہندوستانی سیاست کا خاموش ستارہ بجھ گیا

مولانا محمد نعمان رضا علیمی

ڈاکٹر منموہن سنگھ، ہندوستان کے چودہویں وزیر اعظم، ایک ایسی شخصیت تھے جنہیں بجا طور پر دانشور، محقق، اور ماہر معاشیات کہا جاتا ہے۔ ان کی وفات نہ صرف بھارت بلکہ عالمی سطح پر دانشوری اور قیادت کے ایک بے مثال باب کا خاتمہ ہے۔ اپنی سادگی، علمی بصیرت، اور غیر متزلزل عزم کے لیے یاد کیے جانے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 22 مئی 2004 سے 26 مئی 2014 تک ملک کی قیادت کی اور ان کے دور حکومت کو ترقی، استحکام، اور بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کے لیے یاد رکھا جائے گا۔

ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر : ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پیدائش 26 ستمبر 1932 کو غیر منقسم ہندوستان کے پنجاب میں ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت منتقل ہوا، جہاں انہوں نے 1948 میں پنجاب یونیورسٹی سے اپنی میٹرک کی تعلیم مکمل کی۔ ان کا علمی سفر انہیں کیمبرج یونیورسٹی لے گیا، جہاں انہوں نے 1957 میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ معاشیات میں ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں، انہوں نے 1962 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے نیو فیلڈ کالج سے ڈی فل کی ڈگری مکمل کی۔ ان کی تصنیف “انڈیاز ایکسپورٹ ٹرینڈز اینڈ پروسپیکٹس فار سیلف-سسٹینڈ گروتھ” ان کی علمی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پیشہ ورانہ خدمات اور نمایاں کارنامے : ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پیشہ ورانہ زندگی تدریس سے شروع ہوئی، جہاں وہ پنجاب یونیورسٹی اور دہلی اسکول آف اکنامکس میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے یو این سی ٹی اے ڈی سیکرٹریٹ میں خدمات انجام دیں اور جنیوا میں ساؤتھ کمیشن کے سکریٹری جنرل کے طور پر بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ 1971 میں انہوں نے بھارتی وزارت کامرس میں مشیر معاشیات کے طور پر شمولیت اختیار کی اور بعد ازاں وزارت خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن، اور ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر جیسے اہم مناصب پر فائز رہے۔

معاشی اصلاحات اور وزارت عظمیٰ کا عہد : 1991 میں، ملک ایک شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا، جس کے دوران انہوں نے لبرلائزیشن، نجکاری، اور عالمگیریت کی پالیسیوں کا آغاز کیا، جو آج بھی بھارت کی معاشی ترقی کی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔ ان کی پالیسیوں نے بھارت کو ایک آزاد معیشت کی راہ پر گامزن کیا، جو آج عالمی سطح پر اپنی طاقت کا مظہر ہے۔ 2004 میں وزیر اعظم بننے کے بعد، انہوں نے ملک کو جدید معیشت کی طرف لے جانے میں کلیدی کردار ادا کیا، اور ان کے دورِ حکومت میں دیہی روزگار کی اسکیم منریگا اور حقِ تعلیم جیسے اقدامات نے بھارت کے عام شہریوں کی زندگی میں بہتری لائی۔

عزازات اور بین الاقوامی خدمات : ڈاکٹر منموہن سنگھ کو متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا، جن میں پدم وبھوشن (1987)، آدم اسمتھ انعام (1956)، اور فائننس منسٹر آف دی ایئر شامل ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھارت کی نمائندگی کی اور انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس سمیت کئی اہم اجلاسوں کی قیادت کی۔

سادگی، اصول پسندی، اور شخصیت : ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ان کی سادگی، ایمانداری، اور اصولوں کی پیروی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے، جہاں طاقت کے حصول کی بجائے عوامی خدمت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کی سادگی اور اصول پسندی نے سیاست میں ایک منفرد معیار قائم کیا، جو انہیں ایک معزز رہنما کی حیثیت دیتا ہے۔

ذاتی زندگی کا عکس : ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ازدواجی زندگی بھی ان کی سادگی اور اصول پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی اہلیہ گرشرن کور اور تین بیٹیاں ان کے اہل خانہ کا حصہ ہیں۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کا پورا زندگی نامہ سادگی، اصول پسندی، اور عوامی خدمت کا ایک تابناک نمونہ ہے۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے علم و بصیرت کو عملی اقدامات میں ڈھالا اور اپنی بے مثال قیادت سے قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کا کردار ایک روشنی کا مینار ہے، جو نسلوں کو یہ درس دیتا رہے گا کہ قیادت کا حقیقی جوہر خدمت، دیانت، اور اصول پسندی میں مضمر ہے۔ ان کی زندگی اور خدمات ہمیشہ تاریخ کے سنہرے اور ناقابلِ فراموش باب کا حصہ رہیں گی۔

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *