🌙 ہماری تہذیب کی جانب سے
آپ سب کو رمضان مبارک! ✨

بےنام گیلانی
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
چلئے صاحب روز و شب گزرتے گزرتے ایک دفعہ پھر 15 فروری ان پہونچی۔شاید کہ اسی تاریخ کو بر صغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب اس روئے زمین سے کوچ فرما گئے تھے۔ اب لوگ فرمائیں گے کہ فرمائیے ہوں گے۔اس سے ہمیں کیا غرض ہے۔واقعی مرزا غالب کے یوم پیدائش یا یوم وفات سے اس ترقی یافتہ زمانے کے نوجوانوں کو کیا غرض۔انہیں تو شاہ رخ خاں اور سلمان خان یا پھر مادھوری دکشت اور ملائکہ اروڑا کے یوم پیدائش کا جشن منانا یا پھر سری دیوی وغیرہ کی وفات پر ماتم کرنے سے فرصت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔انہیں غالب میر اقبال جوش اور فیض جیسے نابغہء وقت کے یوم پیدائش یا یوم وفات سے کیا لینا دینا۔یہ جدید دور کے نوجوانان ہیں۔ جن کے آگے نیم برہنگی یا پھر برہنگی فیشن میں شمار ہے۔پھوہڑ گفتگو ہی کو جو شاید شایان شان تصور کرتے ہیں ۔جنہیں ماضی کی اہمیت و افادیت سے واقفیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی واقفیت حاصل کرنے کی کوئی جستجو ہی ہے۔یہ بس اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ
جو گزر گیا اسے بھول جا
وہ غبار تھا نہ کہ ہم سفر
جن کے ذہن میں ایسی باتیں گھر چکی ہوں انہیں میر و غالب کی کیا خاک یاد آئےگی اور اگر غلطی سے کبھی یاد آ بھی گئی تو اس سے انہیں کیا واسطہ۔اس کا ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شعر و ادب کو فضول سی شئے تصور کرتے ہوں۔یا کم از کم بے سود سی شئے تصور کرتے ہوں ۔جس میں الجھنا اضاعت وقت ہی ہوگا ۔ناچیز یہ جو کہ رہا ہے ۔اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنیاد پر کہ رہا ہے۔ناچیز کے دو بچے اور دو بچیاں ہیں۔چونکہ انہیں عہد طفلی میں اردو کی تعلیم دی گئی تھی چنانچہ یہ چاروں بچے اردو پڑھنا لکھنا تو جانتے ہیں ۔لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔انہیں اردو شعر و ادب سے کوئی لگائو نہیں ہے۔ناچیز کو یہ فکر ہے کہ یہ جو تین بورے میں ہزاروں ہزار غزلیں اور مضامین ہیں۔کہیں وہ دیمک کی خوراک نہ ہو جائیں۔جو حال اس ناچیز کے بچوں کا ہے۔احقر کو یہ لگتا ہے کہ یہی عالم ہر تعلیم یافتہ مسلم گھرانے کا ہے۔جس کا شاخسانہ یہ ہے کہ نئی نسلیں اپنے اکابرین یا بلند قد شعری و ادبی شخصیات سے بالکل ہی نا آشنا ہیں ۔جب یہ ان اکابرین سے آشنا ہی نہیں ہیں تو پھر وہ ان کے کارناموں سے کیا واقف ہوں گے۔ اسی نا آشنائی کا خمیازہ ہے کہ خود اردو داں طبقہ ان کی قدر و منزلت سے عاری ہے۔اسے کیا غرض کہ غالب کب پیدا ہوئے اور کب ان کا یوم وفات ہے۔افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ خود اردو کے ادباء و شعراء اپنے اکابرین کو یاد نہیں کرتے۔انہیں خود انعامات و اعزازات کی جد و جہد سے فرصت نہیں ہے۔یہ حضرات اپنے انعامات و اعزازات کی فکر میں ایسے محو ہیں کہ انہیں خود کی خبر نہیں۔ علاوہ ازیں اپنے مشاعرے میں شرکت کے تگ و دو میں کچھ اس قدر منہمک ہیں کہ انہیں اس سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے۔ہاں اتنا ضرور لیتے کہتے نظر آتے ہیں کہ حکومت زبان اردو سے سوتیلا رویہ اختیار کئے ہے۔ایسے لوگ کبھی اپنے گریبان میں جھانکنا پسند نہیں کرتے۔یہ کبھی خود احتسابی کی جراءت نہیں فرماتے ہیں۔اسے اہل اردو کی کم نصیبی پر محمول نہیں کیا جائے تو اور کیا کیا جائے۔اج مسلمان اپنے ماضی اپنے آبا و اجداد کو فراموش کر چکے ہیں،اپنی قدیم تہذیب و روایات کو فراموش کر چکے ہیں ۔ان حالات میں اکابرین اہل قلم کو کیا یاد رکھیں گے ۔اسی کا انجام یہ ہے کہ نہ ہمارے اندر دین ہے اور نہ ہی ادب۔دوسری جانب ہم وطن اپنے چھوٹے چھوٹے اہل قلم کو بھی بہت بڑے پیمانے پر یاد کرتے ہیں۔وہ اپنے تہذیب و تمدن کو خود میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اپنی قدیم روایتوں کی حفاظت کے لئے یہ وہ قدم اٹھانے سے بھی باز نہیں رہتے جو قدم کم از کم عہد حاضر میں نہیں اٹھانا چاہئے۔لیکن کیا کیجئے یہ بھاگوت گیتا اور منو سمرتی ہی ان کی دھارمک کتابیں ہیں۔جن میں معاشرتی انتشار کے سارے ذرائع درج ہیں ۔
مورخہ 15 فروری کو مرزا اسد اللہ خان غالب کا یوم وفات ہے۔اردو کے لئے صرف حکومت کو برا بھلا کہنے والے اہل اردو کو فراموش کر رہے ہیں۔اردو کی جنگ جیتنے کے لئے ایک مسلسل تحریک کی ضرورت درپیش ہے۔اس کے لئے اپنے ابیشتر اکابرین کے یوم پیدائش اور یوم وفات کا پروگرام منعقد کرنا ہوگا ۔ایسے ہی پروگراموں میں اپنے احتجاجی پروگراموں کو بھی منسلک کرنا ہوگا تا کہ حکومت وقت کی فہم میں یہ امر آئے کہ اہل اردو کے ارادے مستحکم ہیں اور یہ اپنی تحریک کے تئیں بہت بیدار بھی ہیں اور فعال بھی ہیں۔اہل اردو کی اک ذرا سی کوتاہی اردو زبان کے خاتمے کا نقارہ ثابت ہوگی۔یہاں اس امر پر بھی غور کرنا لازم ہے کہ اہل اردو اس بھرم سے باہر آئیں کہ اردو تو خالص ہندوستانی زبان ہے ۔چنانچہ اردو کے تحفظ و بقا کی تحریک تمام مذاہب کے پیروکاروں کی تحریک ہے ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو پورے ہندوستانیوں کی زبان تھی لیکن اب اسے تعصب کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ۔پہلے غیر مسلم بھی اردو کا دم بھرتے تھے کیونکہ ان کا رزق اس سے وابستہ تھا۔اب وہی اردو کی قبر کھودنے میں نہ صرف مصروف کار ہیں بلکہ مسرت بھی محسوس فرماتے ہیں۔اس لئے اب اپنی اس فکر کو مستحکم کرنے کی ضرورت درپیش ہے کہ اردو اب صرف اور صرف مسلمانوں کی زبان ہو کر رہ گئی ہے ۔چنانچہ اس کی جنگ لڑنے کے لئے کوئی بھی غیر مسلم پیش قدمی نہیں کرنے والا ہے۔اب یہ جنگ صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی لڑنی ہوگی۔
بےنام گیلانی
benamgilani@gmail.com