عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ،پنجاب
رابطہ 9855259650
اللہ پاک نے اپنی کائنات میں بے شمار انسان پیدا کیے ہیں ،ان کو اس نے الگ الگ خوبیوں اور اوصاف سے نوازا ہے ۔ میٹھی آواز بھی خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ اس سلسلے میں جب ہم آواز کی دنیا کی بات کرتے ہیں، تو ایک نام جو سرِ فہرست نظر آتا ہے ،وہ نام معروف بالی وڈ پلے بیک سنگر محمد رفیع صاحب کا ہے۔
گیت ہو کہ غزل ،قوالی ہو یا نعت ،شبد ہو یا بھجن رفیع صاحب نے ہر طرح کی گائیکی میں اپنی آواز کا کچھ ایسا لوہا منوایاکہ دنیا آج بھی ان پہ ناز کرتی ہے۔
حالانکہ رفیع صاحب کو ہم سے جدا ہوئے تقریباً چار دہائیاں گزر گئیں ہیں. اسکے باوجود انکی آواز کا جادو آج بھی چاہنے والوں کے ذہن و دل پہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کبھی ریڈیو پر انکا گیت بجتا سنائی دیتا ہے تو گویا کانوں میں شہد گھولتامحسوس ہوتا ہے۔
محمد رفیع 24دسمبر1924 کوہندوستان میں امرتسر کے نزدیکی گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں ایک عام اور معمولی خاندان میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد حاجی علی محمد ایک نیک صفت انسان تھے۔محمد رفیع اپنے چھ بھائیوں میں سے دوسرے نمبر پر تھے۔رفیع صاحب کو بچپن میں سبھی لوگ” پھیکو ”کے نام سے پکارتے تھے ،آپ نے شروعاتی تعلیم اپنے گھر میں ہی حاصل کی اوراسکے بعد گاؤں کے اسکول میں صرف دوسری جماعت تک ہی پڑھائی حاصل کر سکے؛ کیوں کہ بچپن سے ہی آپ کو گانے شوق تھا ؛اس لیے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔اسکا انکشاف کرتے ہوئے رفیع ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میری عمر کوئی دس بارہ سال رہی ہوگی کہ گاؤں میں ایک سوالی مانگنے کے لیے آیا کرتاتھا،وہ بہت ہی خوبصورت آواز میں ایک گیت’جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا’ گایا کرتا تھا ۔اسی گیت کو دہراتے ہوئے وہ اس فقیر کاپیچھا کرتے ہوئے بہت دور نکل جاتے تھے۔ایک مرتبہ اس فقیر نے رفیع صاحب سے کہاتھا تو ایک دن بہت بڑا گلوکار بنے گا اور زمانے بھر میں اپنا اوراپنے ماں باپ کا بڑا نام روشن کریگا۔
اسی بیچ رفیع کے والد 1935میں لاہور چلے گئے ،جہاں انھوں نے بھاٹی گیٹ کے قریب نور محلاں میں ایک سیلون کھولا۔رفیع کے بڑے بھائی محمد دین کے ایک دوست عبدالحمید نے لاہور میں رفیع کے ٹیلنٹ کو پہچانتے ہوئے اس کو گانے کے لیے مزید تلقین و ریاض کرتے رہنے پہ زور دیا ۔عبدالحمید نے ہی بعد میں رفیع کے خاندان کے بزرگوں کو رفیع کوممبئی بھیجنے کے لیے رضا مند کیا۔
رفیع نے پہلی بار 13 سال کی عمر میں کے ،ایل ،سہگل کی موجودگی میں لاہور میں تب گیت گایا، جب اسپیکر کی لائیٹ چلی جانے کی وجہ سے سہگل صاحب نے گانے سے منع کر دیا، تو وہاں پہ موجود بھیڑ کو سنبھالنا مشکل ہوگیا، تو اسٹیج پر رفیع صاحب کو جب سامعین کے روبہ رو کیا گیا اور جیسے ہی آپ نے گانا شروع کیا تو پنڈال میں ایک دم خاموشی چھا گئی اور جمع لوگ پوری توجہ سے ننھے رفیع کو سننے لگے۔
