ابونصر فاروق
دنیا میں قربانی کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کے زمین پر آباد ہونے کی۔’’اور ذرا انہیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ سنادو، جب اُن دونوں نے قربانی کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی،اُس (برے بھائی)نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا، اُس(اچھے بھائی) نے جواب دیا اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔(۲۷)اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہ اٹھاؤںگا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔(۲۸) میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے۔ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے۔(۲۹)آخر کار اُس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اُس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اُسے مار کر اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔(۳۰)پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تا کہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کئے پر بہت پچھتایا۔ ‘‘(المائدہ:۲۷تا۳۱)
دنیا کیوں بنی کیسے اور کس لئے بنی اس کا علم قرآن کے سوا کہیں نہیں مل سکتاہے۔جو لوگ قرآن کا علم نہیں رکھتے ہیں وہ دنیا اور زندگی کے متعلق کچھ نہیں جانتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جاہل و غافل ہیں۔اس وقعہ سے معلوم ہوا کہ قربانی دینے والا اپنے نیک ہونے کی دلیل کے طور پر قربانی دیتا ہے۔جو آدمی نیک نہیں ہے اُس کی قربانی قبول نہیں ہوتی ہے۔
قربانی کا دوسرا موقع حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں آیا، جنہوںنے اللہ کے حکم سے اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا تھا۔یہ دراصل اللہ کے ساتھ اُن کی فرماں برداری، وفاداری اور محبت کااظہار تھا۔ اللہ کو دنیا والوں کو بتانا تھا کہ اللہ کے فرماں بردار بندے کیسے ہوتے ہیں۔اللہ نے بیٹے کی جان بچا لی اور ایک مینڈھے کی قربانی ہو گئی۔قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمہارا یہی نام ہے، تاکہ رسول تم پر گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بنو…(الحج:۷۸)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حامل امت کو اپنے نبی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جیسے قربانی دی تھی اُن کی یادگار منانے کے لئے حج کے رکن کے طور پر اور اپنے اپنے گھروں میںان تاریخوں میں مینڈھے یا بکرے کی قربانی دو۔قربانی کی روح کیا ہے اس آیت میں بتایا جا رہا ہے:’’نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون،مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔اُس نے اُن کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیﷺ بشارت دے دو نیکو کار لوگوں کو ۔‘‘(الحج:۳۷)
نبی ﷺ نے امت کو یہ ہدایات دیں جن کی پیروی امت مسلمہ ڈیڑ ھ ہزار سال سے پوری دنیا میں مسلسل کرتی چلی آ رہی ہے۔فرمان رسولﷺ ملاحظہ فرمائیے:نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو او ر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابو داؤد) نبی کریمﷺنے فرمایا کہ قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے۔قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لئے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔(ترمذی)نبی کریمﷺنے فرمایا کہ قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی۔ (ترمذی)
معلوم ہوا کہ قربانی کے دن یعنی دس گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو قربانی سے زیادہ محبوب عبادت کوئی ہے ہی نہیں۔قربانی کے سلسلہ میں مزید تفصیلات یہ ہیں:
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ صرف دو دانت والی (یعنی ایک سال والی)بکری کی قربانی کرو۔ (بخاری)
عبد الرحمن ؓبن عوف نے کہا:نبی کریمﷺنے فرمایا کہ جب عشرہ ذو الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کونہ کاٹے۔(مسلم)
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی تو اُس نے اپنی ذات کے لیے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اُس کی قربانی پوری ہوئی ۔ اُس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔(بخاری)
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کر لی ، و ہ دوبارہ قربانی کرے۔(بخاری)
نبی کریمﷺنے فرمایا کہ جو جانور لنگڑا ہو، اندھا ہو،بیمار ہو یا لاغر اور کمزورہو اُس کی قربانی نہ کرو۔ (ترمذی)
نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھایا کرو۔(بخاری)(یہ حکم اُس وقت کے لئے تھا جب مسلمان مفلس تھے)
جب اگلے سال (قربانی کا دن آیا تو) صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم لوگ پچھلے سال کی طرح کریں؟ نبی کریمﷺنے فرمایا ؛نہیں وہ ایسا سال تھا جب لوگ سخت ضرورت مند تھے تو میں نے چاہاکہ (قربانی کا گوشت )اُن میں پھیل جائے۔ (مسلم)شروع میں مسلمان تنگی کا شکار تھے اور مفلس تھے اس لئے حکم دیا گیا کہ قربانی کا گوشت کھانے کے ساتھ بانٹو بھی جمع کر کے مت رکھو ۔
ایک صحابی دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے۔ ایک نبیﷺ کی طرف سے اور دوسرا اپنی طرف سے۔ اُن سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے بتایا کہ مجھے اسی کا حکم نبی اکرمﷺنے دیا ہے اس لئے میں اس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ (ترمذی)
بعض اہل علم نے میت کی طرف سے قربانی کی رخصت دی ہے اور بعض لوگ میت کی طرف سے قربانی کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ بات زیادہ پسندیدہ ہے کہ میت کی طرف سے قربانی نہ کر کے رقم صدقہ کر دی جائے۔اگر قربانی کی جائے تو اس میں سے کچھ بھی خود نہ کھائے۔(ترمذی)
نبیﷺنے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایایہ میری امت کے اُن لوگوں کی طر ف سے ہے جنہوںنے قربانی نہیں کی ہے۔(ترمذی)
یہ عمل نبیﷺ کا مخصوص عمل تھا۔ اُنہوں نے نبی کی حیثیت سے پوری امت کے لئے قربانی کی تھی۔اب دنیا میں کوئی آدمی نبیﷺ کی حیثیت نہیں رکھتا ہے اس لئے وہ ایک جانور پوری امت کی طرف سے نہیں کر سکتا ہے۔امت کی جگہ خاندان کی طرف سے ایک جانور کرنا کی بھی کوئی روایت نہیں ملتی ہے۔ہاں جو لوگ نادار ہیں اور گھر کا ایک ہی آدمی قربانی کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کی قربانی کو گھر بھر کی طرف سے قبول کر لے گا اورپورے گھر کو قربانی کے اجر
و انعام سے نوازے گا۔
نبیﷺ نے فرمایا اگر بکری یا گائے کی قربانی کے بعد اس کے پیٹ سے مردہ بچہ نکلے تو چاہو تو اسے کھالو۔ جانور کی قربانی کرنے میں اس بچہ کی قربانی بھی شامل ہے۔(ابو داؤد)
صحابہ روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر(ذبح) کیا گیا۔اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے بھی کفایت کر جائے گا۔(ترمذی)
علی ؓنے کہا کہ گائے کی قربانی سات آدمیوں کی طر ف سے کرو۔حجیہ نے پوچھا اگر اس کے پیٹ سے بچہ نکلے تب ؟ اُنہوںنے کہا گائے کے ساتھ اُس کو بھی ذبح کر دو۔(ترمذی)
نادار لوگوں کو بکرے کا گوشت کھانے کو نہیں ملتاہے، اس لئے مالدار لوگوں کوچاہیے کہ زیادہ سے زیادہ بکرے کی قربانی کر کے مفلس ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کریں۔ہر گھر کو اتنا گوشت بھیجنا چاہئے کہ وہ کم سے کم ایک وقت بکرے کے گوشت کا کھانا کھالے۔
بہت ہی سادہ ؤرنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسماعیل
—
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
٭٭٭٭٭