از:مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
مسلمان بہت ساری معاشرتی خرابیوں میں مبتلا ہیں، تلک جہیز کی لعنت عام ہے،شادی کے دشوار ہونے کی وجہ سے رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل کیا جا رہا ہے، لڑکیوں کو ترکہ میں حصہ دینا عام طور سے لوگوں نے بند کر رکھاہے، اگر کسی لڑکی نے باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں سے ترکہ طلب کر لیا تو سارے رشتے ناطے ختم ہوجاتے ہیں، خاندان ٹوٹ رہا ہے، رشتے بکھر رہے ہیں، بڑوں کا احترام دلوں سے نکلتا جا رہا ہے ، نشہ کی عادت بھی نوجوانوں میں بڑھ رہی ہے، سود اور رشوت خوری کو گناہ نہیں سمجھا جا رہا ہے، فرائض سے دوری کا مشاہدہ تو عام سی بات ہے، ایک ساتھ تین طلاق دینے کے واقعات بھی شاذ ونادر نہیں ہیں، عورتوں کا مزاج شوہروں سے نہیں ملتا ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی عام ہے، دار القضاء میں جو مقدمات آ رہے ہیں، اس کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ، خلع ، فسخ نکاح اور شوہر کی جانب سے رخصتی کے مطالبات کی تعداد زیادہ ہے، جس کا خلاصہ یہی ہے کہ عورت اپنے شوہر کے ساتھ گذارہ نہیں کر پا رہی ہے ، ان حالات میں ضرورت ہے کہ اصلاح معاشرہ کی تحریک کو گھر گھر پہونچایا جائے، اور ہر فرد کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنی اصلاح آپ کرنے کی ذمہ داری اٹھائے، ظاہر ہے یہ کام آسان نہیں ہے، دل ودماغ پر دستک دینے کے لیے خاص قسم کی صلاحیت اور پورے طور پر خلوص کی ضرورت ہوتی ہے، ہر آدمی کے بس کا یہ کام نہیں ہے، اس لیے اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے ائمہ مساجد ، علماء اساتذہ مدارس ومکاتب ، دانشوران ، وکلاء وماہرین قانون اور سنجیدہ نوجوانوں کی علاحدہ علاحدہ میٹنگ بلائی جانی چاہیے، طلبہ مدارس کے درمیان ورک شاپ ، پریس کانفرنس ، اصلاح معاشرہ کے عنوان پر مضامین ومقالات کی اشاعت ، سوشل میڈیا پر اس قسم کے موضوعات پر مواد کی فراہمی بھی مفید ہے۔ جس کے اثرات بڑے پیمانے پر سماج پر پڑ سکتے ہیں۔
خواتین کے درمیان اس پیغا م کو پہونچانے کے لیے اسلامی پردہ کے ساتھ ان کی خصوصی میٹنگ بلائی جائے اور خواتین میں کام کرنے والی اسلام پسند خاتون کو اس کام میں لگایا جائے، کیونکہ ان کی اصلاح پورے خاندان کی اصلاح کا ذریعہ بن سکتی ہے ۔انہیں خاندان کے تئیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جائے ، ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں انہیں بتایا جائے ، بچوں کی اسلامی انداز کی تربیت کے بارے میں انہیں حساس بنایا جائے، گھریلو زندگی کو خوشگوار بنانے کے طریقوں کی نشان دہی کی جائے، بد مزاجی ، مضر اثرات سے انہیں آگاہ کیا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ میاں ںبیوی کے رشتے نازک ہوتے ہیں، اس کی پائیداری اسی وقت ممکن ہے جب گھر ٹینشن فری زون بن جائے۔
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ نبوی طریقہ پر تنفیذ شریعت کا کام کرتی رہی ہے اور یہ اس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی اصلاح معاشرہ کمیٹی نے پوری توجہ ان امور پر مرکوز رکھنے کے لے ۱۳؍ شعبان بروز سنیچر مطابق ۲۷؍ مارچ تا ۲۳؍ شعبان ۴۲ھ بروز منگل مطابق ۶؍ اپریل ۲۰۲۱ء تک پورے ملک میں دس روزہ مہم آسان اور مسنون نکاح کے لیے چلائی ہے۔یقینا یہ کام ہمیشہ کرنے کا ہے، لیکن یہ دس روز اس کام کے لیے مختص کیا گیا ہے تاکہ دوسرے کاموں کو موخر کرکے ترجیحی بنیاد پر اس کام کو کیا جائے اور لوگوں کو بتایاجائے کہ معاشرتی خرابیوں کی وجہ سے سماجی طور پر ہمیں کس قدر پریشان ہونا پڑتا ہے۔ ہم اللہ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں اور سماج میں بھی ہماری وقعت کم ہوتی ہے۔تمام مسلمانوں کو اس مہم کا حصہ بننا چاہیے تاکہ لوگوں میں عام بیداری پیدا ہو اور آسان نکاح کی برکتوں سے سماج کو فائدہ پہونچے۔
اصلاح معاشرہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہماری بے پناہ توانائیاں خرچ ہورہی ہیں۔ مدارسمسلم تنظیمیں،فلاحی انجمنیں اور رفاہی ادارے سب اصلاح معاشرہ کے کام میں لگے ہوئے ہیں،لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہے،معاشرہ دن بدن زوال کی طرف بڑھتا جارہا ہے،بے پردگی بڑھ رہی ہے،فحاشی پھیل رہی ہے،جرائم کا دائرہ وسیع ہورہا ہے،منشیات کا رواج بڑھتا جارہا ہے،ناجائز ذرائع آمدنی کا سلسلہ امربیل کی طرح روز افزوں ہے،شادی بیاہ اور دوسری تقریبات میں غیر شرعی رسوم پر عمل کو فروغ مل رہا ہے،ہماری معاشرتی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے،سوال یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود اصلاح معاشرہ کی مہم ناکام کیوں ہے۔۔۔ ؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے علماء کے تمام وعظ بیکار جارہے ہیں ہماری تنظیموں کی طرف سے منعقد کئے جانے والے تمام جلسے،وسمینار،کانفرنسیں اپنا ہدف حاصل نہیں کر پارہی ہیں،اس ناکامی پر کسی شاعر کا یہ حسرت ناک مصرع پوری طرح صادق آتا ہے:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
کبھی اطبائے قوم نے غور کیا کہ انکے نسخے اتنے بے اثر کیوں ہیں،نسخہ غلط ہے یا مرض کی تشخیص صحیح نہیں ہے،طریقہ علاج میں خامی ہے یا دوائیں مؤثر نہیں رہیں،کچھ تو ہے جو اصلاح معاشرہ کی یہ مہم فلاپ شو ثابت ہورہی ہے۔
اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص پر خود اپنی اصلاح کی ذمہ داری ہے اگر معاشرے کا ہر فرد اس ذمہ داری کو محسوس کرلے اور اسکی ادائیگی کی فکر کرے تو کسی دوسرے کو تکلیف اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی،اصل خرابی یہ ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کے احساس سے یک سر عاری ہوچکے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کی فکر میں گُھلے جارہے ہیں،قیامت کے روز سب سے پہلے انسان سے خود اسکی ذات کے متعلق سوال ہوگا،کسی دوسرے سے متعلق سوال کا مرحلہ بعد میں آئے گا،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکاردوعالم علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی کے پاؤں اسوقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کرلیا جائے گا،ایک اسکی عمر کے متعلق کہ زندگی کے ماہ و سال کہاں ضائع کئے،دوسرے جوانی کے بارے میں کہ کس چیز میں کھوئی،تیسرے مال کے سلسلے میں کہ کہاں سے کمایا،چوتھے یہ کہ وہ مال کہاں خرچ کیا اور پانچویں یہ کہ جو باتیں وہ جانتا تھا ان پر کتنا عمل کیا۔ جو لوگ دنیا میں اپنی اس انفرادی ذمہ داری سے کماحقہ سبکدوش ہونگے ان کیلئے جنت کا وعدہ بھی ہے،ایک حدیث میں ہے کہ سرکاردوعالم علیہ السّلام نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ اگر تم مجھ سے چھ باتوں کا وعدہ کرلو تو میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں،جب بات کرو سچ بولو،جو وعدہ کرو پورا کرو،اگر تمہارے پاس امانت رکھوادی جائے تو اسکو ادا کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،اپنی نظریں نیچی رکھو،اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکو،اسی طرح ایک روایت میں سرکاردوعالم علیہ السّلام کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مجھ سے اپنی زبان اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے میں اس کیلئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں،اپنی اصلاح کے بعد اب مرحلہ اپنے متعلقین کی اصلاح کا ہے،عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ مصلحین قوم اپنے اہل خانہ کی فکر تو کرتے نہیں اور پوری دنیا کی بدعملی پر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں،حالانکہ قران کریم میں صاف صاف فرمایا گیا ہے :
ترجمہ: اے ایمان والو اپنے آپکو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے ڈراؤ،( التحریم : 06 ) اپنی اصلاح کے بعد انسان پر خود اس کے گھر والوں کی اصلاح کی ذمہ داری ہے اور گھر والوں میں بھی اولاد کی ذمہ داری پہلے ہے بعد میں دوسروں کی ذمہ داری ہے جو لوگ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انھیں حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں اچھی تعلیم دیتے ہیں انکے بڑے فضائل ہیں،ایک حدیث میں ہے کہ جس شخص نے قران پڑھا اور اسکی تعلیمات پر عمل کیا اسکے ماں باپ کو قیامت کے دن ایک ایسا تاج پہنایا جائے گا جسکی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ عمدہ ہوگی جب کہ سورج ہمارے گھروں میں ہو،ماں باپ کو یہ فضیلت اسلئے حاصل ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد کو قران کریم کی تعلیم دی اور اس پر عمل کرنا سکھلایا،ایک حدیث میں ہے سرکاردوعالم علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بیٹے کو حسن ادب سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دیا،والدین کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو کم سنی ہی سے دین پر چلنے کی تربیت دیں۔
ارشادِ نبوی ہے کہ اپنے بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کا حکم دو،جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز چھوڑنے پر انکو مارو۔
اپنی اور اپنے گھر والوں کی اصلاح کے بعد اب دوسروں کی اصلاح کا نمبر آتا ہے،سب سے پہلے پاس پڑوس کو دیکھیں کہ لوگ دین پر چل رہے ہیں یا نہیں،انکے اخلاق کیسے ہیں،انکے معاملات کسطرح کے ہیں،ایسا تو نہیں کہ وہ صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہوں،اس صورت میں ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم انکی رہنمائی کریں،دین پر چلنے میں انکی مدد کریں،اگر وہ تعلیم سے بہرہ ہیں تو انھیں تعلیم کے جوہر سے آراستہ کریں،اخلاق سے عاری ہوں تو انکو اچھے اخلاق سکھلائیں،انکے معاملات خراب ہوں تو انھیں بتلائیں کہ معاملات کے باب میں شریعت کا کیا حکم ہے،صحابی رسول حضرت ابزیٰ خزاعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن سرکار دوعالم علیہ السّلام نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا نہیں کرتے،نہ انکو علم سکھلاتے ہیں،نہ انکو نصیحت کرتے ہیں نہ اچھے کاموں کیلئے کہتے ہیں اور انکو برائی سے روکتے ہیں،لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے کچھ نہیں سیکھتے نہ دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرتے ہیں اور نہ ان سے عقل کی باتیں سیکھتے ہیں،اللہ کی قسم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو علم سکھلائیں،عقل کی باتیں بتلائیں،ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں،اور لوگوں کو بھی چائیے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے علم حاصل کریں اور اپنے اندر دین کی سمجھ پیدا کریں،اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں عنقریب ہی اس دنیا ہی میں سزا دوں گا ( کنز العمال : جلد: 03: صفحہ: 684 )
اپنی ذات،اپنے اہل وعیال اور پاس پڑوس کے بعد عام مسلمانوں کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے،اگر آپ مسلمانوں کو منکرات میں مبتلا دیکھتے ہیں تو آپ کا فرض بنتا ہے کہ انھیں روکیں،پھر اس روکنے کے بھی مختلف درجات ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص خلاف شرع بات دیکھے تو اسے اپنے ہاتھوں سے بدل دے،اگر ہاتھ سے نہ کرسکے تو زبان سے ہی اس امر منکر کے خلاف آواز بلند کرے،اگر زبان سے کہنے کی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے اس بات کو ناپسندیدہ سمجھے،یہ آخری درجہ ایمان کا ہے گویا اگر دل میں بھی برا نہ سمجھے تو ایسا شخص مسلمان یا صاحب ایمان کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے،قدرت کے باوجود مسلمانوں کو گناہوں سے نہ روکنا انتہائی قابل مذمت ہے،حدیث میں ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کا مستحق گردانا گیا ہے جو طاقت اور استطاعت رکھنے کے باوجود لوگوں کو بُرے کاموں سے منع نہیں کرتے ارشاد نبوی ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور لوگ قدرت کے باوجود اسے نہیں روکتے تو ان پر مرنے سے پہلے اپنی طرف سے کوئی عذاب مسلط فرمادیتے ہیں،عام مسلمانوں کی اصلاح وارشاد کا کام بڑا اہم ہے،اس اہم کام میں دوام اور استمرار مطلوب ہے قران کریم میں اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کیا گیا ہے،اور معاشرے میں ایک ایسی جماعت کی موجودگی لازمی قرار دی گئی ہے جو فریضہ پورے تسلسل کے ساتھ ادا کرتی ہے،ارشاد فرمایا:
ترجمہ: تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چائیے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم دے اور بُرے کاموں سے منع کرے،یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
( آل عمران: 104 )
قابل مبارک باد ہیں وہ لوگ جنھوں نے اصلاح معاشرہ کا بیڑا اٹھایا،ایسے لوگوں کے پیش نظر سرکار دوعالم علیہ السّلام کا یہ ارشاد مبارک بھی رہنا چائیے کہ ہدایت کا راستہ دکھلانے والوں کو اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا اسکی اتباع کرنے والوں کو دیا جاتا ہے اور اتباع کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے ۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالی عمل کی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین