ڈاکٹر سراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور،یوپی
9897334419
فتح مکہ کے بعد نبی اکرم ؐ نے حج ادا کیا ، وہ آپ کاآخری حج تھا ، اس کے بعد آپؐ اپنے رب سے جا ملے۔آپ نے جو حج فرمایا وہ اکمل ترین شکل میں تھا، اس لیے آپؐ نے صحابہ ؓسے فرمایا کہ مجھ سے حج کے طریقے سیکھ لو، شاید آئندہ میں رہوں یا نہ رہوں۔ آپؐنے جس طریقے پر حج کیا امت مسلمہ آج تک اسی طریقے پر عمل پیرا ہے۔ ذیل میں ایک صحابی ٔ رسول حضرت جابر ؓجو اس حج میں آپ کے ہم رکاب تھے نے جو دیکھا، جو کیا اور جو بیان کیا وہ درج کیا جارہا ہے۔
آپ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں نو سال رہے۔ اس عرصہ میں آپؐ نے کوئی حج نہیں کیا۔ آپؐ نے سن دس ہجری میں یہ اعلان کرایا کہ میرا ارادہ حج کرنے کاہے۔ اس اعلان کو سنتے ہی لوگ کثیر تعداد میں مدینہ پہنچ گئے۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ آپؐ کے ہم رکاب ہو۔ آپؐ کے نقشِ قدم پر چلے اور جو کچھ رسول اللہ ﷺ کو کرتے دیکھے خود بھی اس پر عمل کرے۔ ہم آپؐ کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے اور ذو الحلیفہ پہنچے۔ اس مقام پر اسماء بنت عمیس کے یہاں محمد بن ابی بکرؓ کی ولادت ہوئی۔ انھوں نے اس کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو دی اور معلوم کیا کہ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم غسل کرکے لنگوٹ کس لو اور احرام باندھ لو۔
ذو الحلیفہ مسجد میں ظہر کی نماز پڑھ کر آپؐ اپنی اونٹنی جس کا نام قصوا ء تھا پر سوار ہوگئے۔ جب اونٹنی بیداء کے مقام پر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ تاحد نگا ہ آگے پیچھے اور دائیں بائیں سوار اور پیادے انسانوں کا ہجوم تھا۔ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے۔ آپؐ پر وحی نازل ہوتی تھی اور آپؐ قرآن کے مفہوم و مدعا کو خوب جانتے تھے، جو عمل آپ ؐ کرتے تھے وہی ہم بھی کرتے تھے۔ (جب اونٹنی کھڑی ہوئی) تو آپؐ نے بلند آواز سے اللہ کی وحدانیت کا یہ تلبیہ پڑھا۔
لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَک، لَبَّیْکَ، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ، وَالْمُلْکَ، لاَ شَرِیْکَ لَکَ۔
آپؐ کے اصحاب نے بھی تلبیہ پڑھا ۔حضرت جابر ؓ آگے بیان کرتے ہیں کہ ہماری نیت صرف حج کرنے کی تھی۔ ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا ہے۔ جب ہم آپؐ کے ساتھ خانہ کعبہ پہنچے تو آپؐ نے سب سے پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر (طواف شروع کیا) پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار چکروں میں معمولی رفتار سے چلے، پھر مقام ابراہیم کی طرف گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی‘‘ پھر اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیم آپؐ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا ۔ آپ نے دو رکعتوں میں قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدْ اور قُلْ یَا اَیُّہَا الْکَافِرُوْنَ کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد حجر اسود پر تشریف لائے اور اس کا استلام کیا۔حجر اسود کا استلام کرکے آپؐ دروازہ (باب الصفا) سے صفا کی طرف گئے اور یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰہِ‘‘ اس کے بعد فرمایا: اللہ نے اس آیت میں جس مقام کا ذکر پہلے کیا ہے، میں اسی سے اپنی سعی کا آغاز کروں گا۔ چنانچہ آپؐ صفا پر چڑھ گئے۔ جب بیت اللہ نظر آنے لگا تو قبلہ رخ کھڑے ہوکر اللہ کی توحید و تکبیر میں مشغول ہوگئے۔ آپؐ نے یہ کلمات کہے۔
’’ لاَ اِٰلہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ ، اَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ ، وَہَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہُ۔‘‘
اس کے بعد دعاکی اور تین بار ایسا ہی کیا۔ پھر آپؐ صفا کی طرف چلے۔ وادی کی نشیب میں پہنچے تو دوڑ کر چلے۔ جب نشیب سے اوپر آگئے تو عام رفتار سے چلتے رہے، مروہ پر پہنچے تو وہی عمل کیا جو صفا پر کیا تھا۔ آخری چکر پورا کرکے مروہ پر پہنچے تو اپنے اصحاب ؓ سے فرمایا: میرے ذہن میں پہلے وہ بات آجاتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اپنے احرام کو عمرہ کہ احرام بنالیتا۔ تم ایسا کروکہ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں ہے وہ احرام ختم کردے اور اس کو عمرہ کااحرام بنالے۔ سراقہ بن مالکؓ نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! یہ حکم کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کیا جائے، صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ آپؐ نے فرمایا ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دو مرتبہ فرمایا کہ عمرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حج میں داخل ہوگیا ہے۔
یوم الترویہ (۸؍ذی الحجہ) آیا تو (جن لوگوں نے احرام کھول لیا تھا) انھوں نے حج کااحرام باندھا اور منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر منٰی تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پانچوں نمازیں پڑھیں۔ فجر کے بعد منیٰ میں کچھ دیر ٹھیرے ۔ جب سورج نکل آیا تو عرفات کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؐ کی ہدایت کے مطابق وادی نمرہ میں خیمہ لگایاگیا۔ قریش کو یقین تھا کہ آپؐ مشعر حرام پر جاکر رک جائیں گے، اس سے آگے نہیں جائیں گے ، جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش کا دستور تھا۔ لیکن آپؐ اس سے آگے بڑھے اور میدان عرفات پہنچ گئے۔ آپ ؐ نے دیکھا کہ ہدایت کے مطابق خیمہ لگا دیاگیا ہے۔ آپ ؐ نے اس میں قیام فرمایا۔
جب سورج ڈھل گیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ قصواء پر کجاوہ کس دیا جائے۔ آپؐ اس پر سوار ہوئے اور وادی کے درمیان تشریف لائے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’ لوگو! تمھاری جانیں اور تمھارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمھارا یہ دن اس شہر اور اس مہینہ میں قابلِ احترام ہے۔میں دور جاہلیت کے تمام دستور اور رسم و رواج اپنے قدموں کے نیچے پامال اور دفن کرتاہوں۔ جاہلیت کے تمام خون بھی معاف ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ایک فرد ربیعہ بن حارث کے خون کی معافی کااعلان کرتاہوں، جو بنی سعد کے ایک گھر میں دودھ پینے کے لیے رہتے تھے اور ان کو قبیلہ ہذیل کے آدمیوں نے قتل کردیا تھا۔زمانۂ جاہلیت کے تمام سودی مطالبات کالعدم ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے ایک شخص عباس ؓ بن عبد المطلب کے سودی قرضوں کی معافی کااعلان کرتا ہوں۔
لوگو! عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تم نے اللہ کی امانت کے طور پر ان کو اپنے نکاح میں لیاہے اور اللہ کے قانون ہی نے انھیں تمھاری جائز بیویاں بنائی ہیں۔ ان پر تمھارا یہ حق ہے کہ جس شخص کا گھر میں آنا اور ان کا بیٹھنا تم کو پسند نہ ہو وہ اس کو آنے نہ دیں۔ اگر وہ یہ غلطی کریں تو ان کی اصلاح کے لیے تم ہلکی سزا دے سکتے ہو۔ تم پر عورتوں کا یہ حق ہے کہ تم دستور اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خوراک اور لباس فراہم کرو۔ میں تمھیں راہِ ہدایت پر قائم رہنے کے لیے ایک ایسی چیز دے کر جارہا ہوں کہ اگر تم اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ وہ چیز اللہ کی کتاب ہے۔
لوگو! قیامت کے دن تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا( کہ میں نے اللہ کا دین اور اس کی دعوت تم لوگوں تک پہنچائی یا نہیں) بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ہم گواہی دیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا دین اور اس کی دعوت ہم تک پہنچا دی ۔ ہماری تعلیم و تربیت کا حق ادا کردیا اور ہماری نصیحت وخیرخواہی کے لیے ہر وقت فکر مند رہے۔ آپؐ نے یہ سن کر آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہ کہ میں نے تیرے دین کا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا اور حق رسالت ادا کردیا۔‘‘
اس کے بعد حضرت بلالؓ نے اذان دی، پھر اقامت کہی۔ آپؐ نے ظہر کی نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے اقامت کہی اور آپؐ نے عصر کی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی (نفل یاسنت) نماز نہیں پڑھی۔(نماز ظہر وعصر سے فارغ ہوکر) آپؐ ناقہ پر سوار ہوئے اور اس جگہ تشریف لائے جہاں وقوف کرنا تھا۔ اپنی سواری قصواء کا رخ چٹانوں کی طرف کردیا، پیدل لوگوں کا مجمع سامنے تھا، آپؐ قبلہ رو ہوگئے۔ سورج غروب ہونے تک اسی طرح وقوف فرمایا۔ جب زردی ختم ہوگئی اور سورج غروب ہوگیا تو اسامہ ؓ بن زید کو اپنی اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور (مزدلفہ کے لیے روانہ ہوگئے، آپؐ نے اونٹنی کی لگام کھینچ رکھی تھی، یہاں تک کہ اس کا سر کجاوے سے لگ گیا تھا۔ آپؐ سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرکے فرما رہے تھے کہ لوگو! اطمینا ن و سکون سے چلو، ریت کا کوئی ٹیلا آجاتا تو لگام ذرا ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے۔ مزدلفہ پہنچ کر آپؐ نے مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی سنت یا نفل نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد آپؐ لیٹ گئے۔ فجر طلوع ہوتے ہی اذان واقامت کے ساتھ نماز فجر ادا فرمائی۔ اس کے بعد قصواء پر سوار ہوکر مشعر حرام کے پاس تشریف لے گئے ۔ قبلہ رو کھڑے ہوکر اور دعا، تکبیر و تہلیل اور توحید کے ذکر میں مشغول رہے۔ جب روشنی خوب پھیل گئی تو سورج نکلنے سے کچھ پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔ اس بار آپؐ نے فضل ؓ بن عباس کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
جب آپؐ وادی محسّر کے درمیان پہنچے تو اونٹنی کی رفتار تیز کردی اور وہ درمیانی راستہ اختیار کیا جو بڑے جمرہ کی طرف نکلتا ہے۔آپؐ اس کے قریب گئے، جمرہ کو سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پھینکتے وقت آپ اللہ اکبر کہتے تھے۔ یہ ٹھیکریوں کی طرح چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔ آپؐ نے وادی کے نشیب میں کھڑے ہوکر کنکریاں ماریں۔ اس سے فارغ ہوکر قربان گاہ تشریف لے گئے اور اپنے دست مبارک سے63 اونٹ نحر (ذبح) کیے۔ باقی اونٹ حضرت علی ؓ کے حوالہ کردیے۔ ان سب کی قربانی انھوں نے کی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنی قربانی میں شریک کیا۔ آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ ہر اونٹ کے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا جائے، ان سب کو ایک دیگ میں ڈال کر پکایا گیا۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت علیؓ نے یہ گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ اس کے بعد آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر بیت اللہ گئے اور طواف افاضہ کیا۔ آپؐ نے نماز ظہر مکہ معظمہ میں پڑھی۔ اس سے فارغ ہوکر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگوں کو آب ِ زم زم پلا رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اے بنی عبدالمطلب پانی نکال کر لوگوں کو پلاؤ۔ اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غلبہ پاکر تم سے یہ خدمت چھین لیں گے تو میں تمھارے ساتھ پانی نکالتا۔ ان لوگوں نے آب ِ زم زم کا ایک ڈول بھر کر آپ کی خدمت میں پیش کیاتو آپ ؐ نے اس میں سے نوش فرمایا۔ (مسلم)