مچھروں کی دہشت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

مچھروں کے مضر اثرات سے بچانے اور بیداری لانے کے لیے ہر سال 20 اگست کو عالمی یوم مچھر منایا جاتا ہے، ہر سال اس کے لیے الگ الگ امور پر توجہ دلائی جاتی ہے، اس بار ”ملیریاکے خلاف لڑائی میں تیزی لانا“ اس کا مقصد اور موٹو تھا 20 اگست کی تاریخ اس کام کے لیے اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ 1897 ء میں اسی تاریخ کو ڈاکٹر رونالڈ راس نے مادہ انا فلیز مچھر کی کھوج کی تھی، انا فلیز مچھر کے کاٹنے سے ہی ملیریا ہوتا ہے، اس ا ہم تحقیق کے لیے ڈاکٹر رونالڈ راس کو 1902 میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔
پوری دنیا میں مچھروں کی 4 ہزار سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے کم از کم دو درجن قسم کے مچھر بیماری پھیلانے کا کام کرتے ہیں، نرمچھر کی کل عمر پانچ سے چھ دن ہوتی ہے، اوریہ مادہ مچھر کی بنسبت کم مضر ہوتے ہیں، مادہ مچھر ہی انسانوں کا خون چوستی ہے، کیونکہ اس کو انڈے دینے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اس کی عمر چھ ہفتے اور اس سے زائد ہوا کرتی ہے، امس بھری گرمی، نمی اور پانی کے جماؤ میں اس کی پیداوار تیزی سے بڑھتی ہے، یہ ملیریا، ڈینگو،زرد بخار،جا پانی انسے فلائٹس،زیکا،چکن گنیا اور فائلیریا جیسے امراض انسانوں میں منتقل کرتے ہیں، ان کی زندگی کے چار ادوار ہوتے ہیں انڈا، لاوا، پیوپا اور مچھر۔
جو مچھر انسانوں کو زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں ان میں ایک قسم کالے بھورے رنگ کےمچھر کی ہوتی ہے، ان مچھروں کے منہ کے اگلے حصے میں ایک جوڑی پتلی سونڈ جیسی چیز ہوتی ہے، اسی کی مدد سے مادہ مچھر انسانوں کا خون چوستی ہے، شام اور رات کے وقت یہ زیادہ متحرک ہوتے ہیں، یہ سر سے پیر تک کسی جگہ بھی کاٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مچھر کے اس قسم کو اینو فلس کہتے ہیں۔
مچھر کی ایک قسم ایڈس ہے، ان کے پیروں پر سفید نشان اور ان کے جسم کے اوپری حصہ پرسفید لکیر ہوتی ہے،یہ چار فٹ کی اونچائی تک اڑ سکتے ہیں،یہ جسم کے کھلے اعضاء، پیر ہاتھ کے اگلے حصے، پیٹ اور کمر کو بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں۔
کیبولکس مچھر مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں، سفید چاندی، قوس قزح، اور بھوے رنگ کے بھی پائے جاتے ہیں، ان کے دو پنکھ سر پر ایک سینگ جیسا انٹینا اور پاؤں لمبے ہوتے ہیں، یہ عموما زانو، پاؤں کے پچھلے حصے اور گردن پر کاٹتے ہیں، ان تین قسم کے مچھروں میں اینوفلس زیادہ آواز لگاتے ہیں، ایڈس کی آواز انتہائی کم ہوتی ہے اور کیولیکس پوری طرح خاموش رہ کر حملہ آ ور ہوتے ہیں،
صرف بہار کی سطح پر ان مچھروں کے اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر سال پانچ لاکھ لوگوں کو بیمار بنانے کا سبب بنتے ہیں، گذشتہ تین سالوں میں تقریبا 10 ہزار لوگوں کی موت مچھر کاٹنے والی بیماری سے ہوئی ہے، حالانکہ پورے ہندوستان میں مچھروں کی صرف تین سو قسمیں پائی جاتی ہیں جبکہ بہار میں صرف مچھروں کی نو قسمیں ہی موجود ہیں، اس کے باوجود یہ قہر ڈھا رہے ہیں۔
مچھر بھی اللہ کی مخلوق ہے اور اس کے چھوٹے سے جسم میں اللہ کی بڑی نشانیاں موجود ہیں، لیکن یہ انسانوں کے لیے ضرر رساں ہیں، اس لیے ان کے کاٹنے سے قبل انہیں ختم کرنے کی اجازت ہے، مچھروں کے ذریعہ پھیلنے والے مہلک اور مضر امراض سے حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ صفائی و ستھرائی کے نظام کو بروئے کار لایا جائے، گھروں اور اس کے آس پاس گندگی اور پانی کو جمع نہ ہونے دیں،ہلکے رنگ کے پورے جسم کو ڈھکنے والے کپڑے پہنیں، نالیوں اور سوئمنگ پل،فرج وغیرہ کو صاف رکھیں، کولر کے پانی کو بدلتے رہیں، ضرورت محسوس ہو تو دوائیوں اور مرہم کا استعمال کریں۔
مچھر بھگانے کے لیے آل آؤٹ، مچھردانی اور مچھر بتی کا استعمال عام ہے، لیکن اب یہ اتنے ڈھٹ ہو گئے ہیں کہ ان کے اثرات بھی ان پرکم ہی ہوتے ہیں، حالانکہ مچھر بتی کی بکری میں گزشتہ دو سالوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے، دو سال پہلے مچھربتی کی بکری پانچ سے سات کروڑ روپے کی پورے ہندوستان میں ہوتی تھی، اب یہ تجارت 25 سے 30 کروڑ تک پہنچ گئی ہے،صرف پٹنہ نگر نگم ہر سال مچھروں کو قابو میں رکھنے کے لیے ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے خرچ کرتا ہے،بچاؤ کا طریقہ آپ جو بھی استعمال کریں اتنا ضرور یاد رکھیں کہ ہماری زندگی ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس امانت کی حفاظت ہم پر فرض ہے۔اللہ رب العزت کا ارشاد ہے اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالو۔

Leave a Comment