مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ
بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
مغربی تہذیب نے مشرق کو جو چیزیں سپلائی کی ہیں،ان میں ایک کھڑے کھڑے کھانے کا طریقہ بھی ہے،ہر کاؤنٹر پر جاکرپلیٹ بڑھائیے، بیراایک دو چمچ، کھانا سالن، سبزی، ترکاری،روٹی ڈالتا جائے گا،سب لے کر ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ٹیبل کرسی لگی ہوئی ہواور آپ اس پر بیٹھ کر کھائیں، یہ طریقہ بوفے سسٹم کا نصف ہے،پورا بوفے اس وقت ہوتا ہے جب بیٹھ کر کھانے کا کوئی موقع نہ ہو اور جانوروں کی طرح پلیٹ سے لے لے کر چرتے چُگتے جائیے، تہذیب جدید نے اس غیر مہذب طریقہ طعام کو رائج کیا ہے اور ہاتھ میں پلیٹ لے کر فقیر بنا دیا ہے،ان دنوں تقریبات میں کھانا پینا اسی طرح چلتا ہے، اس تہذیب نے اسلام میں کھانے کا جو سنت طریقہ ہے، اسے کالعدم ہی نہیں نسیاًمنسیاً کردیا ہے، دسترخوان پر کھانا لگانے کی روایت تقریبات میں اب لوگ بھولتے جا رہے ہیں،کچھ مجبوریاں بھی ہیں، پہلے تقریبات میں لوگوں کی شرکت خدمت کے جذبے سے ہوتی تھی، لوگ دسترخوان بچھانے، کھانا لگانے، جو ٹھی رکابیاں اٹھانے،بلکہ اسے دھونے تک کو عار نہیں سمجھا کرتے تھے، اتنی بڑی تعداد میں لوگ مدعو بھی نہیں ہوتے تھے،جتنے اب ہونے لگے ہیں، سیاسی لوگوں کے یہاں تو پورے اسمبلی اور پارلیمینٹر ی حلقہ کے لوگوں کی عام دعوت ہوتی ہے،لوگ صرف کھانے آتے ہیں، آپ کے یہاں بارات آئی یا نہیں،نکاح ہوایا نہیں،ا س سے کوئی مطلب نہیں ہوتا،آئے، کھایا، ہاتھ دھویا نہیں، ٹیشو پیپر (کاغذی رومال)سے پوچھا اور چلتے بنے،جہاں،د ان دکچھنا، سلامی اور نیوتہ دینے کی روایت ہے، وہاں لفافہ تھما دیا اور کام ختم ہوگیا، مردوعورت دونوں کا یہی حال ہے،عورتیں آرائش و زیبائش میں مقابلے کے جذبے سے بن سنور کر آتی ہیں،کپڑے تبدیل کرنے کا بھی مقابلہ ہوتا ہے، ایسے میں اگر وہ عورتوں کو کھلانے میں لگ گئیں تو ان کا میک اپ تباہ ہوکر رہ جائے گا، جب لپ اسٹک کی لائنوں کو بچانے کے لیے ”پاپا“کی جگہ”ڈیڈی“ کہا جانے لگا ہو،ایسے میں خدمت کون کرتا ہے،مردو ں میں بھی اب بننے سنورنے کا رواج عام ہے،اسی لئے اب ”لیڈیز بیوٹی پارلر“کے ساتھ شہروں میں ”جنٹس بیوٹی پارلر“ کا پیشہ بھی عروج پر ہے،ایسے میں تقریب کرنے والوں کو ریڈی میڈ پلیٹ دے کر اپنی مرضی سے پکے ہوئے کھانے کاؤنٹرسے لے لینے اور چلتے پھرتے کھانا کھلا دینے میں عافیت محسوس ہوتی ہے، ہزاروں لوگ کھاکر جلدی نمٹ جاتے ہیں اور گھر والا چین کی سانس لیتا ہے،کھانا کھلانے کا یہ طریقہ ان دنوں مغربی ملکوں کے ساتھ مسلم ممالک میں بھی رواج پارہا ہے اور اسلامی تہذیب و اقدار کا جنازہ نکلتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کھانے کا بڑا نقصان کھانے کی بربادی ہے، جو مالدار ممالک ہیں، ان کے یہاں یہ بربادی زیادہ ہے، غریب ملکوں میں کم ہے، کھانے کی اس بربادی میں امریکہ سب سے آگے ہے اور اس کے بعد عرب ملکوں کا نمبر آتا ہے، ان کے یہاں بیٹھا کر کھلانے کی شکل میں بھی اتنا کھانا پلیٹ میں ڈال دیا جاتا ہے کہ اسے
بچنا ہی ہے اور بچا ہوا کھانا پھینکا ہی جائے گا، دوسرا کوئی کھا نہیں سکتا، یہ عمل اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی نعمت کو برباد کرنے جیسا ہے، اور نعمت کی ناقدری زوال نعمت کا سبب ہوا کرتی ہے۔