اس کے بعد 1941 میں رفیع صاحب نے شیام سندر کے ساتھ گیت گایا۔اس گانے کے بو ل تھے” سوہنئے نی ہیریئے نی”جو زینت بیگم کے ساتھ لاہور میں ایک پنجابی فلم ”گل بلوچ ” کے لیے گایا گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی ان کابطور گلوکار کے سفر کاآغاز ہوگیا۔اس دوران محمد رفیع کو آل انڈیا ریڈیو لاہور نے اپنے لیے گانے کی دعوت دی ۔
1944 میں رفیع صاحب ممبئی چلے آئے، انھوں نے عبدالحمید کے ساتھ ممبئی کے گنجان آبادی والے بھنڈی بازار میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنا شروع کیا، شاعر تنویر نقوی نے محمد رفیع کو فلم پروڈیوسر عبدالرشید ڈائیریکٹر محبوب خان اور اداکار نذیر وغیرہ سے ملوایا۔محمد رفیع جو کہ اپنے مختلف گانوں کو کئی انداز میں گانے کے لیے مشہور تھے، انھوں نے شاستری نغموں سے لے کردیش بھگتی کے گیت ،اداس گیت سے لیکر رومانس بھرے گیت ،غزل،بھجن اور قواّلی سبھی قسم کے گیتوں کو اپنی آواز کے سانچے میں ڈھالتے ہوئے رہتی دنیا تک زندہ جاوید کر دیا۔ان کو مختلف فلمی اداکار وں کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز میں گانے کی خدا داد صلاحیت حاصل تھی۔اپنی اسی خوبی کے چلتے 1950سے 1970کے درمیان رفیع ہندی فلم جگت میں سب سے زیادہ ڈیمانڈنگ گلوکار تھے۔دلیپ کمار سے لے کر امیتابھ بچن تک ہر چھوٹے بڑے اداکا ر کے لیے رفیع نے اپنی پلے بیک آواز مہیا کی ۔ رفیع کے مرنے کے بعد ایک دفع” یاہو” اداکار شمی کپور نے کہا تھا کہ آج ان کی آواز چلی گئی ہے اور وہ گونگے ہوگئے ہیں۔
محمد رفیع عام طور پر ہندی کے گیت گانے کے لیے مشہور تھے،جس پہ انکو کمال کی مہار ت حاصل تھی، انھوں نے کئی دیگر زبانوں مین بھی گیت گائے ان میں اردو، آسامی،کوکنی،بھوجپوری،اڑیا،پنجابی بنگالی، مراٹھی ،سندھی،کنّڑ ،گجراتی ، تیلگو،مگاہی ،میتھلی وغیرہ شامل ہیں۔ ہندوستانی زبانو ں کے علاوہ انھوں نے انگریزی ،فارسی،عربی،ڈچ وغیرہ میں بھی بڑی مہارت کے ساتھ پورا پوار انصاف کرتے ہوئے نغمے گائے ،جو آج بھی ان کے عظیم گلوکار ہونے کی شہادت دے رہے ہیں ۔ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ وہ دوسری زبانوں میں اتنی خوش اسلوبی سے کیسے گا لیتے ہیں؟تو انھوں نے کہا کہ وہ پہلے دوسری بھاشا کے گیتوں کو اردو میں لکھ لیتے ہیں،اس کے بعد پوری ریہرسل کرتے ہیں، پھر اس گیت کو گاتے ہیں۔
اپنے 35سالہ کیرئیر میں رفیع صاحب نے قریب 26000 گیت گائے۔اتنے زیادہ گیت گانے کے باوجود رفیع صاحب کس قدر سادہ طبیعت کے مالک تھے ،اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک بار فلم نصیب کا مشہور گیت ”چل چل میرے بھائی” امیتابھ بچن کے ساتھ ریکارڈ کرواکر آئے، تو گھر آتے ہی اپنے اہل خانہ سے بولے کے آپ کو پتا ہے کہ آج میں کس عظیم ایکٹر کے ساتھ گیت گاکر آرہا ہوں ،پھر خود ہی بولے امیتابھ بچن کے ساتھ۔ حالاں کہ اس وقت رفیع صاحب کا قد خود اتنا زیادہ بلند تھا کہ کسی بھی بڑے اداکار کو ان کے ساتھ گانے میں فخر محسوس ہو تاتھا۔
