کرسمس کو صحیح طریقے سے کیسے منایا جائے؟

از سنت راجندر سنگھ جی مہاراج
آج دنیا بھر میں کرسمس کا تہوار جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے۔ یسوع مسیح کا اصل پیغام محبت کا پیغام تھا۔ انہی تعلیمات کی بنیاد پر عیسائیت کا آغاز ہوا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو جو عظیم پیغام دیا اس کا خلاصہ دو احکام میں کیا جا سکتا ہے۔ پہلے “اپنے رب کو اپنے پورے دل سے، اپنی پوری جان سے اور اپنے سارے دل سے پیار کرو۔” اور دوسرا “اپنے پڑوسی سے پیار کرو جیسا کہ ہم تم سے پیار کرتے ہیں۔”اس دن، خوشی کے اس تہوار پر لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور تحائف اور نیک خواہشات دیتے ہیں، جس سے پورا ماحول محبت سے بھر جاتا ہے۔ پریم کرنا ہی ہمیشہ کا پریم پانا ہے۔ جب ہم دوسروں سے پریم کرتے ہیں، تو قدرتی طور پر ہمیں بدلے میں بھی محبت ملتی ہے۔ اگر ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ محبتیں بانٹیں گے تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ یہ دنیا محبت کی جگہ بن جائے گی۔اگر ہم دوسروں کو پیار دیتے ہیں تو آخر میں ہمیں بھی زیادہ پیار ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت ایک ایسی خوبی ہے جو نہ صرف نفرت، تشدد، خود غرضی، لالچ اور غصہ کو ختم کرتی ہے بلکہ یہ ہمارے اندر کے تمام منفی عوارض کو بھی ختم کر دیتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم امن، خوشی اور آنند سے بھیگ جاتے ہیں۔ ہم دنیا کو جتنا زیادہ پیار دیتے ہیں، اتنے ہی زیادہ لوگ جنہوں نے محبت کا تجربہ نہیں کیا ہے وہ اسے حاصل کرنے پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی زندگی بدل جاتی ہے اور انہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں غصے اور نفرت سے زیادہ محبت کتنی اہمیت رکھتی ہے۔جتنا زیادہ لوگ محبت کے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس پاتے ہیں، وہ اتنے ہی زیادہ خوش ہوتے ہیں اور اس محبت کی خوشی دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ محبت جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں وہ برف کی ایک گیند کی طرح ہے جو پہاڑی سے نیچے گرتی ہے، بڑی سے بڑی ہوتی ہے اور متحرک انداز میں کام کرتی ہے۔ یعنی محبت ہم میں پھیلنے لگتی ہے اور یہ محبت ہم سے دوسروں تک بھی پھیل جاتی ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ یہ دنیا محبت کی جگہ بن جائے گی، جہاں ہر ایک کی زندگی محبت، خوشی، مسرت اور روشنی سے بھری ہوگی۔ہم ایسی ریاست کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ جہاں ہم دوسروں سے محبت مانگنے کے بجائے انہیں پیار دیتے ہیں۔ روحانی راستے پر چل کر ہی ہم اپنے اندر دوسروں کے لیے محبت پیدا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر روز مراقبہ کی مشق کے لیے وقت دینا ہوگا کیونکہ مراقبہ کی مشق نہ صرف ہمارے ذہن کو پرسکون کرتی ہے بلکہ یہ ہمارے اندر خدا کی محبت کو بھی بیدار کرتی ہے۔جیسے جیسے ہم مراقبہ میں ترقی کرتے ہیں، ہم ہمیشہ خدا کی محبت کے مزے سے بھرے دھارے میں مگن رہتے ہیں۔ جب ہماری روح خدا کی محبت کے اس دھارے میں ڈوب جاتی ہے تو اس سے ہماری روح اس جسم سے اوپر اٹھتی ہے اور خدائی محبت اور خوشی کے اندرونی حلقوں میں پرواز کرنے لگتی ہے اور اپنے اندر خدا کی محبت کو محسوس کرتی ہے کیونکہ خدا محبت ہے، ہماری روح بھی ہے۔ محبت اس کا حصہ ہے اور خدا کی طرف واپسی کا راستہ بھی محبت ہے۔جب ہم مراقبہ کے ذریعے اس قسم کی الہی محبت کا تجربہ کرتے ہیں، تو ہم قدرتی طور پر اسے دوسروں تک پھیلا دیتے ہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے ہیں، محبت کا مینار بن جاتے ہیں۔ ہم اس محبت کو نہ صرف اپنے خاندان، دوستوں اور پیاروں کے ساتھ بانٹتے ہیں بلکہ اجنبیوں کے ساتھ بھی۔ بالآخر ہم پوری دنیا میں پھیلنے والی محبت کی روشنی بن جاتے ہیں۔دنیا کو دو عظیم ترین تحفے جو ہم دے سکتے ہیں وہ مراقبہ کے ذریعے ہیں۔ ایک آ عالمی محبتدوسرا ٓ عالمی امن۔ یسوع مسیح چاہتے تھے کہ اُس کے شاگرد نہ صرف اُس کے پیغام کو سنیں بلکہ اُسے اپنی زندگیوں میں ڈھالیں۔ بہت سے لوگ رب کے پیغام کو سنتے ہیں، لیکن ان میں سے بہت کم لوگ اسے سمجھتے ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں، بہت کم جو اسے اپنی زندگی میں ڈھالتے ہیں۔تو آؤ! آئیے کرسمس کے اس مقدس تہوار پر یسوع مسیح کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں شامل کریں۔ اگر ہم یسوع مسیح کے احکام پر عمل کریں تو یقیناً ہم حقیقی معنوں میں کرسمس منائیں گے۔

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *