تحریر جاوید اختر بھارتی
نماز دین کا ستون ہے ، افضل العبادات ہے ، روزی روٹی میں خیر وبرکت کا ذریعہ ہے ، مومن کی جان ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، مسلم و غیرمسلم کے مابین ایک پہچان ہے لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو نماز سے غافل ہے اور اس غفلت میں مساجد کے پڑوسی تک شامل ہیں ، تعلم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ بھی شامل ہیں ، امیر و غریب دونوں شامل ہیں ، شہری اور دیہاتی دونوں شامل ہیں حتیٰ کہ علماء و حفاظ اور غیر علماء و حفاظ بھی شامل ہیں ،، نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ ہر کلمہ گو کے لئے ضروری ہے اور فرض نمازوں کا مقام ومرتبہ تو یہ ہے کہ اسے چھوڑ کر آپ دین کا کتنا ہی بڑا کام کیوں نہ کریں وہ بارگاہ خداوندی میں ناقابل قبول ہے چاہے جلسہ ہو، جلوس ہو، نعت خوانی ہو، بزرگان دین کے آستانوں پر حاضری ہو یہ سب نماز کے بعد ہیں دنیا کے کسی ولی نے نماز ترک کیا ہی نہیں ہے کیونکہ جو نماز کو ترک کرے گا وہ پوری طرح مسلمان نہیں ہوسکتا اور جو مکمل مسلمان نہیں ہوسکتا اس کے ولی ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،، آج ہاتھوں میں کڑا پہن کر ، ایک ہاتھ کی پانچوں انگلیوں میں انگوٹھی پہن کر ، گلے میں جھامڑ پہن کر ، ہاتھوں میں گھنگھنا اور جھنجھنا لے کر ، لمبے لمبے بال رکھ کر ، رنگ برنگے کپڑے پہن کر گلی گلی گھومنے والے نقلی پیر اور روٹی توڑ فقیر خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ایسا ہی حلیہ اختیار کرکے ولایت مل جاتی ہے یاد رکھیں ماتھے پر سجدوں کے نشان سے نہیں بلکہ زمین پر سجدوں کے نشان سے ولایت کا منصب حاصل ہوتاہے ظاہری ہو حق پر ناز کرنے والے اور بزرگان دین کے آستانوں پر بیٹھ کر گانجہ پینے والے ذرا بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کریں تو آنکھوں سے لتیاں اور چنگاریاں نکلنے لگیں گی ،، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ، خواجہ معین الدین چشتی ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ، بابا فریدالدین گنج شکر، حضرت صابر علاؤالدین ، خواجہ نظام الدین اولیاء علیہم الرضوان یہ سارے بزرگان دین اپنے اپنے وقت کے زبردست عالم دین تھے بڑے بڑے علماء ومشائخ میں شمار کئے جاتے تھے۔
مریدوں سے صرف ہاتھ پاؤں نہیں چومواتے تھے، مریدوں سے نذرانے نہیں لیتے تھے ، صرف مرغ و ماہی کی دعوت نہیں کھاتے تھے ، کسی کی غیبت نہیں کرتے تھے ، کسی کو نیچا نہیں دکھاتےتھے ، اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتےتھے ، جھوٹ نہیں بولا کرتےتھے ، رب کے قرآن اور نبی کے فرمان سے کبھی غافل نہیں ہوا کرتےتھے بلکہ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول کے سانچے میں ڈھل کر زندگی گزارا کرتےتھے ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے تھے اور دین کی تبلیغ کیا کرتے تھے مذکورہ اولیاء کرام کے مریدین کو بھی اللہ کا قرب حاصل ہوا وہ اللہ کے ولی ہوئے ان کی بارگاہ میں اور خانقاہ میں جو بیٹھا اس کی زندگی و آخرت دونوں سنور گئی آج ان کی آرام گاہیں اور خانقاہیں مرکز عقیدت بنی ہوئی ہیں مگر کتنے افسوس اور کتنے شرم کی بات ہے کہ آج انہیں بزرگان دین کی خانقاہوں میں بیٹھ کر اسلام کی شبیہ کو بگاڑا جارہا ہے ، انہیں کے نام سے منسوب فرضی کہانیاں اسٹیج سے سنائی جارہی ہیں ، عورتوں اور مردوں کا ہجوم لگا کر دین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔
بزرگان دین کی توہین بھی کی جارہی ہے ،، کرامت کے نام پر بے سر پیر کی بات کرنا جس سے بزرگان دین کا تعلق ہی نہ ہو وہ باتیں بیان کرنا بزرگان دین کی توہین نہیں تو اور کیا ہے ؟ جہاں تک بات نماز کی ہے تو آج کا مسلمان نماز سے اس قدر غافل ہے جیسے کوئی بہت ہلکی پھلکی چیز ہو کہ جسے کرنے اور نہ کرنے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان نماز معاف نہیں ، کسی درخت کی چھاؤں میں ہو یا تلواروں کی چھاؤں میں نماز معاف نہیں ، مسرت و شادمانی بھری زندگی گزار رہا ہو یا فاقہ کشی کا سامنا کررہا ہو نماز معاف نہیں ،، عبد اللہ القوارینی کے گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ان کی خاطر تواضع میں تاخیر ہوگئی وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں کیا دیکھتے ہیں کہ عشاء کی جماعت مکمل مکمل ہوگئی پھر کئی مسجدوں میں گئے مگر جماعت نہیں مل سکی بالآخر انہوں نے عشاء کی نماز ستائیس مرتبہ پڑھی اس کے بعد بستر پر سونے کے لئے گئے نیند آگئی خواب دیکھتے ہیں کہ میرے کچھ ساتھی گھوڑا دوڑا رہے ہیں میں بھی شامل ہوں مگر میرا گھوڑا سب سے پیچھے ہے میں ایڑ پر ایڑ لگارہاہوں مگر میرا گھوڑا پیچھے ہے میرے سب ساتھی آگے نکل گئے مڑکر دیکھا میرے ساتھیوں نے تو کہا کہ اے عبد اللہ القوارینی تم جتنا چاہو گھوڑے کو ایڑ لگا لو لیکن ہمارا ساتھ نہیں پاسکتے کیونکہ بھلے ہی تم نے عشاء کی نماز ستائیس مرتبہ پڑھی ہے مگر اکیلے پڑھی ہے اور ہم نے عشاء کی نماز با جماعت پڑھی ہے ،، کسی امام کے نزدیک بے نمازی کو قتل کرنے کاحکم ہے تو کسی کے نزدیک جیل میں ڈالنے کا حکم ہے تو کسی کے نزدیک مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کئے جانے کا حکم ہے اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نماز بھی ارکان اسلام میں سے ہے اور حج و زکوٰۃ بھی ارکان اسلام میں سے ہے مگر مالک نصاب نہ ہونے کی صورت میں زکوۃ نہیں دینا ہے اور استطاعت نہیں ہے تو حج بھی معاف ہے لیکن نماز معاف نہیں ہے ،، ایک اونٹ بھاگتے ہوئے آرہاہے اونٹ کے پیچھے اس کا مالک بھی ہاتھ میں چھری لئے پیچھا کررہاہے ہے راستے میں سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اونٹ بارگاہ نبوی میں ٹھہر گیا جب اونٹ کا مالک آیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ہاتھوں میں چھری لے کر کیوں اونٹ کو دوڑا رہے ہو تو اونٹ کا مالک جواب دیتا ہے کہ میں نے اسے اس لئے خریدا تھا کہ کچھ فائدہ پہنچائے گا مگر یہ نقصان ہی کراتا رہتاہے ۔
نبی پاک نے اونٹ سے اس کے مالک کی بات کہی تو اونٹ اپنے منہ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں تک لے گیا اور جب ہٹایا تو نبی پاک نے اونٹ کے مالک سے کہا کہ تمہارا اونٹ شکایت کررہا ہے کہ میرا مالک عشاء کی نماز میں بہت سستی کرتاہے اور مجھے معلوم ہے کہ فجر و عشاء کی نماز میں سستی کرنے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں اللہ کی طرف سے عذاب نازل نہ ہوجائے تو میں اسی خوف سے بھاگتا رہتا ہوں کہ میرے مالک کی غلطی و جرم کی پاداش میں کہیں عذاب آئے تو میں بھی اس کی زد میں نہ آجاؤں ،، اونٹ کے مالک سے جب نبی پاک یہ بات کہی تو شرمندہ ہوا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ آج سے میں نماز میں سستی نہیں کرو نگا اللہ کے رسول نے اونٹ کو فرمانبرداری کا حکم دیا خوشی سے اونٹ کا مالک اپنے گھر کے لئے چل دیا اور اونٹ بھی اپنے مالک کے گھر کے لئے چل دیا ،، اس سے یہ معلوم ہوا کہ نماز نہ پڑھنا جانوروں کو بھی معیوب لگتا ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ کائنات کے ذرے ذرے کے لئے رحمت ہیں ،، امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے ابھی ایک رکعت ہوئی تھی کہ ابو لولو فیروز نے نیزہ مارا ایک وار میں پیٹ بھرا اس بے ایمان کا اس نے چھ بار وار کیا پیٹ پھٹ گیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیہوش ہوگئے اور جب ہوش ہوا تو پانی پلایا جارہا تھا پیٹ سے باہر آجاتا تھا ، شہد کھلایا جاتا تھا وہ بھی پیٹ سے باہر آجاتا تھا اس حالت میں پوچھتے ہیں کہ کیا نماز مکمل ہوگئی تو لوگوں نے بتایا کہ نہیں ابھی ایک ہی رکعت ہوئی تھی کہ آپ پر حملہ کردیا گیا تو امیر المؤمنین نے کہا کہ پانی لاؤ لوگ پانی لائے اور وضو بنوایا گیا پھر حضرت عمر نے کہا کہ مجھے کھڑا کردو تو کھڑا کردیا گیا انہوں نے نماز مکمل کی تو پھر لوگوں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین اس حال میں تو بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے تھے تو حضرت عمر نے جواب دیا کہ ہاں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتا تھا لیکن میرے اندر کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت تھی اس لئے میں نے کھڑے ہو کر پڑھی اور یاد رکھو جس نے اس حال میں بھی نماز چھوڑدی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔
نماز کی اہمیت کا اندازہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے ،، نماز سے بندے کا رب سے رابطہ ہوتاہے ، نماز سے مساوات کا اظہار ہوتاہے ، نماز سے جنت کا راستہ ملتا ہے ،، مؤذن نے اذان کے کلمات بلند کئے گویا یہ اللہ کی طرف سے اعلان ہو رہا ہے کہ آؤ میرے بندوں میری بارگاہ میں آؤ سر کو جھکاؤ میں تمہاری خطاؤں کو معاف کروں گا اب بندہ وضو کرتا ہے اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتا ہے یا دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتا ہے یعنی اب بندہ عاجزی کررہا ہے کہ ائے اللہ میں تیری عدالت میں اپنے آپ کو سرینڈر کررہا ہوں کیونکہ دنیا میں کسی کے سامنے ہاتھوں کو اٹھاکر خود سپردگی کرنے پر امان ملے یا نہ ملے مگر تیری بارگاہ میں ضرور امان ملے گی ،، اللہ اکبر کہہ کر بندہ ہاتھ باندھ لیتا ہے یہ ادب احترام کا اظہار ہے نگاہیں نیچی ہے بلکہ حکم تو یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کو سجدے کی جگہ پر جماؤ تاکہ تمہارے اندر خشوع وخضوع پیدا ہو اور تمہیں یہ احساس بھی ہو کہ اگر زمین کے اندر پانی ہے ، خزانہ ہے تو اسی زمین کے اندر تمہاری قبر بھی ہوگی اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قبر ہی آخرت کی پہلی منزل ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا پھر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اس لئے نماز میں نیت باندھ کر سجدے کی جگہ نگاہیں جمانا اور خشوع وخضوع پیدا کرنا ضروری ہے اور پختہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ میں اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہوں مگر اللہ مجھے دیکھ رہا ہے ،، حالت قیام ایسا ہونا چاہئے کہ بالکل سیدھا کھڑا ہو اور دل میں یہ احساس رہے کہ میں اس وقت دنیاوی مقاصد کے لئے لائن میں نہیں لگا ہوں بلکہ اس کی بارگاہ میں لائن لگایا ہوں جس نے لفظ کن سے ساری کائنات کو پیدا کیا اور جس کے سمیع و بصیر ہونے کا عالم یہ ہے کہ وہ کالی رات میں بھی کالے پہاڑ کے کالے پتھر پر چلنے والی کالی چیونٹیوں کو دیکھتا بھی ہے اور اس کے چلنے کی آواز کو سنتا بھی ہے۔
سورۃ الفاتحہ مکمل دعا ہے نماز میں جسے پڑھنا ضروری ہے سورۃ الفاتحہ پڑھے بغیر نماز ہوہی نہیں سکتی پھر کچھ اور آیتیں پڑھ کر رکوع کرنا ہے اور رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھنا ہے پھر سیدھا کھڑا ہونا ہے اس کے بعد سجدہ کرنا ہے اور سجدے کا مقام ومرتبہ یہ ہے کہ کسی شاعر نے کہا کہ اللہ کے حضور میں سر کو جھکا کے دیکھ ،، ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جاکے دیکھ،، نماز کا مقام ومرتبہ یہ ہے کہ میدان محشر میں جہاں زندگی کے ایک ایک کاموں کا حساب ہوگا وہیں سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی،، روز محشر کہ جانگداز بود ،، اولیں پرشش نماز بود،،اس لئے کبھی بھی نماز سے غافل نہیں ہونا چاہئے قرآن مقدس میں سات سو مقامات پر نماز کا ذکر ہے ۔