🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

علی گڑھ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ویمنس کالج نے ہندستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ کالج کے بانی شیخ عبد اللہ اور ان کی اہلیہ وحید جہاں(اعلیٰ بی) نے اپنی محنتوں سے یہ شجر سایہ دار لگایا تھا۔ وہ 7 فروری کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ اسی مناسبت سے کالج میں ہر برس یوم بانیان مناکر ان کی خدمت جلیلہ کو یاد کیاجاتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیاجاتاہے۔
یوم بانیان کی تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون نے کہاکہ خواتین پر شیخ عبداللہ کا احسان ہے، جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے وقت کے دھارے کو موڑ دیا۔ آج ہم اور آپ جو یہاں موجود ہیں، خواتین اور لڑکیوں کی جو ذہنی اور تعلیمی سطح ہے، معاشرتی درجہ اور معاشی استحکام ہے اس میں سب سے بڑا اور اہم کردار شیخ عبداللہ کاہے جنہوں نے ویمنس کالج کی شکل میں جو چراغ روشن کیا تھا اس نے پورے معاشرہ خصوصا لڑکیوں کی زندگی کو روشن کردیا۔ کالج کے بانیان اس لائق ہیں کہ ان پر فخر کیاجائے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیاجائے۔
وائس چانسلر نے سرسید احمد خاں، شیخ عبداللہ اور وحید جہاں کو معاشرے میں تعلیم کی بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے لڑکیوں کی ذہنی سطح بلند کرنے اور ان کی زندگیوں کو خوبصورت بنانے کے لیے ایسے دور میں سوچا اوراپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنایا جب اس بارے میں سوچنا بھی گناہ تھا۔ وائس چانسلر نے اپنے دور طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان ایام کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
اس موقع پر پروفیسر نعیمہ خاتون نے اعلان کیا کہ کالج کے بنیادی ڈھانچے اور فیکلٹی ممبران میں اضافہ کیاجائے گا اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جو بھی ضروریات ہیں انھیں ترجیحی بنیاد پر پورا کیا جائے گا۔
مہمان اعزازی پروفیسر آذر میدخت صفوی نے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون ویمنس کالج کے بانی شیخ عبد اللہ کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر رہی ہیں۔ انہوں نے جو پودا لگایا تھا یہ اسی کا پھل ہے۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ دنیا کو زیر کیا جاسکتاہے۔
انہوں نے طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شیخ عبداللہ نے بڑی محنتوں اور جانفشانیوں کے بعد کامیابی حاصل کی۔ یہ وہ دور تھا جب معاشرہ خصوصا مسلم معاشرہ خواتین کی تعلیم کے لیے تیار نہیں تھا۔ شیخ عبداللہ اور ان کی اہلیہ نے جو کارنامہ انجام دیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف میں درج کیا گیاہے۔ پروفیسر آذر می دخت صفوی نے کہا کہ جس طرح سے سرسید احمد خاں پر کفر کے فتوے لگے مگر انہوں نے کوئی پروا نہیں کی اسی طرح شیخ عبداللہ کے خلاف بھی مہم چلائی گئی مگر وہ جھکے نہیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شد ومد کے ساتھ آگے بڑھے۔
کالج کے پرنسپل پروفیسرمسعود انور علوی نے استقبالیہ خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کالج کے بانیان شیخ عبداللہ اور ان کی اہلیہ وحید جہاں (اعلی بی) نے اس دور میں خواتین کی تعلیم کی فکر کی جب دنیا ان کے لیے اندھیر تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تہذیب اور شائستگی کے لیے خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے اور ان دونوں شخصیات نے اپنی پوری توجہ اسی پہلو پر مرکوز کرکے خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
انہوں نے کالج کی حصولیابیوں سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک برس میں کئی طالبات نے دنیا کی اہم یونیورسٹیوں میں نہ صرف تعلیم کے لیے داخلہ لیاہے بلکہ عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں بطور استاد منتخب بھی کی گئی ہیں، اسی طرح کھیل کے میدان میں ہماری طالبات نے ملکی سطح کے مقابلوں میں شرکت کی اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
سکریٹری فیمیل ایجوکیشن پروفیسر ذکیہ صدیقی نے فیمیل ایجوکیشن کی اہمیت اور خواتین کے تعلیم میں اس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے یہ پہلا منظم باضابطہ ادارہ تھا جس کا سکریٹری بن کر شیخ عبد اللہ نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ آج لڑکیاں تعلیمی اور سماجی میدان میں اتنی ترقی یافتہ ہیں۔
اس موقع پر کالج کی میگزین، نیوز لیٹراور دیگر پانچ کتابوں بھی اجرا کیا گیا۔
اس سے قبل یوم بانیان کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ ڈاکٹر عمرانہ خاتون کی معیت میں طالبات نے ترانہ پیش کیا۔ بی اے کی طالبہ ردھیانشکا سنگھ نے شیخ عبداللہ اور وحید جہاں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی زندگی کے اہم موڑ اور خواتین کی تعلیم کے لیے ان کی خدمات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
نظامت کے فرائض پروفیسر نازیہ حسن اورڈاکٹر حمیرا محمود آفریدی نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر بشریٰ حسین کے کلمات تشکر کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔ اس موقع پر کالج کے سبھی اساتذہ، غیر تدریسی عملہ کے اراکین اور طالبات موجود رہیں۔