بدرالزماں مصباحی اِسلامک اسکالر
یہ ایسا دور چل رہا ہے جس دور میں لوگ گناہ کرتے ہیں لیکن اس کا احساس نہیں ہوتا ہے تو اس دور میں اپنے آپ کو کیسے حضور کا عاشق بن کر دنیا میں زندگی گزاریں اگر کسی کے بارے میں برے خیالات پیدا ہو اور بدگمانی کی صورت پیدا ہو جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج بھی تجویز فرمایا ہے آپ ارشاد فرماتے ہیں تین چیزیں میری امت کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی فعال حسن اور بدگمانی سوال کیا گیا کہ ان کے برے نتائج سے کیسے حفاظت ممکن ہے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر حسد پیدا ہو جائے تو اللہ سے استغفار کرو اگر بدگمانی پیدا ہو تو عمل اس کے مطابق نہ کرو اور اس کو ذہن سے نکال دو اگر فعال ہو تو بھی فال بد کی وجہ سے عمل ترک مت کرو کسی کے بارے میں محض خیالات کا آجانا قابل مواخذہ نہیں ہے ایک حدیث کا مضمون ہے اللہ نے میری امت کے وسوسوں کو معاف کر دیا جب تک وہ وسوسوں کی حد تک رہے اور ان کو دور کیا جاتا رہا لیکن اگر اس پر عمل شروع ہوگیا گفتگو کی جانے لگی اور ذہن میں وہ چیز بیٹھنے لگی تو اس پر مواخذہ ہوگا اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا علاج یہ بتایا ہے کہ اگر برے گمان پیدا ہونے لگے تو ان کو باقی نہ رکھا جائے اکثر مواقع پر کسی کا کسی کے بارے میں بدگمانی قائم کر دینا تین خصلتوں کے سبب ہوتا ہے جن سے اجتناب کی ضرورت ہے عجلت پسندی، اور بے صبری ،کسی کے عیب تلاش کرنے کی تجسس، یک طرفہ کسی کی برائی سننا ترفین سے تحقیق کیے بغیر اس پر اعتماد کر لینا خاص کر کے لوگوں کو چاہیے کہ بدگمانی کا موقع کبھی نہ دیں جس طرح کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا گناہ ہے اسی طرح بدگمانی کا موقع فراہم کرنا بھی جائز نہیں مگر آج لوگ صرف بدگمانی کرنے کو غلط سمجھتے ہیں حالانکہ بدگمانی کا موقع دینا اور زیادہ غلط بات ہے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجد میں رمضان کے آخر عشرہ کے اعتکاف میں تھے آپ کی بیوی حضرت صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہ آپ سے ملنے آئی کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد جانے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چھوڑنے مسجد کے دروازے تک آئیے تو دو انصاری آدمی وہاں سے گزرے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا آپ نے فرمایا خبردار یہ صفیہ ہے یعنی گمان نہ کرو کہ کوئی دوسری عورت میرے پاس ہے بلکہ یہ میری ہی بیوی صفیہ ہے ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ یا رسول اللہ نے ہم آپ کے بارے میں کیسے بدگمانی کر سکتے ہیں ان پر یہ بات شاخ گزری تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتا ہے اس لیے مجھے خوف واقع ہوا کہیں تمہارے دل میں بدگمانی نہ پیدا کر دے خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے گمان کو صاف رکھنے اور سوچ کو پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہما وقت اس احساس کو تازہ رکھے کہ ہم امتحان میں ہیں ہم سے نہ صرف اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا بلکہ جسم تحقیق دل میں راسخ ہونے والے خیالات پر بھی بعض پرست ہوگی اگر ہم زندگی کے ہر مور پر احساس کو تازہ رکھے اور اللہ کے ذات سے امید رکھے تو ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوں گے اس پرفتن دور میں جب کوئی آدمی کوئی کام کرے تو اگر وہ کام گمان کے لائق ہو تو اسی وقت وہ اپنے احبابوں سے کہہ دے کہ میں یہ فلاں کام فلاں چیز کے لیے کر رہا ہوں آپ اس سے بدگمانی نہ کریں تاکہ یہ چیزیں کلیئر ہو جائیں اللہ کے بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو بدگمانی سے بچائے اور اپنے رحم و کرم عطا فرمائے آمین ۔