مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ذی الحجہ کا مہینہ ہجری سال کا آخری مہینہ ہے، اس مہینہ کے ابتدائی دس دنوں کے فضائل احادیث میں مذکور ہیں اور قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے سورۃ الفجر میں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، بیش تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یہ ذی الحجہ کے شروع کے دس راتیں ہیں، ان میں خصوصیت سے نیک اعمال کی ترغیب دی گئی ہے، یہ اعمال ذکر واذکار، قیام اللیل اور روزوں کی صورت میں بھی ہو سکتے ہیں، ترمذی شریف کی ایک روایت میں جن کے راوی حضرت ابن عباس ؓ ہیں، منقول ہے کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گیے اعمال اللہ رب العزت کے نزدیک تمام ایام کی عبادت کے مقابل زیادہ محبوب ہیں، حضرت ابو قتادہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ان ایام میں ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور ایک رات کا قیام شب قدر کے قیام کی طرح ہے۔(ترمذی وابن ماجہ)
ذی الحجہ کے ان دس روز وشب میں مسلمانوں کو خصوصیت سے ذکر اللہ کا اہتمام کرنا چاہے، سورۃ الحج میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مقررہ دنوں کے اندر اللہ کے نام کا ذکر کرتے رہو، محدثین، مفسرین اور خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک یہ مقررہ دن ذی الحجہ ہی کے دس ایام ہیں، امام احمدبن حنبلؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان دس دنوں میں کثرت سے لا الٰہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو، امام بخاری ؒ نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کا یہ عمل بھی نقل کیا ہے کہ وہ تکبیر کہتے ہوئے بازار نکل جاتے اور دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے۔
دوسرا عمل جس کا حدیث میں ذکر ہے وہ یہ کہ جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے تو جس کی جانب سے قربانی ہونی ہے افضل ہے کہ وہ اپنے بال اور ناخن نہ تراشے، عام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ نویں ذی الحجہ آئے تو اس دن نفلی روزہ رکھیں، حدیث میں ہے کہ نویں ذی الحجہ کے روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، نویں ذی الحجہ سے ہی فجر کی نماز کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ،و اللہ اکبراللہ
اکبر وللہ الحمد کا ورد شروع ہوجاتا ہے، عیدگاہ جانے میں بھی تکبیر کہی جاتی ہے، نماز کے بعد خطبہ میں بھی اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔
ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے، اس دن مسلمان دوگانہ ادا کرتے ہیں اور نماز کے بعد جانور کی قربانی کرتے ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ قربانی کے تین ایام یعنی دس تا بارہ ذی الحجہ کو قربانی سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی عمل محبوب نہیں ہے، تکبیر تشریق کا اہتمام تیرہ(13) کی عصر تک کی جاتی ہے، تاکہ ہر طرح کی بڑائی بشمول قیمتی جانوروں کی قربانی سے پیدا شدہ کبر ونخوت سے دل ودماغ پاک ہوجائیں۔
قربانی کن جانوروں کی، کی جائے گی اس سے لوگ واقف ہیں،ا لبتہ جانوروں کے انتخاب میں مقامی حالات اور ملکی احوال کو سامنے رکھنا چاہیے، قربانی کی باقیات کو ادھر اُدھر پھینکنے سے تعفن اور بد بو پیدا ہوتی ہے جو آپ کے رہائشی علاقہ کی فضا کو آلودہ کرتا ہے اور راستوں سے گذرنے والے کو اس سے تکلیف پہونچتی ہے، اسلام میں صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا نا بھی صدقہ ہے، اس لیے اپنی آبادی میں اس کا خیال ضرور رکھنا چاہیے، ممکن ہوتو گاؤں والوں کی میٹنگ کرکے صفائی کے اہتمام کا ماحول بنانا چاہیے۔
