ڈاکٹر وسیم المحمّدي ،مقیم
حائل، مدینۃ منورۃ
بہن اللہ تعال کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، وہ بھائیوں کی شان، مان اور ان سے بلا حساب و کتاب محبت کرنے والی ایسی مخلوق ہے جو اپنے پیار کا سودا نہیں کرتی، اپنی محبت میں سود وزیاں کا حساب نہیں رکھتی۔ اس کی محبت لازوال اور دائمی ہوتی ہے۔
بھائیوں کے تئیں بہنوں کی محبت ایسی واضح ،شفاف ، بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہوتی ہے کہ چہرے اور بشرے سے چھلکتے رہتی ہے۔ یہ محبت اس قدر بَری، بے تکلف اور بے ساختہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات شوہر کے لئے باعث رشک وحسد بن جاتی ہے۔
بہن عمر کے کسی بھی مرحلے میں پہنچ جائے، حالات کیسے بھی ہوجائیں، بھائی کی محبت سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوسکتی۔ درحقیقت بھائی اس کا مان اور قابل فخر اثاثہ ہوتا ہے، جس پر وہ ہمیشہ ناز کرتى اور اسے اپنا سرمایہ حیات سمجھتی ہے۔
زندگی کی سنت ہی کچھ ایسی ہے کہ بھائی بہن ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں، زندگی کی بے رحم مصروفیات انھیں ایک دوسرے سے دور کئے رہتی ہیں، مگر جب بھی کبھی ایک بھائی اپنی بہن کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے اس سراپا محبت کو سراپا انتظار پاتا ہے، اس کی خوشی دیکھنے لائق ہوتی ہے، اس کی مسرت قابل دید ہوتی ہے، خوشی اور مسرت سے وہ جھومنے لگتی ہے، سرور وسعادت کے شدید احساس سے اس کا رواں رواں لرزنے لگتا ہے، اور خوشی کی بوجھ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگتی ہیں۔
بے پناہ محبت کی اسیر یہ بہنیں بھائیوں کے گھروں کو اپنا گھر ان کے سازو سامان کو اپنا سازوسامان سمجھتی ہیں، گھر اگر آبائی نہ ہو تب بھی محبت کا یہ شعور ان کے یہاں اس قدر پختہ ہوجاتا ہے کہ بھائی اور اس کی کل کائنات انھیں اپنی نظر آتی ہے، جو چیز پسند آگئی اٹھا لیا، جو چیز بھلی لگی بلا تردد مانگ لیا۔ یہ -حاشا وکلا- کسی لالچ اور طمع کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ در اصل یہ اس لا زوال اور قلزمی محبت کا عین رد عمل ہوتا ہے جو وہ اپنے بھائیوں کے تئیں اپنے دلوں میں رکھتی ہیں، اسی کا نتیجہ یہ بھی ہوتاہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو بھی اپن محبت کے زیر تسلط سمجھتی ہیں۔
ایک عظیم شخصیت اور دانا انسان ؒاپنے بعض بیٹوں کو سمجھاتے ہوئے کہتے تھے کہ بیٹا ہمارے بعد تمہاری بہنیں تمہارے گھر آئیں گی۔ بہنیں بڑی لطیف اور بھولی ہوتی ہیں، محبت کا دریا ان کے سینوں میں بہتا رہتا ہے، وہ کوئی بھی چیز طلب کریں، انھیں گھر کی کوئی بھی چیز پسند آجائے ، تو کبھی انکار نہ کرنا، نہ اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا، کبھی ایسا بھی ہوگا کہ تمہاری بہن کو گھر کا جھاڑو پسند آجائیگا تو وہ اسےلے لیگی، تمہیں یہ کبھی ناگوار نہ لگے، خوشی سے دے دینا۔
یہ بہنیں در اصل تمہارے گھر کو اپنا گھر اور تمہارے سامان کو اپنا سامان سمجھتی ہیں، جو ان کے سینے میں رواں دواں دریائے محبت کا عین رد عمل اور فطری تقاضا ہوتا ہے۔ یہی چھوٹی چھوٹی چیزیں انھیں فیملی سے مربوط رکھتی، اور محبت کے سفینے کو جاری رکھتی ہیں۔ سو اس میں کوئی کوتاہی نہ کرنا، اور اپن سرد مہری سے ان تعلقات پر برف نہ جمنے دینا۔
بنی نوع انسان کے عجیب رویوں میں سے ایک رویہ جو بہت کھٹکتا ہے وہ یہ ہے کہ عموما دیکھا جاتا ہے اگر بہن مالدار اور بھائی غریب ہے تو بہن کا تعاون بھائی تک ضرور پہنچتا ہے، صلہ رحمی کے اصول وضوابط اور اس کے تقاضے وہ بخوبی نبھاتی ہے، جبکہ وہ کسی اور کے زیر تسلط
ہوتی ہے۔ مگر اس کے برعکس اگر بھائی کو اللہ تعال نے نعمتوں سے نواز رکھا ہے، اور بہن غربت کا شکار یا آزمائش میں مبتلا ہے تو دنیا کے ہنگامے ایک بھائی کو صلہ رحمی کے آداب حقوق اِس قدر بجانے کی اجازت نہیں دیتے، جبکہ بظاہر وہ خود مختار اور اپنے گھر کا مالک ہوتا ہے۔
آپ صل اللہ علیہ وسلم کو حکمت الہی نے سگی بہن کی نعمت سے محروم کر رکھا تھا، مگر آپ کی رضاعی بہنیں تھیں، انھیں میں ایک شیماء بنت الحارث تھیں، آپ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ نے دونوں کو دودھ پلایا تھا۔ دونوں کا بچپن ساتھ گزرا تھا، شیماء نے آپ کو ایک بہن کی طرح کھلایا پلایا تھا، دونوں میں بڑی محبت تھی، کسی دن شیماءآپ کو پیٹھ پر لئے ہوئی تھیں، آپ نے ان کو دانت کاٹ لیا، آپ کا یہ دانت کاٹنا بھی ایک لمبے زمانے کےبعد شیماء کے لئے بہت مبارک ثابت ہوا۔
فتح مکہ کے بعد جب ہوازن سے جنگ ہوئی تو قیدیوں میں شیماء بھی شامل تھیں۔ وہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں آپ کی بہن شیماء ہوں۔ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس کی کیا نشانی ہے؟ انھوں نے کہا وہ دانت جو آپ نے میری پیٹھ میں کاٹا تھا جب میں آپ کو اپنی پیٹھ پر لئے ہوئی تھی۔ یہ سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، بچپن کا زمانہ یاد آگیا، بنی سعد میں گزرے ہوئے لڑکپن کی حسین یادیں تازہ ہوگئیں۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے، انھیں گلے لگایا، اور ا پنی چادر بچھا کر اپنی مبارک اور عظیم جگہ پر ان کو بیٹھا دیا۔ سارے کام چھوڑ کر ان کا حال چال دریافت کرنے لگے، پھر کہا: شیماء اگر میرے ساتھ رہنا چاہو تو تم میری بہن ہو، تم سے میرا زندگی اور موت کا رشتہ ہے، اور اگر اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانا چاہو تو تمہاری مرضی۔ جب انھوں نے واپس اپنے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ان کی غایت درجہ تکریم کرتے ہوئے خوب خوب نوازا، اور بہت سارا سازو سامان اوراونٹ کا پورا ایک ریوڑ دیکر انھیں روانہ کیا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ان کی وجہ سے بنی سعد کے سارے قیدیوں کوآزاد کردیا، اور انھیں مع سازو سامان واپس جانے دیا۔
بلا شبہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کی یہ عملی سیرت، اور ایک بہن کی یہ لا زوال اور بے غرض محبت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ایک بھائی اس محبت کی پوری طرح قدر کرے، اور اس کی دنیاوی مشغولیات اس محبت کی حرارت کو ٹھنڈی نہ پڑنے دیں، اس کا سرد رویہ ان گرم تعلقات پر برف نہ جمنے دے، اور اس کی سرد مہری اس دریائے محبت کی روانی کو پرسکون نہ کردے، اور نہ ہی اس کے خشک اور سخت معاملات اس بحر محبت کو خشکی میں تبدیل کردیں۔
ضروری ہے کہ اسے شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی بھر پور عزت دی جائے، اور اس کا وہ گھر جہاں اس نے اپنے ماں باپ کے سایہ شفقت میں اپنی عمر گزاری ہے اسے اس کے لئے کبھی اجنبی نہ بننے دیا جائے، اسے بھر پور مان سمّان دیا جائے، اور ہمیشہ اس کے اصل گھر کا اہم رکن سمجھا جائے۔کتنے محروم ہیں وہ لوگ جنھیں دنیا کے مختصر راستے میں پڑے چند سنگ ریزے ایسے حسین رشتوں سے مشغول کر دیتے ہیں؟ کتنے قابل رحم ہیں وہ افراد جو اس حقیر دنیا کی خاطر ایسےمبارک اور با سعادت رشتوں سے کٹ جاتے ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ ہم خوشیوں کو ان کی جگہ نہیں تلاش کرتے، بلکہ کہیں اور تلاش کرتے رہتے ہیں، اس لئے ہمیں نہ تو خوشی ہی ملتی ہے نہ رشتے ہی، اس طرح ہم اس چند روزہ حقیر دنیا کے حقیر اسباب میں کھوکر، اور اس کے پر فتن شور وہنگامے کی نذر ہوکر اپنی اصل متاع کھودیتے ہیں۔