اس معاملے کا بڑا خطرناک پہلو یہ ہے کہ جو کھانا پھینک دیا جاتا ہے وہ سڑ کر ماحول میں تعفن اور بدبو پیدا کرکے فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، اس کابڑا منفی اثرزمین، پانی، انسان،چرند و پرند شجر و حجر تک پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں ہی پیدا نہیں ہوتیں، پورا ماحول متاثر ہو جاتا ہے، ایک اندازے کے مطابق ۳ء۱ /ارب ٹن کھانا ہر سال برباد ہوتا ہے، اور فضائی آلودگی پیدا کرتا ہے، حالانکہ اس دنیا میں ایک سروے کے مطابق نوے ارب لوگ وہ ہیں، جنہیں غذائی اجناس کی قلت کا سامنا ہے، اور تقریباً ۸۲ کروڑ لوگوں کو شکم سیر ہو کرکھانے کو نہیں مل رہا ہے، ایسے میں پوری دنیا میں تیار شدہ کھانے کا ایک تہائی حصہ برباد ہوجاتا ہے، اور کھانے کی بربادی کا مطلب صرف غذائی اجناس کی بربادی نہیں بلکہ یہ پیسوں، روپے،پانی، توانائی، زمین وغیرہ کی بھی بربادی ہے، اس سے پورا ماحول خراب ہوتا ہے، یہ کچرے کے ڈھیر میں سڑ کر میتھن گیس پیدا کرتا ہے، برباد ہوئے کھانے سے گرین ہاؤس گیس بھی پیدا ہوتا ہے، جو پورے ماحول کو زہریلا بنانے کا کام کرتا ہے،دنیا کے تمام ممالک اس صورتحال سے پریشان ہیں، ابھی حال ہی میں دو سو ملکوں کی کانفرنس اس حوالے سے ریڈی میڈ میں ہوئی تھی، مگر کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی، اس کا صاف مطلب ہے کہ فکرمند سب ہیں، لیکن عملی اقدام کا حوصلہ ان کے اندرنہیں ہے
بِلّی کے گلے میں گھنٹی باندھنا چوہوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
یہ حوصلہ صرف اسلام کے پاس ہے کہ وہ ہر قسم کی فضائی آلودگی سے دنیا کو بچا سکتا ہے، وہ صفائی کو ایمان کا جزو قرار دیتا ہے، کوڑے کچڑے کو ٹھکانے لگانے کا بھی اس کے یہاں ایک نظام ہے، کھانے کے سلسلے میں اس کے یہاں دسترخوان بچھا کر کھانے کا تصور ہے اور دسترخوان پر کوئی دانہ گر جائے تو اسے چن کر کھا لینے کی بات کہی گئی ہے،نہیں معلوم کہ کس دانے میں کیا برکت ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو بادشاہوں کی دعوت میں بھی دسترخوان پر گرے دانوں کو چن کر کھا جاتے تھے اور اگر کوئی ٹوکتا تو کہہ دیتے کہ ہم ان بیوقوفوں کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ نہیں سکتے،ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے کھانے میں چیونٹی اور جانوروں کا بھی حصہ ہے، ہمارے یہاں دسترخوان سے جو چیزیں پھینکی جاتی ہیں، ان میں سے ہڈی کتوں کی خوراک بن جاتی ہے،گوشت کے جو ٹکڑے چبائے نہیں جا سکے وہ بِلّی کے کھانے کے کام آجاتاہے، اگر روٹی کا ٹکڑا دسترخوان سے چن کر نہیں کھایا گیا اور وہ باہر جھاڑ دیا گیا تو پرندوں نے کھا لیا، اور روٹی کے بُرادے چیونٹیوں کے کام آگئے، کچھ بھی کچڑا میں نہیں گیا کہ اس کی سرانڈ سے فضائی آلودگی کا مسئلہ سامنے آئے،اس لیے غیر مہذب بوفے سسٹم کو ختم کرکے کھانا کھانے اور کھلانے میں اسلامی طریقوں کو رواج دینا چاہیے، دشواریاں ہیں اور یقیناً ہیں؛لیکن سنت پر عمل کے جذبے سے ہم اٹھیں گے تو اللہ کی نصرت اور مدد آئے گی اور پریشانیاں دور ہوں گی، صر ف دشواری دشواری کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا،اس طرح کھانا کھلانے میں غذائی اجناس اور پکے ہوئے کھانے کی بربادی سے بچا جا سکے گا اور اس بربادی کے نتیجے میں جو پریشانیاں ہماری زندگی کو برباد کرنے پر تُلی ہوئی ہیں، ہم اس سے محفوظ رہ سکیں گے۔