قربانی کے گوشت میں آپ کے اعز واقربا، فقراء ومساکین کا بھی حصہ ہے، کوشش کیجئے کہ شریعت کے مقررہ اصول کے حساب سے غربا تک قربانی کے گوشت کے تین حصوں میں سے ایک حصہ ضرور پہونچ جائے، تاکہ وہ بھی اللہ کی میزبانی کا لطف اٹھا سکیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ بڑے کا گوشت تو کسی حد تک غرباء کو مل جاتا ہے، لیکن چھوٹے جانور کا بڑا حصہ ہماری فِرج کی زینت بن جاتا ہے اورہم مہینوں تک اس کا استعمال کرتے ہیں، اپنے حصہ کو محفوظ کر لیجئے، بُرا نہیں، لیکن اس کو محفوظ کرنے کے چکر میں غربا کا حصہ ہضم کرجانا شریعت کی نظر میں نا پسندیدہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے قربانی کے گوشت کو بھی دوسروں پر قربان نہیں کرنا چاہتے، پھر کس طرح قربانی کا مزاج بنے گا۔
یہی حال قربانی کے کھالوں کا ہے، یقیناً آپ اسے اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں، لیکن اگر اس کو فروخت کردیا تو پھر اس کی قیمت کا استعمال آپ کے لیے جائز نہیں ہے، آپ اس سے نہ تو مسجد ومدرسہ کی عمارت کھڑی کر سکتے ہیں اور نہ ہی امام ومؤذن کی تنخواہ پر اسے صرف کر سکتے ہیں، اسے مستحقین زکوٰۃ تک پہونچانا لازم اور ضروری ہے۔
بہت سارے دانشور یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ جانور ذبح کرنے کے بجائے اس رقم سے غرباء ومساکین کی مدد؛ بلکہ بعض لوگ ”امپاور منٹ“ کے لیے اس کے استعمال کی وکالت کرتے ہیں، یہ شریعت کے اسرار ورموز سے نا واقفیت کی دلیل ہے، ہر عمل کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں جس کو ہم لوگ سماج میں کھلی آنکھوں دیکھتے ہیں، مقویات کے استعمال سے بدن قوی ہوتاہے اور نشہ کا استعمال جسم کو کھوکھلا اور بہت سارے امراض میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے، اسی طرح نماز کی پابندی سے تکبر ختم ہوتا ہے، روزہ حرص ولالچ کو بیلنس کرتا ہے، زکوٰۃ کی ادائیگی سے بخالت کی بیماری دور ہوتی ہے، اور حج سے امتیاز کی بیماری کا خاتمہ ہوتا ہے اسی طرح قربانی سے انسان کے اندر قربانی کا مزاج بنتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ ہمارا اپنا کچھ نہیں ہے، میری نمازیں، میری قربانیاں؛ بلکہ میری زندگی اور موت سب اس کا ئنات کے رب اللہ رب العزت کے لیے ہے، اس لیے اسلام جب اور جس قسم کی قربانی کا طالب ہوگا، ہم اس کو دینے سے گریز نہیں کریں گے، اس موقع سے ہمیں حضرت ابراہیم نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کو بھی یاد رکھنا چاہیے، جب انہوں نے اپنے لڑکے کی قربانی دینے کا عزم بالجزم اللہ کی رضا کے لیے کر لیا تھا، صبر کے پیکر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے ذبح ہونا قبول کر لیا تھا؛ بلکہ ذبح کے طریقے بھی بتائے تھے کہ مجھے پیشانی کے بل لٹا ئیے؛ تاکہ چہرے پر نظر پڑنے سے آپ کی شفقت پدری اس قربانی کی راہ میں حائل نہ ہو، چاقو حلقوم پر رکھدی گئی، لیکن اللہ صرف اپنے خلیل کی فدائیگی دیکھنا چاہتے تھے، یہ پورا ہو گیا تو ایک دوسرے جانور کی قربانی ہوئی حضرت اسماعیل بچ گیے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ امتحان میں کامیاب ہو گیے، کیسا عجب ہوگا یہ منظر اور عرش پر کیسا تہلکہ فرشتوں کے درمیان ہوا ہوگا، سوچ کر عقل کام نہیں کرتی، اس طرح قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اس ابراہیم ؑکی جس پر ہم ہر نماز میں درود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جس طرح برکت کی دعا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کرتے ہیں، حضرت ابراہیم نبینا علیہ السلام کے لیے بھی کرتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہی اسلام کے ماننے والوں کا مسلمان نام رکھا ہے ۔
قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے، بھلا کوئی جانور کے بال گن سکتا ہے جس طرح جانور کے بالوں کی گنتی اللہ ہی جانتا ہے، اسی طرح قربانی پر اجر وثواب بھی اسی حساب سے اللہ رب العزت دیتے ہیں، قربانی کے یہ جانور پل صراط میں ہمارے لیے سواری کے کام آئیں گے اس لیے حکم دیا گیا کہ موٹے جانور کی قربانی کی جائے جس میں کوئی جسمانی عیب نہ ہو، یہاں پر یہ بات ذہن میں نہیں لائی جائے کہ چھوٹے جانور کس طرح انسان کا بوجھ بر داشت کریں گے اور بڑے جانور پر پل صراط پار کرنے کے لیے سات آدمی کس طرح لد جائیں گے۔ جو اللہ معدوم چیزوں کو وجود بخش دیتا ہے اس کے لیے کیا بعید ہے کہ وہ ان جانوروں کو ضرورت کے مطابق توانا بنا دے اور ہم تیزی کے ساتھ پل صراط پار کر جائیں۔
لیکن اس کا سارا مدار دل کی کیفیات پر ہے، قربانی اللہ کی رضا کے لیے کیا ہے تو سب کچھ ہو سکتا ہے، اور اگر دکھاوے، نمود ونمائش اور ریا کاری کے لیے کیا ہے تو وہ صرف گوشت کھانے کے ہی کام کا ہے، پل صراط پر ایسی قربانی کے کام آنے کا خیال چھوڑ دینا چاہیے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف صاف ارشاد فرما دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کا گوشت اور خون نہیں پہونچتا، اس کے نزدیک صرف تقویٰ کی قدر ہے اورتقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس میں اللہ کا خوف، اللہ کی خشیت اور ڈر شامل ہو۔
اس لیے قربانی کرنے کے بعد اپنے دل کو بھی ٹٹولنا چاہیے کہ کہیں وہ تقویٰ سے خالی تو نہیں ہے، یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ قربانی کرنے سے دین وشریعت پر اپنے مزاج کے تقاضوں کو قربان کرنے کا مزاج بنا، یا نہیں، قربانی کے جانور کی آنکھیں کھلی رہ کر آپ سے یہی دریافت کرتی ہیں کہ ہم نے تو اپنی جان قربان کر دی، لیکن کیا اس قربانی کا اثرتمہارے نفس امارہ پر بھی پڑا یا نہیں، اگر تمہارا نفس امارہ رضائے الٰہی کے لیے قربان ہو گیا تو ہماری جان کا جانا کار آمد ہو گیا۔
قربانی اللہ کے لیے کی جاتی ہے، اللہ کے نام سے کی جاتی ہے، ہمارے یہاں یہ غلط اصطلاح رائج ہو گئی ہے کہ کس کے نام سے قربانی ہوگی، قربانی سب اللہ ہی کے نام سے ہوگی، ہر جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہا جائے گا، اس سلسلے میں صحیح تعبیر یہ ہے کہ کس کی طرف سے قربانی ہوگی، یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ایسے مسلمان کی طرف سے قربانی ہوگی جو دسویں ذی الحجہ کی صبح کو چھ سو بارہ(612) گرام تین سو ساٹھ (360)ملی گرام یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ستاسی(78) گرام چار سو اسی (480)ملی گرام یعنی ساڑھے سات تولہ سونا کا مالک ہو۔
اس اعتبار سے ایک خاندان میں جتنے لوگ اتنی مالیت کے مالک ہوں گے، سب کی طرف سے الگ الگ قربانی دینی ہوگی، صرف گھر کے گارجین کی طرف سے قربانی کافی نہیں ہوگی، گھر میں اگر بیوی، بہو وغیرہ کے پاس اس قدر زیور یا بینک بیلنس ہے، لڑکوں کے پاس حوائج اصلیہ کے علاوہ ا تنی قیمت کی کوئی چیز ہے تو اس کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے، جس پر قربانی واجب ہے اسے اپنی طرف سے قربانی کرنی چاہیے۔ قربانی کے بجائے اپنا عقیقہ کرنا یا مُردوں کے ایصال ثواب کے لیے قربانی کرنا ضروری نہیں ہے، عقیقہ ساتویں دن مشروع ہے، اس لیے یہ سوچ کر کہ دادا کا عقیقہ نہیں ہوا تھا، پہلے عقیقہ کریں،پھر ان کی طرف سے قربانی ہو پائے گی، شرعی طور پر غلط ہے۔ قربانی کے ایام میں قربانی ہی کرنی چاہیے، استطاعت ہو تو اپنی طرف سے قربانی کے بعد مُردوں کی طرف سے بھی قربانی کریں تو حرج نہیں ہے، قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ لیا جا سکتا ہے، لیکن واجب قربانی کی ادائیگی کا پہلے خیال رکھنا ضروری ہے۔