’مولانامحمدعلی مونگیریؒ کے تعلیمی نظریات‘ کاتجزیاتی مطالعہ

شاہ عمران حسن
اردو زبان کے وہ صحافی جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اورمستقل لکھتے رہتے ہیں، ان میں ایک اہم نام مولاناشارب ضیاء رحمانی کاہے۔مولانا شارب ضیاء رحمانی نے جامعہ رحمانی مونگیر کے زمانہ طالب علمی سے ہی تحریری زندگی کی ابتدا کر دی تھی، بعد کو وہ قومی درالحکومت نئی دہلی منتقل ہوئے تو پیشہ ورانہ طور پر انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ اور اس میں وہ بہت کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔مولاناشارب ضیاء رحمانی کو نہ صرف لکھنے سے دل چسپی ہے بلکہ وہ پڑھنا اور تحقیق کرنابھی جانتے ہیں۔انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے باضابطہ جرنلزم کاکورس کیاہے جس میں انھیں گولڈ میڈل ملا تھا۔وہ مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی ؒ کے تربیت یافتہ عزیزوںمیں ہیں۔مولانا نے ان کی تحریر کو جلا بخشی اورحوصلہ افزائی کرتے رہے۔ خود مولانا شارب ضیاء رحمانی نے اپنے مضمون ’’امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی کی صحافتی اورادبی خدمات‘‘ میں لکھاہے :’’آپ برابرتاکیدکرتے کہ لگاتارلکھیے، زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے۔

ہر ہفتہ یاکم ازکم دوہفتے پرمضمون لکھیے۔مضامین کی اشاعت پرفون پر رائے دیتے اورحوصلہ افزائی کرتے ۔آپ نے راقم الحروف کے ایک مضمون کی اصلاح کرتے ہوئے تحریرفرمایا؛سہل مت لکھیے،آسان لکھیے، عربی کے فلاں فلاں الفاظ عام طورپرلوگ نہیں سمجھ پاتے،جملے مختصرہوں،کلمات حصرکااستعمال کم سے کم ہوناچاہیے ،جوکچھ آپ لکھیں،ان کےاعدادوشمارواضح طور پر لکھیں،سینکڑوں،ہزاروں کی بات نہ ہو۔بات اگرمکمل اعدادکہی جائے گی تومستندہوگی۔‘‘مولاناشارب ضیا ء رحمانی نے گذشتہ برس ایک تحقیقی کتاب ’’مولانامحمد علی مونگیری اور تعلیمی اصلاحات‘‘ شائع کی، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کے اندر انہوں نے مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم و ترجیحات پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم کو اپنایا جاتا تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے۔اس کتاب میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا سید محمد علی مونگیری جہاں دین کی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے وہیں وہ عصری تعلیم اور انگریزی تعلیم کے حصول کی اہمیت کے بھی معترف ہیں تاکہ اشاعت دین کا کام مزید وسعت کے ساتھ کیا جا سکے۔بعد کے دنوں میں مولانا محمد علی مونگیری کے خانوادے نے ان کے نظریۂ تعلیم کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ عصری تقاضوں کے پیش نظر اس میں جدت بھی لائی۔کتاب کے نام کے اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب میں مولانا شارب ضیا ء رحمانی نے صرف مولاناسید محمد علی مونگیری کے تعلیمی نظریات پر گفتگو کی ہے مگر انہوں نے گذشتہ صدی کی کئی اہم شخصیات کے تعلیمی نظریات کاتجزیاتی مطالعہ کیاہے۔

انھوں نے اس میں سرسید احمد خان، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمھم اللہ کے تعلیمی تصورات نیزمولانامحمدعلی مونگیریؒ کی اولادواحفادمیںمولانامنت اللہ رحمانی ومولانامحمدولی رحمانی رحمتہ اللہ علیھما کی تعلیمی اصلاحات اورعملی اقدامات پر تجزیاتی گفتگو کرکے نئی بحث کاآغازکیا ہے، جو کہ دل چسپ بھی ہے اور قارئین کو دعوت فکر بھی ہے کہ اس پہلو پر مفید گفتگو کی جا سکتی ہے۔یہ کتاب پہلی اشاعت میں ۱۰۶صفحات پرمشتمل تھی،اب وہ جلداس کااضافہ شدہ ایڈیشن لارہے ہیں،جوتقریباََڈیڑھ سوصفحات پرمشتمل ہوگی۔ان شاء اللہ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کتاب نہ صرف طلبا کے لیے اہم ہے بلکہ ذمہ داران مدارس اورتعلیمی اصلاحات کی فکررکھنے والے بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

Related Posts

اخلاقِ حسنہ کی اہمیت اور افادیت

ام سلمیٰ اخلاقِ حسنہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور انسان کی اصل پہچان ہیں۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ محض ایک مخلوق کے طور پر پہچانا…

Read more

مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت

ابو الکلامروزنامہ تاثیر ہندوستان کی تاریخ میں بہت سی عظیم شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں قوم و ملت کے لئے وقف کر دیں۔ انہی میں ایک تابناک نام…

Read more

کاروبار جدید دورمیں کامیابی کا راز

ام سلمیٰ کاروبار کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ ایک تاجر نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرتا ہے۔…

Read more

حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ اور آج کے مسلمانوں کے حالات

ام سلمیٰ دنیا میں سب سے بڑی خوشی بھی اپنوں سے ملتی ہے اور سب سے بڑا دکھ بھی اکثر اپنوں ہی سے ملتا ہے۔ بیگانوں کا وار جسم کو…

Read more

یومِ آزادی

ام سلمہ پندرہ اگست وہ دن ہے جب سورج نے ایک آزاد ہندوستان کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ بکھیری۔ یہ وہ دن ہے جب غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں، اور…

Read more

آگیا رمضان ہے

ہو گیا ہم پے خدا کا پھر بڑا احسان ہےمل گیا اس سال پھر سے جو ہمیں رمضان ہے اس مہینے میں ہیں اتری آسمانی اور کتباس مہینے میں ہی…

Read more

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *