مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر

ابوشحمہ انصاری
سعادتگنج،بارہ بنکی
مضمون کے عنوان کے طور پر منقول مصرع “مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر” ضلع بارہ بنکی کے قصبہ سعادت گنج کے مشہور استاد شاعر ذکی طارق بارہ بنکوی کا ہے- اس میں شاعر موصوف نے دورِ حاضر میں پائےجانے والے ایک عمومی رویےکی طرف لطیف اشارہ کیا ہے – یہ مضمون دراصل مذکورہ مصرع کے اسی مشارالیہ مفہوم کی ادنٰی تفسیر و تشریح ہے –
زندگی انسان کے لیے آزمائشوں اور امتحانات کا مجموعہ ہے۔ ان امتحانات میں سب سے بڑی آزمائش انسان کے ایمان کی ہوتی ہے۔ ایمان ایک ایسا چراغ ہے جو دلوں کو منور و مجلٰی کرتا ہے، مشکلات کے اندھیروں میں امید کی روشنی بخشتا ہے، اور انسان کو ہمت و حوصلہ عطا کرتا ہے۔ لیکن اگر ایمان کمزور ہو جائے یا ختم ہو جائے تو انسان کی زندگی ایک بے مقصد اور بے روح تصویر بن جاتی ہے۔ درج بالا شعر کا یہ مصرعہ “مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر” اسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔

ایمان کی حقیقت:
ایمان وہ طاقت ہے جو انسان کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ یہ دل میں یقین اور زبان پر اقرار کے ساتھ عمل کا نام ہے۔ ایمان اللہ پر یقین، اس کے رسولوں کی تصدیق، آخرت کی حقیقت کو ماننا، اور اچھے اعمال پر استقامت اختیار کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک روحانی طاقت ہے جو انسان کو دنیاوی مادیات کی قید سے آزاد کرتی ہے اور اسے اعلٰی مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔

ایمان کا زوال:
جب انسان اپنی زندگی میں خدا کے احکامات کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور دنیاوی خواہشات کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے تو ایمان کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ یہ زوال آہستہ آہستہ ہوتا ہے، لیکن اس کے اثرات بہت گہرے اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ انسان اپنے اعمال کے ذریعے اپنے ایمان کو مضبوط یا کمزور کرتا ہے۔ بداعمالیاں، گناہوں پر اصرار، اور اللہ کی نافرمانی انسان کے دل کو سخت کر دیتی ہے، اور آخرکار ایمان کی روشنی بجھنے لگتی ہے۔

ایمان کے بغیر زندگی:
ایمان کے بغیر زندگی ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو بغیر بادبان کے طوفانی سمندر میں بھٹک رہی ہو۔ ایمان نہ ہو تو انسان کے پاس نہ تو مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی واضح مقصد۔ وہ دنیاوی مال و دولت، شہرت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے، لیکن اندرونی سکون سے محروم رہتا ہے۔
درج بالا شعر کا یہ مصرعہ”مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر” ان لوگوں کی حالت کی عکاسی کرتا ہے جن کا ایمان ختم ہو چکا ہے، لیکن وہ جسمانی طور پر زندہ ہیں۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جہاں دل میں اللہ کی محبت، خوف، اور رجوع کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ انسان بے روح ہو جاتا ہے، اور اس کی زندگی محض دنیاوی لذتوں اور مفادات تک محدود ہو جاتی ہے۔

ایمان کے زوال کی وجوہات
ایمان کے زوال کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:

دنیا کی محبت
جب انسان دنیاوی مال و دولت کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے تو وہ اللہ کی یاد اور آخرت کی فکر سے غافل ہو جاتا ہے۔

برے اعمال
گناہوں پر اصرار اور ان سے توبہ نہ کرنا دل کو سیاہ کر دیتا ہے اور ایمان کو کمزور کر دیتا ہے۔

صحبت کا اثر
بری صحبت انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے، اور وہ حق و باطل کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔

علم کی کمی
دینی علوم کی کمی اور دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی بھی ایمان کے زوال کا سبب بنتی ہے۔

ایمان کی حفاظت
ایمان کی حفاظت انسان کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کی یاد میں مصروف رہے، اس کے احکامات کی پیروی کرے، اور اپنے اعمال کو مسلسل بہتر بنانے کی کوشش کرے۔

درج ذیل اقدامات ایمان کی حفاظت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں

نماز کی پابندی: نماز ایمان کو مضبوط کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

قرآن کی تلاوت: قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر غور و فکر دل کو منور کرتا ہے اور ایمان کو تقویت دیتا ہے۔

صحبت صالحین: نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ رہنا ایمان کو بڑھاتا ہے۔

توبہ و استغفار: گناہوں سے توبہ کرنا اور اللہ سے معافی مانگنا دل کی صفائی کا ذریعہ ہے۔

اجتماعی پہلو
ایمان کی کمی نہ صرف فرد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ معاشرے پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں افراد ایمان کی روشنی سے محروم ہوں، وہاں اخلاقی انحطاط، ناانصافی، اور بدعنوانی کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ اپنی اقدار اور اصولوں کو کھو دیتا ہے اور اس کے افراد بے مقصد زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ایمان کی واپسی:اگرچہ ایمان کا زوال ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن اللہ کی رحمت انسان کو دوبارہ اپنے راستے پر آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے اعمال کا محاسبہ کرے، اللہ سے رجوع کرے، اور اس کی طرف واپس لوٹے تو ایمان کی روشنی دوبارہ اس کے دل میں جاگ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور پاکیزہ رہتے ہیں۔” (البقرہ: 222)درج بالا شعر کا یہ مصرعہ”مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر” ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر انسان ایمان سے محروم ہو جائے تو وہ بظاہر زندہ ہونے کے باوجود روحانی طور پر مردہ ہو جاتا ہے۔ یہ مضمون ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے، اپنی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کو بنانا چاہیے، اور دنیاوی مادیات کو اپنے دل پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔ ایمان ہی وہ چراغ ہے جو ہماری زندگی کو روشنی، سکون، اور مقصد عطا کرتا ہے، اور اسی کی حفاظت میں ہماری نجات ہے۔

کس قدر بد بخت ہے میری یتیمی دیکھ لو
مر گیا ایمان میرا مجھ کو زندہ چھوڑ کر
ذکی طارق بارہ بنکوی

Related Posts

آگیا رمضان ہے

ہو گیا ہم پے خدا کا پھر بڑا احسان ہےمل گیا اس سال پھر سے جو ہمیں رمضان ہے اس مہینے میں ہیں اتری آسمانی اور کتباس مہینے میں ہی…

Read more

وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور بہارکی ترقی

ابوالکلام ، دربھنگہ بہار وزیر اعلیٰ نتیش کمار بہار کی سیاست میں ایک نمایاں اور مؤثر شخصیت ہیں، جنہوں نے اپنی قیادت میں ریاست کی ترقی اور خوشحالی کے لیے…

Read more

آپ وہی ہیں جو آپ سوچتے ہیں

سیما شکور، حیدر آباد اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ ایک کامیاب انسان ہیں تو واقعی آپ ایک کامیاب انسان ہیں اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ کی…

Read more

بیسویں صدی کےنامور مسلمان مصلحین

از:ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقیڈپٹی ڈائریکٹر نیشنل بوٹینیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، حکومتِ ہند، لکھنؤ مسلم دنیا میں کئی صدیوں تک فکری زوال اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے طویل نیندکے…

Read more

اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کا انتظام کیجئے

ام سلمہجمالپور، دربھنگہ تعلیم اور تربیت کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ ایک معاشرہ اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے…

Read more

جو راستہ تم نے چُنا ہے…؟

سیما شکور، حیدر آباد جو راستہ تم نے چُنا ہے… وہاں خار تو ہوں گے، کیونکہ یہ راستہ سچائی کا راستہ ہے، یہ راستہ ایمانداری کا راستہ ہے۔ تم تو…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *