ام سلمیٰ
کاروبار کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک تاجر نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرتا ہے۔ ایک دکان دار، صنعت کار یا تاجر ہزاروں افراد کے لیے روزگار کے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے کاروباری طبقے پر ہوتا ہے۔ جن ممالک میں کاروبار اور صنعت کو زیادہ فروغ دیا گیا ہے، وہی ممالک آج ترقی یافتہ ہیں۔
اسلام نے جائز کاروبار کو عبادت کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے خود بھی تجارت کی اور ایمانداری، دیانت اور اعتماد کو کامیاب کاروبار کی بنیاد بتایا۔ قرآن و حدیث میں سود، جھوٹ اور دھوکہ دہی سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور حلال روزی کمانے کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ ایک مسلمان تاجر کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی اور دوسروں کی خدمت بھی ہونا چاہیے۔
پہلے زمانے میں کاروبار صرف بازاروں اور منڈیوں تک محدود تھا، لیکن آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے کاروبار کے انداز بدل دیے ہیں۔ اب آن لائن کاروبار دنیا بھر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لوگ گھر بیٹھے موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنا سامان دنیا کے کسی بھی کونے میں فروخت کرسکتے ہیں۔ ای-کامرس (E-commerce) نے کاروبار کو آسان، تیز اور منافع بخش بنا دیا ہے۔
کسی بھی کاروبار میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے چند اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے:ایمانداری گاہک کا اعتماد حاصل کرنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔محنت محنت کے بغیر کوئی کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔صبر ہر کاروبار میں نفع و نقصان آتا ہے، مگر صبر اور مستقل مزاجی ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔جدت اور منصوبہ بندی وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی لانا لازمی ہے۔ جو تاجر زمانے کے ساتھ نہیں بدلتا، پیچھے رہ جاتا ہے۔گاہک کی ضرورتوں کو سمجھنا کامیاب کاروبار وہی ہے جو لوگوں کی ضرورت کے مطابق سامان یا خدمات فراہم کرے۔
کاروبار صرف ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ قومی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک ایماندار اور محنتی کاروباری شخص اپنی اور دوسروں کی زندگی سنوارتا ہے۔ کاروبار کے ذریعے نہ صرف خوشحالی حاصل ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں بھروسہ، تعاون اور ترقی کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔ لہٰذا ہر فرد کو چاہیے کہ وہ جائز اور دیانتدارانہ طریقے سے کاروبار کرے تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی حاصل کرسکے۔