اسی طرح کشور کمار کے ساتھ ان کے رشتوں کو لے کر میڈیا والے آئے دن کچھ نہ کچھ ایسا لکھتے رہتے تھے ،جس سے قارئین کو ایسا لگتا تھا کہ ان میں کافی زیادہ ان بن اور کھٹاس ہے؛ لیکن ایسا نہیں تھا ؛کیوں کہ اتفاق سے اگر کسی سٹوڈیو میں رفیع اور کشور دا کی ریکارڈنگ ایک ہی دن ہوتی ،تو دونوں میں جوبھی ریکارڈنگ پہلے کروا لیتا، وہ بیٹھ کر دوسرے کا انتظار کرتا اور پھر دونوں جب ملتے، تو گھنٹوں آپس میں باتیں کرتے ۔ایک بار فلم ”امر اکبر اینتھنی” کی مشہور قوالی، جو کہ رشی کپور کے اوپر فلمائی گئی تھی ،اس کی ریکارڈنگ کے بعد رفیع نے منموہن ڈیسائی سے کہا کہ اس میں ایک سین ،جو امیتابھ پر فلمانا ہے ،اس کے لیے ” تو اکبر میرا کی جگہ تیرا نام نہیں ہے ‘آنا چاہیے تھا۔ اسی بیچ رفیع صاحب لندن چلے گئے ،تو بعد میں جب منموہن دیسائی کو اس بات کا احساس ہوا ،تو انھوں نے رفیع صاحب کو فون کیا کہ آپ اس ایک لائین کو دوبارہ ریکارڈ کروا جا ئیں، تو انھوں نے کہا کہ میں تو لندن میں ہوں ،آپ کشور کمار سے اس ایک لائین کی ریکارڈکروا لیں ؛لیکن منموہن دیسائی نے معذرت چاہی کہ کشور کمار میرے کہنے سے شاید نہ آئیں، تو رفیع صاحب نے سیدھا کشور کمار کو فون کیا اور تمام ماجرا سمجھایا ،تو کشور کمار فوراً اس ایک لائین کی ریکارڈنگ کروانے کے لیے سٹوڈیو آئے ، وہ ایک لائین فلم میں قوالی کے دوران امیتابھ بچن پر فلمائی گئی ہے۔
رفیع صاحب بہت کم بولتے تھے اور طبیعت میں نرمی گویا کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔اگر کوئی آپ کے گانے کی تعریف کرتا ،توشہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر کہہ دیتے کہ یہ اوپر والے کی بخشش ہے اور میری ماں کی اور فقیر بابا کی دعاؤں کا ثمرہ ہے ۔آپ نے اپنے بچوں کو مارنا تو دور، کبھی ڈانٹا بھی نہیں ، ہاں اگر بچوں میں کسی غلطی یا کوتاہی کو دیکھتے، تو اپنی بیوی کے ذریعے سے اسے دور کروا دیتے ۔آپ فلمی پارٹیوں میں بہت کم جاتے تھے ۔ شادی بیاہ یا کسی دوسری تقریب میں اگر مجبوری میں جانا بھی پڑتا ،توشمولیت فرما کر یعنی اپنی شکل دکھا کر فوراًواپس آجاتے۔
ایک دفعہ مجھے لکھنؤ سے ایک درزی پاٹھک کا فون آیا تو اس نے باتوں باتوں میں مجھے بتایا کہ رفیع صاحب ایک بار لکھنؤ کے ریسٹ ہاؤس میں آکر ٹھہرے تو مجھے (اس درزی) ان کے کپڑوں کے ناپ کے لیے بلایا گیا تو میں نے رفیع صاحب کو بہت سادہ طبیعت پایا… میری طرف سے انکے کرتے پاجامے کا ناپ لیتے وقت رفیع صاحب نے مجھ سے کہا کہ بھائی کپڑے تھوڑے کھُلے بنائیے گا کیونکہ میں اکثر نماز کُرتے پاجامہ پہن کر پڑھتا ہوں.
ایک بار کسی اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی کہ کسی شہر میں کسی مجرم کو پھانسی دی جانی تھی، تو اس سے اسکی آخری خواہش پوچھی گئی ،تو اس نے بتانے سے انکار کردیا، جب بار بار اصرار کیا گیا تو اس مجرم نے کہا کہ وہ رفیع صاحب کا گیت۔
او دنیا کے رکھوالے ،سن درد بھرے میرے نالے !
جیون اپنا واپس لے لے ،جیون دینے والے!
سننا چاہتاہے۔پھر کیا تھا، جیل میں ٹیپ ریکارڈ کا انتظام کیا گیا اور اس کے بعد سزا کے حکم کی تعمیل کی گئی۔
رفیع صاحب کے سپر ہٹ نغموں میں سے کچھ یہ ہیں: ”یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں” ”کیا ہوا تیرا وعدہ” ”او دنیا کے رکھوالے” ” دل دیا درد لیا” ،”لکھے جو خط تجھے” ، ”اے محبت زندہ باد” ”چاہوں میں تجھے ” ”آدمی مسافر ہے” ”میرے دشمن تو میری دوستی کوترسے” ”یہ زلف اگر کھل کے بکھر جائے تو اچھا” ،”جان جانی جنا دھن ” پردہ ہے پردہ” ” نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر پیار کی دنیا میں” ”میں جٹ یملا پگا دیوانہ” ،”پتھر کے صنم ” بابل کی دعائیں لیتی جا” ”چودھویں کا چاند ہو” ،” وقت سے دن اور رات” ، ”جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا” ”چٹّے دند ہنسنوں نہیوں رہندے” ، ”دانا پانی کھچ لیاوئندہ ” اور دھارمک شبد ” متر پیارے نو حال مریداں دا کہنا” ”نانک نام جہاز ہے” ”دکھ بھنجن تیرا نام ” ، ”میں تیرے در پہ آیا ہوں” ”یا خدا سوئی قسمت جگا دے، ہر مسلماں کو حاجی بنادے” وغیرہ ہیں۔
رفیع صاحب کو چھ فلم فیئر اور ایک نیشنل ایوارڈ ملا۔1967 میں ٓاپ کو حکومتِ ہند کی جانب سے پدم شری سے نوازاگیا ۔آخر کا ر آواز کی دنیا کا یہ عظیم فنکارو ستارہ 31 جولائی 1980کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ممبئی ایک ہسپتا ل میں رات کے قریب دس بج کر بیس پر اس جہانِ فانی کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے الودع کہہ گیااور ساتھ ہی موسیقی کی دنیا میں ایک ایسا خلا پیدا کر گیا، جس کی تلافی ممکن نہیں ۔بے شک موسیقی سے محبت کرنے والوں کو ان کی کمی ہمیشہ کھلتی رہے گی۔شاید اس بات کا احساس رفیع صاحب کو بھی تھا ،تبھی تو انھوں نے ایک گیت میں کہا تھا کہ:
تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے
جب کبھی بھی سنو گے گیت میرے
سنگ سنگ تم بھی گن گناؤ گے!