بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ، پنجاب
رابطہ 9530950053
جب بھی ادبی حلقوں میں عظیم شعراء کا تذکرہ ہوتا ہے تو تین بڑے نام ہمارے سامنے آتے ہیں میر تقی میر، غالب اور اقبال…لیکن اگر بات بیسویں صدی کے سب سے بڑے شاعر کی کریں یعنی اقبال کی تو خدا نے مذکورہ پہلے دونوں شعراء کے کلام میں پائی جانے والی مختلف خوبیاں اور اوصاف کو گویا اقبال کی شاعری میں ایک جگہ یکجا کر دیا ہے . اقبال معروف شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مصنف، قانون دان، مسلم صوفی اور سلجھے ہوئے سیاست دان بھی تھے۔
اقبال نے اردو اور فارسی دونوں میں معیار ی شاعری کے وہ نئے ایام قائم کیے جن کی آج تک نظیر نہیں ملتی اور بنا شک یہی ان کی بنیادی شہرت کی اہم وجہ ہے۔ آپ کی شاعری کا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف گامزن تھا۔ اقبال نے “دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام” کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی تسلیم کیا جاتا ہے ۔
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء بمطابق 3 ذوالقعدہ 1294ھ کو موجودہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کیا جاتا ہے۔
اقبال کے آباء و اجداد کے متعلق محققین نے کہا کہ آپ کے آباؤ اجداد قبولِ اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ چلے گئے تھے اور وہاں جا کر محلہ کھٹیکاں میں آباد ہوئے۔ شیخ نُور محمد کشمیر کے سپرا برہمنوں کے خاندان میں سے تھے۔ ہر پشت میں ایک نہ ایک ایسا ضُرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی۔ یہ بھی انہی صاحب دلوں میں سے تھے۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آ بسے۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا۔ کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں چلے آئے جو آج کل اقبال بازار کہلاتا ہے اور ایک چھوٹا سا مکان لے کر وہیں رہنے لگے، مرتے دم تک یہیں رہے۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نُور محمد نے اس سے ملحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکان کو مذید وسیع کر لیا۔
اقبال کے والد محترم شیخ نور محمد ایک خالص دیندار آدمی تھے۔ وہ بیٹے اقبال کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے۔ چنانچہ اقبال کی بچکانہ عمر میں وہ انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے۔ مولانا ابوعبد ﷲ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے.یہیں سے اقبال کی شروعاتی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد معروف مولانا سید میر حسن نے شیخ نور حسن کو اقبال کو صرف مدرسہ کی تعلیم تک محدود رکھنے کی بجائے جدید تعلیم مہیا کروانے پر زور دیا. انھوں نے اپنی دلی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اقبال کو انکی تربیت میں دیئے جانے پر اصرار کیا ۔ چنانچہ کافی غور و خوض کے بعد شیخ نور محمد اقبال کو میر حسن کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا. یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ قائم رہے اور اکثر اوقات اسکول سے آتے وقت استاد کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ میر حسن بھی ان عظیم استادوں میں سے تھے جن کی زندگی کا واحد نصب العین بس پڑھنا اور پڑھانا تھا ۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا ان کے یہاں صرف کتاب خوانی کا نام نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں استاد اصل معنوں میں استاد ہوا کرتے تھے جو اپنے طلباء کو نصابی کتب کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف پیچ و خم سے آگاہ و روشناس کرواتے تھے.
اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی شاعری کا آغاز ہوا ۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کو لگاؤ بچپن ہی سے تھا ، جس کے چلتے کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورے ہندوستان میں داغ کا نام گونج رہا تھا۔ خصوصاً اُردو زبان پر جو معجزانہ گرفت و فوقیت داغ کو حاصل تھی ۔ اقبال کو ایسا ہی استاد درکار تھا ۔ چنانچہ اقبال نے شاگردی اختیار کر نے کے لئے درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا۔ داغ نے اپنی بے نظیر بصیرت سے شاید یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اقبال جیسے ہیرے کو تراشا نہیں جاسکتا۔ اور استاد داغ نے یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اس مختصر سی شاگردی پر ہمیشہ ناز و فخر کرتے رہے ۔
اسی دوران 1893ء میں اقبال نے دسویں کا امتحان پاس کیا اور 1895ء میں ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے۔ جہاں آپ نے گورنمنٹ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اور بی اے میں انگریزی، فلسفہ اور عربی مضامین کا اپنے لیے انتخاب کیا ۔ اور ساتھ ہی عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اورینٹل کالج تشریف لے جاتے ۔ 1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیوآرنلڈ کی شخصیت سے آپ بے حد متاثر ہوئے. انھیں سے مستفید ہوتے ہوئے آگے چل کر اقبال نے اپنی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کیا۔
1899ء میں ایم اے کا امتحان میں پنجاب بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی. اس دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے۔ نومبر 1899ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعتی انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفلِ مشاعرہ میں لے گئے۔ بڑے بڑے استاد شعراء موجود تھے اور ساتھ ہی سامعین کا بھی اچھا خاصا ہجوم جڑا تھا. اقبال چونکہ بالکل نئے تھے، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔ چنانچہ اقبال نے اپنی غزل پڑھنا شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ :
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
تو اچھے اچھے استاد شعراء داد و تحسین دینے کے لیے مجبور ہو گئے یہیں سے اقبال کی بحیثیت شاعر شہرت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد اقبال نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایتِ اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ اقبال نے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ایم. اے. پاس کرنے کے بعد اقبال نے 1899ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلی تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔
آپ نے اردو زبان میں ایک مختصر و جامع کتاب بھی تصنیف کی جو 1904ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا شمار موضوع کے اعتبار سے اپنی نوعیت کی پہلی کتابوں میں ہوتا ہے. اس سے قبل
اورینٹل کالج میں بطور عربک ریڈر مدت ملازمت ختم ہو گئی تو 1903ء میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے آ پ کی گورنمنٹ کالج میں تقرری ہو گئ ۔اس کے بعد میں فلسفے کے شعبہ میں چلے گئے۔
1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا. ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ اس کے بعد اقبال جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے۔ بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی جو لائی 1908 ء کو نتیجہ نکلا تو آپ کامیاب قرار پائے۔ اس کے بعد ہندوستان واپس آگئے کچھ عرصے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر مئی1910 ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ اس دوران آپ کی مصروفیات میں روز بہ روز اضافہ ہو تا گیا . اسی بیچ آپ کئی اداروں اور انجمنوں سے وابستہ ہو گئے اور ساتھ ہی برصغیر کی کئی جامعات کے ساتھ بھی منسلک ہو گئے ۔ اسی دوران اقبال نے لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر ایک نصابی کتاب تاریخ ہند مرتب کی۔ اس کے علاوہ زندگی کے مختلف ادوار و مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی اور سنڈیکیٹ وغیرہ کے ممبر بھی رہے۔ جبکہ 1919 ء کو اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے اور 1923 ء میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی اس دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمپنی کے بھی رکن نامزد ہوئے اور اسی دوران 1923 ء میں آ پ سر کے خطاب سے سرفراز کیے گئے۔
آپ کی تصنیفات میں نثر میں علم الاقتصاد 1903ءفارسی اسرار خودی 1915ءرموز بےخودی 1917ءپیام مشرق 1923ءزبور عجم 1927ءجاوید نامہ 1932ءپس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق 1931ءارمغان حجاز (فارسی – اردو) 1938ءاردو شاعری میں بانگ درا 1924ء
بال جبریل 1935ءضرب کلیم 1936ء
انگریزی تصانیف میں فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء 1908ء اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو 1930ء وغیرہ شامل ہیں.
بر صغیر کا یہ عظیم شاعر جسے لوگ آج بھی شاعر مشرق کے نام سے بھی جانتے اور پہچانتے ہیں. آخر کار 21 اپریل 1938 کو لاہور میں اس دار فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہو گئے اور اپنے پیچھے کبھی نہ پوری ہونے والی ایسی خلاء پیدا کر گئے جس کی کبھی بھرپائی نہیں ہو سکتی. لیکن انکا کلام آج بھی ہمارے لیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے.
نوٹ : محمد عباس دھالیوال دھالیوال کی پروفائل فوٹو نیچے ساتھ اٹیچ ہے۔

Leave a Comment