مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبی ¿ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے:الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے ۔“
زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاءاعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میں سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے انبیاءکی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاءکی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟ سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ ¿مبارکہ سے نکلے ، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمہ ¿ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعہ ¿ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے ، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو”فَاَو ±حَی اِلیٰ عَب ±دِہِ مَا اَو ±حٰی“کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد”ذَالِکَ مِمَّا اَو ±حَی اِلَی ±کَ رَبُّکَ مِنَ ال ±حِک ±مَِ“(یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں) کہہ کر واضح کردیا کہ”مااوحی“ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
۱۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ ”اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغ ±فِرُاَن ± یُش ±رَکَ بِہِ وَیَغ ±فِرُمَا دُو ±نَ ذَالِکَ لِمَن ± یَشَائ۔“
۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے ، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے ، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو : والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔
۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجاؤ کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ، خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤ ۔
۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو: اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے ۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
۶۔ زنا کے قریب مت جاؤ: اس لیے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ برا راستہ ہے ، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے ، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے ۔
۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو: حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔
۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جاؤ: یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔
۹۔ اپنا عہد پورا کرو،معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے ، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۰۱۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے ، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے ’’ ویل‘‘ میں ڈالے جاؤ گے یہ تواخروی عذاب ہے ، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔
۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرءکذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے ، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پاؤں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔
۲۱۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو : اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشاں ہوسکتی ہے ، آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے تھے ، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے ، وہ تاریخ آسکتی ہے ، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