چندقرآنی اشجار۔ اور انکےمخفی مفہوم۔دینی اور سائنسی جائزہ

محمد ااقتدارحسین فاروقی
قرآن کریم میں شجر(جمع : اشجار) کا لفظ۱۸ سورتوں کی ۲۶ آیات میں ملتاہے۔ ان میں سے کچھ آیات وہ ہیں جن میں بعض خاص درختوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بغیر ان کے خصوصی ناموں کے، مثلاً جنت میں حضرت آدمؑ کوکسی خاص پیڑ کی جانب جانے سے منع فرمایا گیا لیکن اس کا نام نہیں دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک ایسے درخت کا تذکرہ بغیر اس کے خصوصی نام سے ہے جس کے نیچے بیعت رضوان عمل میں آئی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کو ایک ایسےدرخت کی سمت سے اللہ کی آواز سنائی دی جسکا نام نہیں لیا گیا ہے۔ بعض درختوں کو شجرۃ طیبۃ اور شجرۃ خبیثۃ بھی کہاگیا ہے۔ ان اشجار کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے جن سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ ذیل میں چند ایسے ہی درختوں کی ممکن پہچان آیات کی روشنی میں پیش کی جاتی ہیں :
شجرِ آدمؑ
حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کے واقعہ سے متعلق ایک درخت کا ذکر تین مرتبہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے لیکن کسی بھی آیت میںاس کا اصل نام نہیں دیا گیا ہے۔مثلاً سورۃ البقرۃ (آیت 36-35) میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ : پھر ہم نے آدم سے کہا کہ تم اورتمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھائو مگر اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہوگے۔ آخر کار شیطان نے ان دونوں کواس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا جس حالت میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ اب تم یہاں سے اتر جائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہواورتمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا ہے اور وہیںگزر بسر کرنا ہے۔
حضرت آدم کے لئے اس ممنوعہ درخت کا ذکر مندرجہ بالا آیت کے علاوہ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر19تا22میں بھی ہوا ہے جو اسطرح ہئے :
اور اے آدم! تو اور تیری عورت جنت میں رہو پھر جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے پاس نہ جاؤ ورنہ بے انصافوں میں سے ہو جاؤ گے۔19 پھر انہیں شیطان نے بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے، اور کہا تمہیں تمہارے رب نے اس درخت سے نہیں روکا مگر اس لیے کہ کہیں تم فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ رہنے والے ہو جاؤ۔20 اور ان کے روبرو قسم کھائی کہ البتہ میں تمہارا خیرا خواہ ہوں۔21 پھر انہیں دھوکہ سے مائل کر لیا، پھر جب ان دونوں نے درخت کو چکھا تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر بہشت کے پتے جوڑنے لگے، اور انہیں ان کے رب نے پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہہ نہ دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔22
اور سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر120میں بھی تفصیل یوں ہے:
پھرشیطان نے ان کے دل میں خیال ڈالا اورکہا اے آدم کیا میں تجھے ہمیشگی کا درخت بتاؤں اور ایسی بادشاہی جس میں ضعف نہ آئے۔
۔ لیکن ان تینوں میں آیات شجر کی کیفیت نہیں بیان ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی نباتاتی نام بتایا گیا ہے۔ زیادہ تر قرآن کی تفاسیر میںمفسرین نے اس درخت کی پہچان پر رائے زنی نہیںکی ہے۔ علامہ یوسف علی(The Meaning of Glorious Quran) نے بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ لیکں تحریر کیا ہے کہ وہ Evil Tree تھی ۔مولانا ثناء اللہ عثمانی (تفسیر مظہری) نے یہ البتہ یہ کہا ہے کہ ’’شجرآدم کی اصلیت کے بارے میں علماء کرام میںاختلاف ہے‘‘۔
بعض عرب اسلامی روایات کے مطابق ممنوعہ درخت کی شناخت گندم (Triticum aestvum) سے کی گئی ہے جب کہ دیگر نے اسے انگور (Vitis Vinifera) اور انجیر (Ficus carica) کے نام سےپہچانا ہے۔ کچھ علماء کاقول ہے کہ شجر سے مراد شجرۃ العلم ہے۔
بائبل (Smith, William and J.M. Fuller; The Dictionary of Bible) میں بھی حضرت آدم کے جنت سے نکالے جانے کی وجہ بھی ایک درخت ہی بتائی گئی ہے جو اسطرح ہے:
کتاب پیدائش ، باب3، آیت5۔’’عورت نے جو دیکھا وہ درخت کھانے کے لئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتاہے اورعقل بخشنے کے لئے خوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اوراس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اوران کومعلوم ہواکہ وہ ننگے ہیں اور انہوں نے پتیوں کوسی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں‘‘۔
۔ محققین بائبل نے اس کو لیموں (Citrus (limon کہا ہے تو کچھ نے اسے انجیر سے تعبیر کیا ہے (Ficus carica)کچھ نے اس کو خوبانی (Prunus armeniaca) بتایا ہے ۔ لیکن اکثریت نے اسے سیب (Malus pumila) ہی مانا ہے۔ چند محققین نے انجیر کے پھل کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اس کے بڑے پتے حضرت آدم اورحضرت حو ّا کے جسموں کو ڈھانپنے کے لئے موزوں تھے گویا کہ جس درخت کے پھلوں کوکھانے سے منع فرمایا گیا اسی کے پتوں سے جسموں کوچھپایا گیا لیکن قرآنی ارشادات سے اس قسم کے نظریہ کوتقویت نہیں ملتی ہے۔
شجرِ موسیٰ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کوجس درخت کی سمت سے اللہ تعالیٰ کی آواز سنائی دی اس کا تذکرہ قرآنِ پاک میں اس طرح ہوا ہے :
ترجمہ : جب موسیٰ نے مدت پوری کر لی اوراپنے گھروں کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھلائی دی تو اپنے گھروالوں سے کہنے لگے کہ تم (یہاں) ٹھہرو، مجھے آگ نظر آتی ہے شاید میں وہاں سے (راستہ کا) کچھ پتہ لائوں یا آگ کاانگارہ لے آئوں تاکہ تم تاپو، جب اس کے پاس پہنچے تومیدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ ایک درخت میں سے آواز آئی کہ موسیٰ میں تو خدائے رب العالمین ہوں۔(سورۃ القصص آیت 29-30)
مندرجہ بالا آیت کے علاوہ حضرت موسیٰ سے متعلق آگ کا ذکر سُورۃطٰہٰ کی آیت نمبر 10اور سورۃ النمل کی آیت نمبر7میں ہوا ہے لیکن ان دونوں آیات میں لفظ شجر کااستعمال نہیں ہوا ہے۔؛یہ دونوں آیات اسطرح ہیں:
جب نے آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرو، کیونکہ میں نے آگ دیکھی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس میں سے کوئی مشعل لے آؤں یا آگ میں کوئی رہنمائی حاصل کر سکوں۔”
اوریاد کرو جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا تھا کہ میں نے آگ دیکھی ہے، میں وہاں سے تمہارے لیے کوئی راستہ لے آؤں گا، یا ایک جلتی ہوئی مشعل لے آؤں گا تاکہ تم اپنے آپ کو گرم کرو۔”
محققین کی نظر میں جس درخت سے حضرت موسیٰ کوآگ کی طرح کی کوئی چیز نظر آئی وہ یا تو Acacia seyal تھا جوعربی میں سیال یا طلح کہلاتا ہے اورعرب کا عام لیکن اہم پودہ مانا جاتا ہے۔ اسمتھ (Smith, William and J.M. Fuller; The Dictionary of Bible,)کی تحقیقات کے بموجب Acacia nilotica (عربی، سُنط) اور (Acacia seyal) (عربی، سیال) کے پھول پیلے رنگ کے ہوتے ہیں لیکن سیناء کے علاقہ میں ان درختوں پر Loranthus acaciae نام کی ایک بیل پورے طور پر پھیل جاتی ہے اور اس کے قرمزی(گہرے لال) رنگ کے پھول پورے درخت کوگھیرے میںاس طرح لے لیتے ہیں کہ دور سے دیکھنے والا محسوس کرسکتا ہے کہ ایک آگ ہے جو درخت پر لگی ہوئی ہے۔ Loranthus کی اس بیل کو انگریزی میں Mistletoe یا Acacia strap flower یعنی کیکڑ (ببول) کو جکڑنے والا پھول بھی کہتے ہیں۔
جارج واٹ نے لکھا ہے کہ جنگل کے بہت سے درخت مختلف ملکوں میں Flame Trees کہلاتے ہیں کیونکہ ان کے انتہائی چمک دار پھول، جو پتّیوں سے قبل نمودار ہوتے ہیں، دور سے دیکھنے میں آگ کی مانند لگتے ہیں۔ جسFlame Tree کی مثال واٹ نے دی ہے وہ ٹیسو (پلاس) ہے۔ Butea monosperma
زیادہ تر علما نے حضرت موسیٰ سے متعلق اس آگ کے درخت پر اپنے خیالات کا اظہار نہیں فرمایا ہے
۔ شجر موسیٰؑ کواگر Acacia seyal مان لیا جائے تو یہ بات بھی واضح ہوجانی چاہئے کہ اس درخت کا حوالہ طلح کے نام سے سورۃ واقعہ کی (آیت نمبر29) میں موجود ہےمزید برآں سورۃالفتح (آیت 18) میں جس پیڑ کی بابت ذکر ہوا ہے کہ اس کے نیچے بیعت رضوان عمل میں آئی وہ بھی غالباً طلح (سیال) یعنی وہ درخت تھا جہاں سے حضرت موسیٰ کواللہ کی آوازسنائی دی۔
شجر بیعتِ رضوان
سورۃ الفتح میں ایک درخت کاتذکرہ (بغیر اس کے خصوصی نام کے) یوں ہوا ہے :
ترجمہ : اے پیغمبر ! جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا اورجو (صدق وخلوص) ان کے دلوں میں تھا وہ میں نے معلوم کرلیا توان پرتسلی نازل فرمائی اورانہیں جلد فتح عنایت کی۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر18)
مندرجہ بالا آیت میںاس بیعت کا ذکر ہوا ہے جس کو بیعت رضوان کہتے ہیںاور جو مقام حدیبیہ پر مسلمانوں سے لی گئی تھی ۔ بیعت لینے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس درخت کے نیچے تشریف فرماتھے اس کا نام اس آیت میں نہیں لیا گیا ہے لیکن بعض روایات کے مطابق یہ ببول یعنی کیکڑ کادرخت تھا (Acacia nilotica)جب کہ کچھ علماء نے اسے بیری کا پیڑ (Ziziphuz mauritiana)بھی بتایا ہے۔حالاناکہ بیری کا پیڑ سایہ دار نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال اس مشہور بیعت کی بنا پر مذکورہ درخت کی تعظیم اتنی زیادہ ہونے لگی کہ اندیشہ ہوچلا کہ کہیں لوگوں کی تعظیم وتکریم اس حد تک نہ پہنچ جائے کہ وہ اس کی پرستش کرنے لگیں چنانچہ کہا جاتاہے کہ حضرت عمرؓ کے حکم سے اس درخت کو کٹوا دیا گیا۔علامہ یوسف علی نے لکھا ہے کہ (نوٹ نمبر8492) اس درخت کو بدعت اور اوہام پرستی کی حد تک لوگ عزت دینے لگے تھے لہٰذا اسے کٹوا دیا گیا۔
کیکڑ کا نام Acacia nilotica ہے اس کو عربی میں سنط کہتے ہیں۔ Acacia جنس کی کئی ذاتیں عرب میں پائی جاتی ہیں جن میں A. seyal کافی عام ہے اسے عربی میں سیال اورطلح کہتے ہیں۔ اس کا تذکرہ سورۃالواقعۃ میں ہوا ہے۔۔ سیال کایہ درخت بیری کے مقابلہ میں زیادہ سایہ دار ہوتا ہے خاص طور سے جب اس میں پتیوں کے نکلنے کا زمانہ ہو۔ سائنس دانوں کایہ بھی کہنا ہے کہ طور کی جانب سے جس درخت سے حضرت موسیٰ کواللہ کی آواز سنائی دی تھی وہ بھی سیال یعنی Acacia seyal کادرخت تھا۔
شجر آگ
دنیا کے بہت سے خطوں کی طرح عرب میں بھی زمانہ قدیم میں آگ پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ کچھ خاص اقسام کے درختوں کی دو لکڑیوں کوایک دوسرے پر تیزی سے رگڑتے تھے اور آگ پیدا کرلیتے تھے۔ اس میں ایک لکڑی جواوپر کی طرف سے رگڑی جاتی تھی وہ عفار کہلاتی تھی اور جونیچے رکھی جاتی تھی وہ مرخ کہلاتی تھی۔ عام خیال یہ ہے کہ عفار اور مرخ اصل میں درختوں کے نام تھے جن سے یہ لکڑیاں حاصل کی جاتی تھیں۔ علامہ یوسف علی نے اس طرح کی چقماق بنانے والی لکڑی کے درخت کا نام Cynachum viminale بتایا ہے (نوٹ نمبر4026)۔یہ درخت Asclepidiaceaeخاندان سے تعلق رکھتا ہے جن میں دودھ (Latex) پایاجاتا ہے چونکہ Latex میں Polyisoprene (ربر) موجود ہوتا ہے لہٰذا یہ ممکن ہے کہ Cynacum Viminale میں اس کی موجودگی کی بنا پر سوکھی لکڑی میں جلد آگ لگ جاتی ہو۔ جس آیت میں آگ پیدا کرنے والے شجر کا ذکر ہوا ہے وہ حسب ذیل ہے ۔ترجمہ : وہی ہے جس نے تمہارے لئے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کردی اور تم اس سے اپنے چولہے روشن کرتے ہو۔(سورۃ یٰٓس آیت نمبر80)اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ یوں ارشادہوا ہے ۔ترجمہ : تم نے کبھی خیال کیا، یہ آگ جو تم سلگاتے ہو، اس کا درخت تم نے پیدا کیا یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں۔
(سورۃالواقعۃ آیت نمبر 72-71)
مولانا مودودی (تفہیم القرآن )کی نظر میں سورۃ الواقعہ کی اس آیت میں بھی اشارہ مرخ اور عفار کی جانب ہے۔ بہر حال یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ بعض اشجار کی شاخوں کو رگڑ کر آگ پیدا کی جاسکتی ہے جوخدا کی قدرت کی ایک دلیل ہے۔
شجر طیّبہؔ اور شجرخبیثہؔ
سورۃ ابراہیم کی آیات میں دو درختوں کاذکر ہوا ہے۔ ایک کو شجرۃطیّبہ کہا گیا ہے اوردوسرے کو شجر خبیثہ ارشادہوا ہے
ترجمہ : کیا تم نے نہیںدیکھا خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسی ہے) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین پکڑے ہوئے) اور شاخیں آسمان میں۔ (سُورۃ ابْرٰہیم آیت نمبر24)
دوسری جگہ ارشاد ہے :
ترجمہ : ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے (نہ جڑ مستحکم نہ شاخیں بلند) زمین کے اوپر سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے اس کو ذرا بھی قرار (وثبات) نہیں۔ (سورۃ ابراہیمْ آیت نمبر24)
مولانا عبدالماجد دریابادی تفسیر ماجدی میں فرماتے ہیں کہ ’’شجرطیّبہ سے مراد انتہائی خوبصورت،مضبوط، بلندوبالا اور پھیلے ہوئے درخت سے ہے اور شجر خبیثہ سے مُراد بد شکل، بد رنگ اور بدبودار درخت سے ہے۔ اس طرح پاکی کی مثال مستحکم درخت سے دی گئی ہے اور ناپاکی کی مثال غیر مستحکم اور کمزور درخت سے دی گئی ہے‘‘۔
نباتات قرآن (از۔ اڈاکٹرقتدار فاروقی) کے پس منظر میں ایسے دوؔدرخت سدرہؔ اورزقوم کے ہوسکتے ہیں۔ سدرہ کی بابت کہاگیا ہے (سورۃ النجم آیت 7تا18) کہ اس کی مضبوط جڑ چھٹے آسمان میں اور شاخیں ساتویں آسمان میں تھیں۔ برخلاف اس کے زقوم کا ملعون درخت دوزخ کی تہ سے نکلے گا اور بدشکل ہوگا۔

Related Posts

!! بغض و حسد اور گھمنڈ

تحریر جاوید اختر بھارتی کہاوت تو مشہور یہی ہے کہ نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے ، حرکت قلب بند ہوجائے ، روح قفس عنصری سے…

Read more

عالمی کتاب میلہ یکم فروری سے

غلام قادردہلی کتاب میلہ، جو ہر سال پرگتی میدان میں منعقد ہوتا ہے، بھارت کے سب سے زیادہ منتظر ادبی تقریبات میں سے ایک ہے۔ یہ میلہ انڈیا ٹریڈ پروموشن…

Read more

انسان کیلئے کمپیوٹر کتنا مفید ہے

ابو الکلامدورِ جدید میں کمپیوٹر ہر شعبہ زندگی میں ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ کمپیوٹر کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور اس…

Read more

…سب کچھ بننا آسان ہے مگر

از: جاوید اختر بھارتی نمازی بننا آسان ہے ، حاجی بننا آسان ہے ، روزہ رکھنا آسان ہے ، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ معاملات کی درستگی بہت مشکل کام…

Read more

فتحپوری مسجد، دہلی: اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ

ڈاکٹر شاہد حبیبفتحپوری مسجد، دہلی کے قلب میں واقع، اسلامی فن تعمیر اور تاریخی ورثے کا ایک نمایاں نمونہ ہے، جسے مسلم طرزِ تعمیر، ثقافت، اور روحانی شناخت کے ایک…

Read more

حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی ادبی اور ثقافتی خدمات؛ میرا مطالعہ

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی بیسوی صدی میں اپنے افکار وخیالات، احوال ومشاہدات، مختلف ملی تنظیموں میں شراکت، اسلام کی بے باک ترجمانی، عصری زبان وبیان، اسلوب وانداز میں اسلام…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *