یہ تھے میرے والد محترم، جناب عبد العلام صاحب

🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

چاند اور تارے

ابو الکلام ، جمالپور ، دربھنگہ

اللہ تعالیٰ نے والدین کو اولاد کے لیے سراپا محبت، شفقت اور بے لوث قربانی کا پیکر بنایا ہے۔ والدین وہ ہستیاں ہیں جن کی دعائیں زندگی کی سب سے بڑی دولت اور جن کا سایہ اولاد کے لیے سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔ وہ صرف رشتے کا نام نہیں بلکہ ایک عہد، ایک محبت اور ایک لازوال قربانی کا استعارہ ہیں۔ وہ اپنی خوشیوں کو تج کر، اپنی نیندوں کو قربان کر کے، اپنی خواہشات کو دفن کر کے، اولاد کے چہرے پر خوشی بکھیرتے ہیں۔ ان کا ہر لمحہ، ہر سانس، ہر دعا صرف اپنی اولاد کی کامیابی کے لیے وقف ہوتی ہے۔

میرے والد محترم، جناب عبد العلام صاحب، بھی انہی ہستیوں میں سے ایک تھے، جن کا وجود ہمارے لیے روشنی کا مینار تھا، جن کی دعائیں ہماری ڈھال اور جن کی محبت ہماری طاقت تھی۔میرے والد محترم کی شخصیت وجاہت اور بارعب جاذبیت کا حسین امتیاز تھی۔ لمبا قد، کشادہ پیشانی، اونچی ناک، بڑی بڑی آنکھیں جن پر عینک، سفید لمبی داڑھی، ترشی ہوئی مونچھیں، بارعب چہرہ، سر پر گول دھاگے والی ٹوپی، لمبا کرتا، عالمانہ وضع قطع، خوش طبع، خوش اخلاق، شگفتہ مزاج، علما کے قدردان، دیندار اور شریعت کے پابند۔ بچوں سے محبت اور شفقت ان کی نمایاں خصوصیات تھیں، اور ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ ان کی باتوں میں مٹھاس، الفاظ میں سچائی اور رویے میں اخلاص تھا۔

اور شفقت بھری مسکراہٹ ان کی شخصیت کی پہچان تھی۔ ان کے چہرے کی روشنی، ان کے کردار کی عظمت اور ان کے الفاظ کی مٹھاس آج بھی دل و دماغ میں بسی ہوئی ہے۔ وہ علم و حکمت کے قدردان، اصولوں کے پاسدار اور دیانت داری کا پیکر تھے۔ ان کی شخصیت محبت، شفقت، صبر، ایثار، خودداری اور اخلاق کی اعلیٰ مثال تھی۔

والد صاحب کی زندگی کا ایک بنیادی اصول تھا کہ علم ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ وہ خود بھی مطالعے کے شوقین تھے اور ہمیں بھی ہمیشہ یہی نصیحت کرتے کہ کتابوں سے دوستی کرو، علم کی روشنی اپنے دل و دماغ میں بسا لو۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی میراث علم ہے، جو انسان کو بلندیوں تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتے، علم کی روشنی ہی وہ چراغ ہے جو زمانے کی تاریکیوں میں راہ دکھاتا ہے۔ ان کے یہ سنہری الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔

زندگی کے ہر نشیب و فراز میں والد صاحب کی شخصیت صبر اور حوصلے کی عملی تفسیر بنی رہی۔ وہ مشکلات کو مسکرا کر جھیلتے اور ہمیں بھی یہی سکھاتے کہ زندگی آزمائشوں کا دوسرا نام ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ “مشکلات کمزور دل والوں کے لیے رکاوٹ بنتی ہیں اور بہادروں کے لیے راستہ۔ وہ ہمیشہ عمل پر یقین رکھتے، کبھی کسی مشکل سے گھبراتے نہیں تھے، بلکہ ہمیشہ حالات کا ڈٹ کر سامنا کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ اطمینان اور عزم کی جھلک رہتی، جیسے زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی کے لیے پہلے ہی تیار ہوں۔ ان کی زندگی بھر کی محنت اور جدوجہد میرے لیے سب سے بڑی درسگاہ تھی۔

والد محترم ہمیشہ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے، رشتہ داروں اور دوستوں کا خیال رکھتے اور ہر ایک کے لیے محبت و خلوص کا خزانہ تھے۔ ان کے دروازے ہر آنے والے کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے، وہ مہمان نوازی میں کسی سے پیچھے نہ رہتے۔ ان کی فراخ دلی ایسی تھی کہ کسی کو ان کے در پر خالی ہاتھ لوٹنا نصیب نہ ہوتا۔ لوگ آج بھی ان کی سخاوت، ان کے اخلاق اور ان کی فیاضی کے قصے سناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، اصل دولت وہ ہوتی ہے جو دلوں میں محبت کی صورت تقسیم ہو۔وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے، چاہے خود کسی مشکل میں ہی کیوں نہ ہوں۔

پانچ جولائی 2023، 14 ذی الحجہ کی صبح وہ گھڑی آن پہنچی، جب یہ چراغ گل ہو گیا۔ صبح 10 بجے والد صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر چند ہی گھنٹے پہلے وہ دوستوں اور احباب سے ملاقات کر رہے تھے، ان سے باتیں کر رہے تھے۔ ایک دن قبل اپنے بڑے بھائی، جناب عبد السلام صاحب، سے فون پر گفتگو کی جو حجِ بیت اللہ کے سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ گفتگو کے دوران انہو ں نے کہاکہ بھائیا، میرے لیے دعا کیجیے گا، میرا کھانا پینا آج سے بند ہو گیا ہے۔ یہ وہ آخری الفاظ تھے جو انھوں نے اپنے بھائی سے کہے۔
وہ چلتے پھرتےاس دنیا سے رخصت ہو گئے، اپنے پیچھے محبتوں اور دعاؤں سے بھرا ایک خاندان چھوڑ گئے۔ ان کے جانے کے بعد ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو کبھی پُر نہ ہو سکے گا، ایک ایسا دکھ جو ہمیشہ دل میں رہے گا۔

میرے والد محترم، جناب عبد العلّام صاحب، ایک نہایت ایماندار، شفیق اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی دیانت داری، خلوص اور خوش اخلاقی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ وہ نہ صرف اپنے خاندان کے لیے بلکہ اپنے دوست احباب اور ارد گرد کے لوگوں کے لیے بھی محبت، شفقت اور ایثار کا عملی نمونہ تھے۔

۲۰۲۲میں ہمارے والد محترم علاج کے سلسلے میں دہلی آئے تو ان کے رشتہ داروں کے علاوہ ان کے دوست احباب بھی بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ ان سے ملنے کے لیے آئے۔ ہر ملنے والا ان کی ایمانداری، شرافت، اخلاق، محبت اور ملنساری سے بے حد متاثر تھا۔ ان کی شخصیت کی سادگی اور خلوصِ دل کو دیکھ کر ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ وہ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے، ہر کسی کے دکھ درد کو سمجھتے اور ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کے ملنے جلنے والے اکثر ان کے اعلیٰ کردار، خلوص اور نرم دلی کی باتیں کرتے اور ان کی زندگی سے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

چند سالوں تک دہلی جامع مسجد کے قریب واقع جواہر ہوٹل میں انہوں نے منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دئے۔ وہاں بھی ان کی ایمانداری، حسنِ سلوک اور شرافت ہر خاص و عام میں بے حد مقبول رہی۔ ان کی دیانت داری اور بہترین انتظامی صلاحیتوں نے نہ صرف ہوٹل کے ماحول کو بہتر بنایا بلکہ وہاں آنے والے مستقل گاہک بھی ان کے حسن اخلاق، خوش مزاجی اور خلوص کی بدولت ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔
ان کی زندگی ہمیشہ اصولوں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی عکاس رہی۔ انہوں نے ہمیشہ حق و سچائی کا دامن تھامے رکھا اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر چلنے کی تلقین کی۔ ان کی یادیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں، اور ان کی سادگی، محبت، اصول پسندی اور بے لوث خدمت ہمیشہ ہمارے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔

اللہ تعالیٰ نے والدین کو بے حد عظمت عطا کی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار والدین کی خدمت اور ان کے احترام کی تاکید کی گئی ہے۔ حدیثِ نبویﷺ کے مطابق: “والدین کی خدمت جنت کے دروازے کھول دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنے والدین کی عزت کریں، ان کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں، ان کے چہرے کی مسکراہٹ کا سبب بنیں، کیونکہ ان کے جانے کے بعد صرف یادیں ہی باقی رہ جاتی ہیں۔

میرے والد محترم اپنی زندگی کا امتحان مکمل کر کے اس دنیا سے جا چکے ہیں، لیکن ان کے سکھائے ہوئے اصول، ان کی محبت اور ان کے نقوش ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے۔ یہ غم ایک ایسا غم ہے جس کی شدت لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی، مگر اس بات کا اطمینان ہے کہ وہ ایک نیک اور عظیم انسان کی حیثیت سے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
اے پروردگار! میرے والدمحترم کو اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھ، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کر۔آمین!۔

ابا کے بغیر گھر سونا سونا لگتا ہے،چاہے لاکھ چراغ جلاؤ، اندھیرا ہی رہتا ہے،جس کے ہونے سے کوئی غم نہ تھا ، اک شخص جو ہر درد کا مرہم تھا

Related Posts

کاروبار اور اس کے اصول

ابوالکلام اسلامی معاشرتی نظام میں کاروبار کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اسلام نے نہ صرف کاروبار کی اجازت دی ہے بلکہ اس کی بہت ساری اہمیت بھی بتائی ہے۔…

Read more

یہ رسومات ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہے

ہماری تہذیب پر اقتدائے مغرب کا خمار چھایا ہوا ہے، اگر آپ جاننے کی کوشش کریں تو اس نوعیت کے ایک دو نہیں بلکہ معاشرے میں ہزاروں واقعات مل جائیں…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *